کہتے ہیں رشتے آسمانوں پر طے
ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس مقولے کی صداقت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا مگر اب
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اسے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ گھر بیٹھ کر بغیر کسی
سماجی میل جول کے شادی ہونا ایک ناممکن کام سمجھا جاتا تھا مگر اب گھر
بیٹھے آپ اپنی شادی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ جی ہاں صرف یہی نہیں بلکہ اب
ہزاروں میلوں دور اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی
نے اب آپ کو اتنی وسیع چوائس دے دی ہے کہ آپ سرحد پار کرکے دنیا کے کونے
کونے میں جھانک جھانک کر اپنی پسند، اپنی مرضی کے مطابق شادی کر سکتے ہیں۔
تاہم ہمارے معاشرے میں ایسا کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور ویسے بھی دیکھا
جائے تو ضروری نہیں کہ اس طریقے سے آپ کا کیا گیا انتخاب صحیح بھی ہو۔ ایسا
کرتے ہوئے آپ کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال
اب نئی بات نہیں رہی۔ چیٹنگ کا سہارہ لیتے ہیں اس طرح بعض اوقات اسے ٹیلی
فون کے نعم البدل کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر آج کل چیٹنگ کے
ذریعے نہ صرف دوستیاں بنتی ہیں بلکہ لوگ رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہو جاتے
ہیں۔ اس کی مدد سے لوگ کافی عرصے تک ایک دوسرے کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے
ہیں اور بالآخر جب انڈر سٹینڈنگ زیادہ بڑھ جاتی ہے تو بات شادی تک آجاتی ہے۔
ہم آپ کو ایسی ہی شادیوں کے بارے میں بتائیں گے جو بغیر کسی تعلق کے محض
انٹرنیٹ پر ہو جاتی ہیں اور ایسے رشتے ہو جاتے ہیں، جو بصورت دیگر ممکن
نہیں ہوتے۔
کیپٹن صمد بمطابق معمول رات کے وقت اس بزر کا انتظار کر رہے تھے جو ہر روز
وہ رات گئے سننے کیلئے بے چین رہتے تھے۔ اچانک ان کے کان میں ایک گونج اٹھی
اور وہ فوراً اپنے کمپیوٹر کی جانب لپکے اور سکرین کو ایکٹو کر دیا۔ مسینجر
پر مہرین کا پیغام پڑھنے کو ملا۔ چیٹنگ شروع ہوئی، مہرین نے انہیں آگاہ کر
دیا کہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آرہی ہے۔ یہ سن کر صمد کی خوشی کی
انتہا نہیں رہی۔ مہرین ریاست ورجینیا کی فالز چرچ کاﺅنٹی میں رہتی تھی
۔وہیں پر پلی بڑھی مگر قدامت پسند والدین کے ہوتے ہوئے اس میں مشرقی انداز
کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ٹھیک ایک ہفتے بعد مہرین لاہور پہنچی۔ کیپٹن صمد
بھی کچھ دنوں بعد لاہور آگیا اور دونوں کی ملاقات ہوئی۔ کیپٹن صمد اپنے
والدین کو بھی ساتھ لے آئے تھے اور محض چند دنوں میں رشتہ طے ہو گیا اور
شادی ہو گئی۔ شادی کے فوراً بعد صمد سب کچھ چھوڑ کر امریکہ منتقل ہو گیا
اور آج دونوں خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جی ہاں یہ اپنی نوعیت کا
پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے اور بعد میں بہت سے لوگ ایسے ہی طریقے سے رشتہ
ازدواج میں منسلک ہوچکے ہیں۔
بیرون ملک انٹرنیٹ کے ذریعے شادیوں کا رواج اتنا عروج پر پہنچ گیا ہے کہ
امریکہ میں ایسی شادی کو ناجائز قرار دیا ہے کہ بغیر کسی قانونی چارہ جوئی
کے محض انٹرنیٹ پر ایک معاہدہ طے پانا شادی کے زمرے میں نہیں آتا۔ جب تک
مروجہ قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ تاہم وہاں راتوں رات بات چیت ہوتی
ہے پھر وہ آپس میں ملتے ہیں اور انڈر سٹینڈنگ ہو جانے کے بعد شادی طے پاتی
ہے۔ مگر وہاں شادی اتنا پکا بندھن نہیں۔ اس لیے وہاں شادیاں ہوتی ہیں اور
ٹوٹ جاتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ محض سوشل کنٹریکٹ ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں
کا ملاپ بھی ہے۔ اس لیے سوچ سمجھ کر ہی ایسا کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔
انٹرنیٹ پر شادیوں کا فیصلہ پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان سے باہر
تو اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے ان لڑکیوں کی شادی بھی ہو جاتی
ہیں جو بصورت دیگر گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں۔ روس کی ایک26سالہ مطلقہ خاتون
ارینا تنہا ایک چھوٹے سے قصبے میں مقیم تھی کہ ان کا سامنا امریکہ کے ایک
40سالہ شخص سے ہوا۔ ارینا شکل و صورت کے اعتبار سے کافی اچھی تھی مگر طلاق
کے بعد ان کی دوبارہ شادی کی کوئی امید نہیں تھی۔ امریکی باشندے نے ارینا
کی تصویر دیکھتے ہی ان کے ساتھ لائیو بات چیت کی اور دونوں شادی پر رضا مند
ہوئے۔ امریکی شخص طویل سفر کرکے ماسکو آیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی دلہن
لیکر امریکہ چلا گیا۔ آج ارینا اپنے امریکی شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی
گزار رہی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں رہنے والے ایک
شخص خالد السعود کے ساتھ پیش آیا۔ خالد السعود ایک اشتہاری کمپنی کیلئے کام
کرتا تھا کہ ”سنگلز“ روم میں ان کی ٹکر کیلی فورنیا کی جینا سے ہو گئی۔
دونوں میں بات بن گئی اور جینا سعود کو اپنے دیس لے گئی۔
ایسے واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ ایشیا سے تعلق رکھنے
والے بالخصوص اور دیگر خطوں کے لوگ بالعموم شاید اس لالچ میں یہ شادیاں
کرنے لگے ہیں کہ اس کے بدلے وہ مغربی ممالک پہنچ جاتے ہیں۔ کسی حد تک یہ
بات درست بھی ہے کیونکہ کسی بھی دو غریب ممالک سے تعلق رکھنے والوں کے
درمیان انٹرنیٹ شادی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اگر ایسا ہے بھی تو اسے
”میرج آف کنوینس“ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ترقی یافتہ ملک کے رہنے والے کو
غریب ملک کے شہری سے کوئی لالچ نہیں ہوتی تاہم غریب ملکوں کے شہری شادی کے
نام پر ایسے ممالک کی شہریت ضرور حاصل کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ چیٹنگ کے علاوہ روز افزوں شادی کیلئے ایسی بے شمار ویب سائٹس بنتی
رہتی ہیں۔ یہ ویب سائٹس لڑکے اور لڑکیوں کے پروفائل کسی بھی کے سامنے بمعہ
تصویر رکھ دیتی ہیں اور پھر ان کو موقع دیا جاتا ہے وہ ہزاروں کی تعداد میں
موجود لڑکوں یا لڑکیوں میں سے انتخاب کریں۔ یہ انتخاب وہ عمروں، خطوں یا
خاندانوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ وہ جس لڑکی یا لڑکے کا انتخاب کرتے ہیں تو ان
تک پیغام پہنچانے کیلئے انہیں ان ویب سائٹس کی ممبر شپ کرانی ہوتی ہے یوں
ایک مخصوص رقم کے بدلے وہ ممبر شپ حاصل کرتے ہیں اور پھر پوری سائٹ میں وہ
بلا کسی روک ٹوک کے کسی کو بھی پسند کر سکتے ہیں۔
امریکن سنگلز، ایشین گالز، سنگلز ڈاٹ کام وغیرہ جیسی ان گنت سائٹس ایسے
نوجوانوں کیلئے ہر وقت دستیاب رہتی ہیں جہاں ممبر شپ کے بعد یہ نوجوان اپنے
پروفائل تصویر کے ساتھ دے دیتے ہیں جسے کوئی بھی شخص آسانی سے دیکھ سکتا
ہے۔ یوں وہ ہر روز جب اپنے کوڈ سے ان سائٹس میں لاگ آن ہوتے ہیں تو دنیا
بھر میں بیٹھے ہوئے وہ تمام لوگ جو ان سائٹس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، کو
معلوم ہو جاتا ہے کہ اس وقت کون آن لائن ہیں۔ جس کے مطابق وہ ان لوگوں کے
ساتھ فوری طور پر رابطہ کرتے ہیں۔ رابطہ کرنے سے قبل وہ ان لوگوں کا
پروفائل پڑھتے ہیں۔ پروفائل وہ بنیادی چیز ہوتی ہے جس میں اس شخص کی عمر،
نام، پتہ، مشغلے، تعلیم، ملازمت الغرض وہ تمام معلومات دی ہوتی ہیں جس کے
بارے میں دوسرے لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ان کے ای میل
ایڈریس بھی ہوتے ہیں، جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے اس وقت رابطے کرتے ہیں،
جب وہ آف لائن ہوتے ہیں۔ ایسی ویب سائٹس کو مختلف ادارے سپانسر کرتے ہیں۔
جس کے ذریعے یہ ان افراد تک بھی پہنچ جاتے ہیں جن کو اس بارے میں کوئی علم
نہیں ہوتا۔
انٹرنیٹ شادی کا دوسرا بڑا ذریعہ چیٹنگ ہے۔ چیٹنگ کیلئے ہر کمپنی میسنجر
فراہم کرتی ہے۔ یوں مسینجرکے ذریعے کوئی بھی کسی بھی موضوع پر اپنا ایک روم
کھول دیتا ہے اور آن لائن موجود ہر ایک کو اس میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی میڈیکل، انجینئرنگ، مذہب یا میوزک پر معلومات حاصل
کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے مطابق اپنا ایک روم کھولتا ہے یا پھر موجود رومز
میں سے کسی ایک کو چن لیتا ہے، اسی طرح عمر کے مطابق بھی روم پہلے سے موجود
ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 20سال، 25سال، 30سال اور 50سال تک کے رومز موجود
ہوتے ہیں اور کوئی بھی اپنی دلچسپی کے مطابق ان میں سے کسی ایک میں انٹری
دے سکتا ہے۔
ایسے رومز وقتی طور پر موجود ہوتے ہیں اور دنیا بھر کے لوگ اسے دیکھتے ہیں۔
ان رومز میں جب کسی موضوع پر گپ شپ یا معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے تو سارے
لوگ اسے سکرین پر دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق اس بات چیت میں شمولیت اختیار
کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر شادی کی خواہش میں اکثر لوگ مہینوں لگا دیتے ہیں
مگرانہیں اپنا آئیڈیل نہیں ملتا۔ ہمارے ہاں لوگ انٹرنیٹ شرارت اور تفریح
کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ لڑکا لڑکی بن کر اور لڑکی لڑکا بن کر ایک دوسرے کو
دھوکا دیتے رہتے ہیں۔
انٹرنیٹ چیٹنگ کیلئے مختلف آئی ایس پیز (انٹرنیٹ سروس پروائڈرز) استعمال
ہوتے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور آس پاس کے ممالک میں زیادہ تر امریکن آن لائن
(اے او ایل) استعمال ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ وہاں ورائزن اور اے ٹی اینڈ
ٹی بھی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ ایم ایس
این میسنجر استعمال ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ یا ہو اور نیٹ سکیپ بھی
استعمال ہوتا ہے مگر سب سے زیادہ شادیاں ایم ایس این اور یاہو پر ہی ہوتی
ہیں کیونکہ یہ دونوں ہر ایک کیلئے فری میسنجر سروس فراہم کرتے ہیں اور
انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر شخص ان سے ضرور مستفید ہوتا ہے۔
انٹرنیٹ شادی بعض اوقات بہت کمزور ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک پاکستانی
لڑکے اور فرانسیسی لڑکی کے ساتھ پیش آیا۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی لڑکے کی
بات چیت فرانس میں بیٹھی ایک فرانسیسی لڑکی سے ہوئی۔ دونوں کی شادی ہوئی۔
لڑکی امریکہ پہنچی مگر محض سات ماہ بعد لڑکی کو معلوم ہوا کہ لڑکے کے پاس
وہاں رہنے کیلئے کوئی دستاویز موجود نہیں اور وہ وہاں سیٹل ہونے میں اس
لڑکی کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تو وہ بغیر طلاق لیے واپس فرانس چلی گئی۔
ادھر اس پاکستانی کی امریکہ میں مقیم کزن سے شادی کی تیاری ہونے لگی۔ عین
شادی کی رجسٹریشن کے دن معلوم ہوا کہ لڑکا پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اور
دونوں کا کسی قسم کے طلاق نامے پر دستخط کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، اس لیے
اس وقت ان کی شادی رجسٹرڈ نہ ہو سکی۔ اس کے بعد فرانس میں امریکی سفارت
خانے کے ذریعے طلاق نامے کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے۔
انٹرنیٹ پر شادیوں کا سنتے ہی اکثر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی سمندر پار
کسی جیون ساتھی کو ڈھونڈ لیں اور اس بہانے وہ بھی کسی اور دیس کو اپنا مسکن
بنا لیں۔ ایسا کرنا اس لیے آپ کے مفاد میں نہیں کہ اس غرض سے شادی میں نہ
صرف آپ کو مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا بلکہ دوسرے فریق کیلئے پریشانی کا
باعث بنے گا۔ کسی خاص لالچ کے تحت شادی قطعاً کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے
اس الجھن میں پڑنے سے قبل یہ سوچ لیجئے کہ آپ کوئی جیون ساتھی ڈھونڈنے میں
کتنے مخلص ہیں۔ مزید براں انٹرنیٹ پر چونکہ آپ کسی کے بارے میں صحیح طرح سے
جان نہیں سکتے اس لیے اس کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کرنا آسان نہیں ہوتا۔
دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اپنے بڑوں کو
ضرور اس میں شامل کیجئے گا تاکہ بعد کی پریشانی سے بچا جا سکے۔
حرف آخر یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر شادی کے رجحان سے بہت سے گھمبیر مسائل جنم لے
سکتے ہیں جس سے صرف دو افراد نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہو سکتا ہے۔ اس
لیے مسائل سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے
کا فیصلہ سوچ سمجھ کر اور اپنے والدین کی مرضی سے کیجئے یہی وہ راستہ ہے جس
کیلئے ہمارا مذہب اسلام ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ |