صلیبی امریکہ کے ڈرون طیاروں کے
حملوں میں شدت آگئی ہے۔بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پاکستان کی خود مختاری کو
پامال کررہا ہے۔ صلیبیوں نے واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کررکھا
ہے۔ افغانستان، عراق اور خلیج میں صلیبی افواج کی موجودگی مسلم امہ کی گردن
پر تیز دھار خنجر رکھنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف امریکی انسانی حقوق کے محافظ
بننے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف آزاد اور خود مختار ممالک میں
افراتفری، قتل و غارتگری اور ان پر حملے کرکے بےگناہ لوگوں کاقتل عام
امریکی درندگیاور اسکے قاتل ہونے کا ثبوت ہے۔ ہزاروں میل دوری پر امریکہ کو
کسی سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر امریکہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ میں کئی مرتبہ اس
بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ امریکی اتحاد صلیبی اتحاد ہے۔ حضرت صلاح الدین
ایوبی رحمة اللہ علیہ کے خلاف تمام صلیبی متحد ہوئے تھے مگر سلطان کی
ایمانی قوت اوراللہ تعالٰی کی مدد سے صلیبی خائب وخاسر ہوئے۔ صلیبیوں کی
عادت قدیمہ ہے کہ جب شکست فاش سے دوچار ہوتے ہیں تو مسلمانوں کے آگے اپنی
بے غیرتی اور بے بضاعتی کادامن پھیلادیتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کتنی
مرتبہ ایساہوا ۔ صلیبیوں نے جزیہ دینا منظور کیا اور اطاعت قبول کی۔ لیکن
جیسے ہی کچھ حالت سنبھلی پھر اپنی خباثت پر اتر آئے۔ پہلی جنگ عظیم سے لے
کر آج تک صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ مثلا یہ کہ
مسلمانوں کو دفاعی اور حربی لحاظ سے مفلوج رکھا جائے۔ مسلمانوں کو متفرق
رکھا جائے اور انہیں خلافت کے پرچم تلے جمع نہ ہونے دیاجائے۔ جہادکی روح
مسلمانوں سے نکال دی جائے ۔مغربی کلچر اور مغربی فحاشی کو مسلمان ملکوں میں
عام کیا جائے۔ تعلیم کے میدان میں علوم مروجہ کو اس غلبہ دیا جائے کہ
مسلمان قرآن پاک اور سنت رسول اللہ ﷺ کی حکمرانی و بالا دستی قائم نہ
کرسکیں۔ مسلمانوں کو اقتصادی اور معاشی لحاظ سے اتنا کمزور کردیا جائے کہ
انہیں دو وقت کی روٹی کی فکر رہے۔ غرضیکہ کہ صلیبیوں نے صیہونیوں کے تعاون
سے لاتعداد منصوبے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ افغاستان میں
ملا عمر نے بطرز خلافت حکومت قائم کی اور امن وامان قائم کیا۔ لیکن امریکہ
کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ اب مسلمان خلافت کے پرچم تلے جمع ہوجائیں گے اور اس
نے اپنے صلیبی اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کردیا۔ پھر اس نے
پاکستان کو ملوث کیا۔ پاکستان کے حکمرانوں کوخریدا۔ اپنی خباثت پاکستان کے
سر تھونپ دی۔ افغانستان کے مسلمانوں کے قتل عام میں پاکستان کے حکمرانوں
کاپورا پورا کردار ہے۔ کیونکہ کہ پاکستان میں اسے ہوائی اڈے ملے، سمندری
راستے سے آنے والا ہرطرح کا سامان پاکستان کے ذریعہ اسے ملتا رہا۔ مگر
امریکہ یار بے وفا ہے۔ جن لوگوں نے کہا کہ امریکہ ہمارا حلیف ہے یہ انکی
بکواس تھی اور ہے۔ پاکستان کے عوام اس وقت بھی با شعور تھے اور آج بھی با
شعور ہیں ۔ عوام حکمرانوں کے ان گناہوں میں نہ اس وقت شریک تھے اور نہ ہی
آج کے حکمرانوں کے کرتوتوں میں معاون ہیں۔ اس وقت بھی عوام کی بانگ احتجاج
بلند ہوتی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔
چند دن قبل موجودہ حکومت کی منافقت کھل کر سامنے آگئی کہ جب عوام پر یہ بات
عیاں ہوئی کہ ہوائی سروس سے افغانستا ن میں امریکیوں کو ہر طرح کا سامان
جارہاہے۔ احمد مختار جووزیر دفاع ہے کہتاہے کہ میں نے کھانے پینے کا سامان
انسانی بنیادوں پر ترسیل کی اجازت دی۔ اتنا بڑا قدم اٹھا یا گیا اور پوری
پاکستانی قوم کو بے خبر رکھا گیا۔ ملزم وزیراعظم کا کہناتھا کہ نیٹو سپلائی
کے بارے پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی۔ تو وزیر دفاع تو پارلیمنٹ سے بھی سپریم
نکلا کہ اس نے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کو سامان
بھجوانا شروع کردیا۔ وزیر دفاع نے از خود یہ جرم نہ کیا ہوگا بلکہ اسے کسی
اور بڑے نے کہا ہوگا کہ چپکے سے کاروائی کردو۔ کیونکہ ہمارے اہم ایوانوں
میں صلیبیوں ور صیہونیوں کے ایجنٹ بیٹھے ہیں۔ اگر کوئی غیرت مند ان احسان
فراموشوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو یہ اسے دہشت گردی کا سرٹیفیکیٹ جاری
کردیتے ہیں۔اگر پارلیمنٹ کوئی چیز ہے اور وہاں کوئی غیرتمند مسلمان ہیں تو
وزیردفاع کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسے غدار قرار دیکر قانون کے حوالے کریں۔
کیا وہ بھی اپنے گرو کی طرح جعلی سند استثنا رکھتا ہے؟ ڈرون حملے ہورہے ہیں
لیکن کسی سیاستدان نے صلیبی دہشتگردی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ آخر اسکی
کیا وجہ ہے ؟ نظر آتا کہ سارے سیاستدان کانے ہیں۔ کیا پاکستان بے بس ہوگیا
ہے؟ اسکے پاس اپنی حفاظت کے لیئے کچھ نہیں ؟ کیا امریکی بدمعاشی کا جواب
دینے کی صلاحیت نہیںرکھتا؟ کیاکسی کاروائی کے جواب میں امریکی حملے کاخطرہ
ہے؟ قوم جاگ رہی ہے ذمہ داروں سے اس کا جواب مانگتی ہے؟ گھروں میں بیٹھے
غریب مسلمانوں پر صلیبی بم برسا دیں تو کوئی نہیں بولتا اور جب کوئی سر
پھرا خود کش حملہ کردے تو اس پر صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ڈرون حملوں اور خود
کش حملوں کا چولی دامن کا ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ یہ عمل بھی ناقابل برداشت ہے
اور خلاف شریعت ہے مگر ایسا کرنے والوں کی اپنی سوچ ہے۔ کہ انکے اہل خانہ
اور معصوم بچوں کو صلیبی ڈرون حملے کرکے مار ڈالتے ہیں اور پاکستان کی
حکومت اس ظلم کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کرتی تو یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ
انتقام میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ چند ایسی شخصیات ہیں کہ انکے کسی من مانے
عمل پر اعتراض کرنا معیوب سمجھاجاتا ہے مثلا یہ کہ شوہر کے خلاف عورت نہیں
بولتی، باپ کے خلاف اولاد زبان نہیں کھولتی ، سالے سالیاں بہنوئی کے خلاف
اپنی بہن کی خاطر زبا ن نہیں کھولتے ۔ کسی ظالم و جابر کے ظلم و ستم سے
خائف لوگ زبا ن نہیں کھولتے،کسی کا مال جس نے کھایا ہو اسکے خلاف بھی زبان
کھولنا معیوب ہوتاہے۔ اب میں حکمرانوں سے اور دیگر ذمہ دار سیاستدانوں سے
سوال کرتا ہوں کہ ان میں سے آپکا صلیبیوں کے ساتھ کون سا تعلق ہے کہ آپ کی
زبانیں بند ہیں۔ کسی نہ کسی کا کچھ نہ کچھ تو ہے۔ اب نہیں بولوگے تو کب
بولوگے جب کھیت جل جائے گا۔ ابو عبداللہ اندلسی کی طرح ٹسوے بہاﺅ گے۔
برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ انگریز نے نہیں کیا ۔ہزاروں میل کی
دوری سے گنتی کی فوج کے ساتھ اتنے بڑے ملک پر قابض ہونا انگریز نے کبھی
خواب میں بھی نہ دیکھا تھا۔ یہ سب کچھ کیا کرایا یہاں کے غیرت و حمیت اور
ایمان باختہ عناصر کا ہے۔ آج بھی ایسے ہی لوگ موجود ہیں جو ویسا ہی کردار
ادا کررہے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک جتنے لوگوں نے پاکستان پر
حکومت کی وہ صلیبیوں اور صیہونیوں کے ایجنٹ تھے اور ہیں۔ کچھ تو نمک حلالی
کرنی چاہیئے۔ ہمارے ملک کے حکمران اتناتو دیکھیں کہ کیادوسرے ممالک مثلا
بھارت کے ہندو کیابھارت کے خلاف کسی کا ساتھ دیتے ہیں؟ کیاچین کے باشندے،
جاپان کے باشندے کہ جنہوں نے دس سال کے امریکی قبضہ کے دوران امریکی زبان،
امریکی کلچر کچھ بھی نہیں اپنایا صرف اس لیئے کہ وہ امریکیوں سے نفرت کرتے
تھے۔موت کو یاد کرو، موت کا فرشتہ سر پر کھڑا ہے، قبر میں کوئی ساتھ نہ دے
گا، رسول پاک ﷺ کو کیا جواب دوگے کہ انکی امت کے ساتھ تم نے کیا کیا ہے۔
میدان محشر کی رسوائی اور عذاب جہنم سے بچو۔ سیدھے ہوجاﺅ ۔ سچے دل سے توبہ
کرکے اسلام کے علمبردار ہوجاﺅ۔ |