میں نے اس ماں کے ہاتھ جسٹس (ر)جاوید
اقبال کے گریبان کی طر ف بڑھتے دیکھے تو مجھے خوف آیا کہ اب صبرکا پیمانہ
چھلک اٹھا ہے اگر یہ ظلم چند دن مزید اسی طرح جاری رہاتویہ ہاتھ شاید وہا ں
بھی پہنچ جائیں جن کےلئے قوم بحثیت مجموعی اب تک احترام کے جذبات رکھتی
ہے۔پارلیمنٹ ہاﺅس کے ماتھے پر لکھے کلمہ طیبہ کے سائے میں کھلے آسمان کے
نیچے سڑک پر بیٹھی یہ بیسیو ں مائیں اپنے بیٹوں اور بیویاں اپنے شوہروں کو
تلاش کرنے اپنے معصوم بچوں کو حالات کے رحم وکرم پر گھر میں چھوڑ کر ہزاروں
میل کا سفر طے کرکے ملک کے طول وعرض سے جمع ہیں یہاں موجود ان ماﺅں٬ بزرگو
ں اور بچوں کی چیخوں اور دہائیوں سے آسمان کے فرشتے بھی لرزرہے ہیں لیکن گر
خوف نہیں ہے تو انھیں جو پاکستان میں غیر مرئی طاقتیں کہلاتی ہیں 20دن
گزرنے کے باوجود رات کی تاریکی اور جسم میں سوراخ کردینے والے یخ بستہ
ہوائیں بھی ڈیڑ ھ ماہ کی معصوم بریرہ کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکیںوہ اپنے
بابا کو تلاش کئے بغیر یہاں سے جانے کےلئے تیار نہیں ....لیکن جمہوریت کے
عالمی چیمپئن تادم تحریر اس اجڑے قافلے کو پانی کا گھونٹ بھی پیش نہ کرسکے
ان میں ہزاروں چیختی چنگھاڑتی آمنہ مسعود جنجوعہ کا سامنا کرنے کا حوصلہ
اور جرات نہیں ۔درست کہا قاضی حسین احمدنے کہ نوبت یہاں تک پہنچانے میں ہم
بحثیت قوم مجرم ہیں پھرہماری بہن اور بیٹی آمنہ مسعود جنجوعہ اور ان کے
ساتھ چند رضاکار وں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ پوری قوم کے گناہوں کی سزا صرف
وہ بھگتیں پوری قوم کو ان کی پشتیبانی کرنا ہوگی اس کے پاس ہزاروں خاندانوں
کا ڈیٹا ہے جن کے کفیل ظلم کی قید میں ہیں ہم سب کو ان خاندانوں کی کفالت
کا ذمہ لینا ہو گا خواجہ سعدرفیق نے درست اعتراف کیا کہ ہم یہاں آتو جاتے
ہیں لیکن ہمیں ان ماﺅں بہنوں سے آنکھ ملانے کی جرات نہیں ہو تی ہم سب مجرم
ہیں ہم الفا ظ تو ادا کرتے ہیں لیکن یہ الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے ۔
یہ داستان ہے ا س قافلے کی جس کا آغاز آمنہ مسعود جنجوعہ نے اکیلے ہی کیا
تھا لیکن آج ان کی طرح خواتین اپنے شوہروں٬ بچے اپنے بابا کو تلاش کرنے
کےلئے 15فروری سے مسلسل غیر معینہ مدت کےلئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ڈی چوک
میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں بے سروسامانی کے عالم میں اس قافلے کو پوچھنے
آصفہ اور بلاول کے بابا کو فرصت نہیں کہ وہ ان کے پیاروں کےلئے ہمدردی کے
دوبول تو بول دیں عبد القاد ر گیلانی تو لاپتا نہیں پھر یوسف رضا گیلانی کو
کیا پڑی ہے کہ وہ اس ماں کا دکھ سنیں جس کے جواں سالہ بیٹے کو اس بھر ی
دنیا میں گم کردیا گیا ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کے آفس میں بیٹھے تھے تو میں نے
ان سے کہاکہ کچھ عناصرآپ کے احتجاج اور اس پرامن تحریک کوسبوتاژ کرنے کےلئے
شرارت بھی کرسکتے ہیں لیکن ہم نے ہر موقع پر صبر سے کام لینا اور اس تحریک
کو پرامن رکھنا ہوگا انھوں نے میر ی اس بات سے اتفا ق کیا اور کہا کہ ہم
پاکستان کے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی جدوجہد کررہے ہیں اور اسی
پیرائے میں ا سکوجاری رکھیں گے ....لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے....کہ ....
کب تک وہ معصوم بچہ جو چھوٹا تھاتواس کے بابا کو لاپتہ کیا گیا آج وہ جوانی
کی دہلیز پر ہے لیکن اس کے بابا اب بھی لاپتہ ہیں وہ کب تک پر امن رہے
گاکیا آپ ان ہزاروں معصوم بچوں کو دہشت گرد بننے پر مجبور نہیں کررہے جو اس
ملک کا سرمایہ ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ترقی کےلئے اپنا کردار ادا
کرنا چاہتے ہیں.... لیکن آپ انھیں ایسے راستے پر جانے کےلئے مجبور کررہے
ہیں جو پوری قوم کی تباہی کی طرف جاتا ہے۔ آپ ہمارے لیے محترم ہیں ہم رات
کو سوتے او رآپ کی آنکھیں جاگتی ہیں پاک فوج نے انڈیا سے تین جنگیں لڑیں....
اور آ پ نے ان ساٹھ برسوں کا ہرلمحہ میدان جنگ میں گزارا....ہمیں آپ کی
قربانیوں کی قدر ہے آپ بھی عوام کی قربانیوں کی قدر کریں .... .... گر کوئی
مجرم ہے تو اسے عدالت کے کٹہرے میں لائیں ....گر کوئی ملک دشمن ہے تواس کا
چہرہ عوام کے سامنے لائیں آج عوام کو آپ سے گلہ .... اور.... آپ کو عوام سے
گلہ ....حضور عوام کو اپنا بنائیں گے تو ملک کا ہرنوجوان آپ کی طرف بڑھنے
والی آفت کو اپنے سینے پر روکے گا....گر عوام کو اپنا دشمن بنائیں گے تو
....پھر شاید ....شاید ....سقوط ڈھاکہ کو زندہ کرنے میں آپ کا بھی نام ہو
گا ۔ |