این اے86 چنیوٹ کا میدان کون مارے گا

چنیوٹ کوڈسٹرکٹ بنانے کاکریڈٹ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اورپنجاب حکومت کوجاتا ہے اورچنیوٹ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) اوورسیز کے مرکزی سیکرٹری جنرل شیخ قیصرمحمودنے بھی کلیدی کرداراداکیا،وہ آنیوالے انتخابات میں این اے 86سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوارہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں نوازشریف نے شیخ قیصرمحمود کوچنیوٹ کے بنیادی مسائل کاپائیدارحل تلاش کرنے اوراس کیلئے پنجاب حکومت کی مدد سے عوام کوریلیف فراہم کرنے کی خصوصی ہدایت کی ہے۔ان کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ کمٹمنٹ اورپرویزی آمریت کے دوران پارٹی کیلئے خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔وہ ایک نوجوان اورسلجھے ہوئے سیاستدان اوربے داغ ماضی کے حامل ہیں۔حلقہ میں سماجی ،فلاحی اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے شیخ قیصرمحمود کو ناصرف چنیوٹ کے شہری بلکہ دیہات کے لوگ بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ نوجوان طبقے سمیت ہرعمرکے لوگوں میں بیحد مقبول ہیں۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 2002ءکے الیکشن میں منتخب ہونیوالے سابق ممبرقومی اسمبلی طاہرحسین سیّد جومسلم لیگ (قائداعظمؒ)سے مسلم لیگ (ن) میں آئے اورجب لاہورمیں تحریک انصاف کاجلسہ کامیاب ہواتو یہ فوراً تحریک انصاف میں چلے گئے اور1997ءکے انتخابات میں چنیوٹ سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے سابق ممبرقومی اسمبلی قیصراحمدشیخ کے درمیان ٹکٹ کیلئے مقابلہ ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے 2008ءکے الیکشن میں منتخب ہونیوالے سٹنگ ایم این اے عنایت شاہ جوتقریباً58000ووٹ لے کرکامیاب قرارپائے تھے ۔عنایت شاہ کامقابلہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوارڈاکٹراشرف چدھڑ کے ساتھ تھاانہیں تقریباً 600ووٹ ملے ۔مسلم لیگ (ن) چنیوٹ کے صدرآفتاب ہرل کوپی پی 73سے تقریباً 6600ووٹ ملے جبکہ ان کے گھروالے پولنگ بوتھ سے انہیں تقریباً60ووٹ ملے تھے۔اس حلقہ سے آزادامیدوارمولاناالیاس چنیوٹی کامیاب قرارپائے جوبعدمیں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے۔پی پی74سے پیپلزپارٹی کے حسن مرتضیٰ تقریباً5000کی برتری کے ساتھ کامیاب ہوئے ،ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے آخری وقت میں مولانارحمت اللہ کی حمایت کااعلان کیا مگرانہیں شیرکانشان الاٹ نہیں کیا جاسکاتھا ۔طاہرحسین سیّد پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ (قائداعظم ؒ)اورپھرمسلم لیگ (ن)میں گئے اورا ن دنوں پاکستان تحریک انصاف میں ہیں مگروہ وہاں بھی زیادہ مطمئن نظرنہیں آرہے ،بار بار پارٹیاں تبدیل کرنے کیوجہ سے حلقہ کے لوگ انہیں قابل اعتماد نہیں سمجھتے ۔

قیصراحمدشیخ نے1993ءمیں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پرالیکشن لڑامگرہارگئے ،وہ1997ءمیں آزاد امیدوارکی حیثیت سے میدان میں اترے اوراس بار کامیابی نے ان کے قدم چوما۔چنیوٹ میں دائیں بازوکاحامی ووٹ بنک درحقیقت وڈیرہ ازم کیخلاف ہے ،اس ووٹ بنک نے قیصراحمدشیخ کی کامیابی میں بنیادی کرداراداکیا۔مگرکامیابی کے بعد قیصراحمدشیخ ڈیلیورکرنے اورعوام کے اعتماد پرپورااترنے میں ناکام رہے۔تاہم انہوں نے بحیثیت ایم این اے کوئی پارٹی جوائن نہیں کی تھی جس کی وجہ حلقہ میں کوئی خاص ترقیاتی کام نہیں ہوئے، مگران دنوں وہ عمران خان کے سونامی کاحصہ ہیں۔تاہم قیصراحمدشیخ نے اپنا کاروبار اورگھرمستقل طورپرکراچی میں منتقل کرلیا ہے جبکہ ان کاصاحبزداہ لاہورمیں شفٹ ہوگیا ہے ۔چنیوٹ کے شہری ووٹرہمیشہ فیوڈل ازم کیخلاف رہے ہیں،یہ ووٹ بنک کسی مخصوص امیدوارکی پراپرٹی نہیں ہے جوبھی دائیں بازوکاحامی اورکرداروگفتارکاغازی میدان میں اترے گاوہ میدان مارلے گا ۔جس کی مثال یہ ہے کہ لالیاں سے دوست محمدلالی نے الیکشن لڑاتوانہیں تقریباً42000ووٹ پڑے ،لالیاں سے ہی ریاض لالی کوتقریباً40000ووٹ ملے جبکہ1993ءمیں مسلم لیگ (ن) کے نامزدامیدوار قیصراحمدشیخ کو42000ہزار ووٹ پڑے۔ چنیوٹ میں دائیں بازوکاحامی ووٹ بنک آج بھی غالب اکثریت میں ہے جوماضی کے مقابلے میں 45000سے تجاوزکرکے تقریباً80000کے نزدیک پہنچ گیا ہے اوریہ دائیں بازوسے تعلق رکھنے والے امیدوارکی کامیابی میں اہم کرداراداکرے گا۔ تحریک انصاف کے قیصراحمدشیخ اورمسلم لیگ (ن) کے شیخ قیصرمحمود کے ملتے جلتے نام سے اکثرلوگ الجھن میں پڑجاتے ہیں ،پچھلے دنوں وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف فیصل آبادآئے توشیخ قیصرمحمود کی بجائے قیصراحمدشیخ ان کے ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ گئے ۔میاں شہبازشریف کوفوراًاپنے سٹاف کی غلطی کاعلم ہوگیا مگرانہوں نے قیصراحمدشیخ کی عمرکااحترام کرتے ہوئے انہیں ہیلی کاپٹرسے نیچے اتارنے سے روک دیا ۔تاہم انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نشان شیر سے ووٹرکوکسی الجھن کاسامنا نہیں کرناپڑے گا۔

2002ءمیں عنایت شاہ کومسلم لیگ(قائداعظم ؒ )کی ٹکٹ پر8000ووٹ پڑے جبکہ 2008ءکے انتخابات میں ان کے پاس پیپلزپارٹی کاٹکٹ تھا اوربینظیربھٹو کی شہادت پرعوام نے ہمدردی کی بنیادپران کے حق میں فیصلہ سنادیا اورانہیں اس بار58000ووٹ پڑے ،مگر آئندہ عام انتخابات میں ہمدردی نہیں خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پرفیصلہ ہوگا۔بیسویں ترمیم کے بعدامیدہے ایک غیرجانبدارنگران حکومت انتخابات کے شفاف انعقادکویقینی بنائے گی ۔آج کل یوتھ کادورہے ،میاں نوازشریف نے چنیوٹ کیلئے ایک نوجوان امیدوارنامزدکرکے یوتھ کوایک اچھاپیغام دیا ہے۔ماضی میں چنیوٹ وڈیروں کی جاگیر بناہوا تھا ،نوجوان شیخ قیصرمحمود کی نامزدگی نے ان وڈیروں کے ایوانوں میں ہلچل مچادی ہے۔دائیں بازوکے حامی ووٹر میاں نوازشریف کے ساتھ ہے اورپاکستان کواعتدال پسندریاست بنانے کے حامی لوگ میاں نوازشریف کی سیاسی سوچ کوپسند کرتے ہیں ۔ماضی میں اس حلقہ سے وہ امیدوار کامیاب ہوئے جنہوں نے کئی بار سیاسی وفاداری بدلی تھی ۔ جبکہ شیخ قیصرمحمودپچھلے سترہ سال سے چنیوٹ میں مسلم لیگ (ن) کی آبیاری کررہے ہیں ،انہوں نے چنیوٹ کے کونے کونے میں مسلم لیگ (ن) کی شاخیں پھیلادی ہیں ۔ان کاعوام کے ساتھ براہ راست اور مسلسل رابطہ انہیں دوسرے امیدواروں سے ممتازکرتا ہے ۔شیخ قیصرمحمود کی نامزدگی سے وڈیروں کی اجارہ داری سے بیزارلوگوں میں خوشی کی لہردوڑگئی ہے۔مقامی ووٹرزکایہ سمجھنا ہے کہ اگرشیخ قیصرمحمود کامیاب ہوئے تووہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے معتمدہونے کی وجہ سے حلقہ کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز حاصل کرسکتے ہیں جبکہ کوئی دوسرامیدوارا ایسا نہیں کرسکتا۔ایک عام تاثرہے کہ ماضی میں چنیوٹ پیپلزپارٹی کادوسرا لاڑکانہ تھا مگر انتھک وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کی خدمات اورچنیوٹ میں تعمیراتی منصوبوں نے اب اس ضلع کومسلم لیگ (ن) کاقلعہ بنادیا ہے۔ جس طرح مقامی لوگوں نے شیخ قیصرمحمود کوپذیرائی دی ہے لگتاہے وہ پچھلے کامیاب امیدواروں کے ووٹوں کاریکارڈتوڑدیں گے۔

مولانارحمت اللہ بھی چنیوٹ سے ایم این اے رہے ہیں ،پرویزمشرف دورمیںچنیوٹ کی نئے سرے حلقہ بندی ہوئی توبھوانہ آدھاچنیوٹ اورآدھاجھنگ کاحصہ بن گیا اوریوں مولانارحمت اللہ کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوگئے ۔عمررسیدہ اورقوت سماعت متاثرہونے کیوجہ سے مولانارحمت اللہ کا عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے اورغیرفعال ہونے کی وجہ سے ایم این اے منتخب ہونیوالے مولانارحمت بعدمیں ایم پی اے کا الیکشن ہارگئے ۔طاہر شاہ کی سیاسی قلابازیاں مشہورہیں ،اوراب بھی ان کی سیاسی وفاداری مشکوک ہے ۔ان کابھتیجاذوالفقارشاہ تحصیل ناظم رہا ہے اوران غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کاالزام لگایاجارہاہے ،اس وجہ سے یہ حکومت کی چھتری کے بغیرنہیں رہ سکتے ۔ان کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں کہ ہوسکتا ہے ۔اب دیکھنا ہے ان کی سیاست کااونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔این اے 86چنیوٹ میں مسلم لیگ (ن) کاووٹ بنک ہے لیکن ماضی میں قیادت کی طرف سے متنازعہ امیدوارمیدان میں اتارنے سے کی وجہ سے ووٹرزنے اپنے اپنے پسندیدہ امیدواروں کوووٹ دیا۔جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کواس حلقہ سے شکست کاسامنا کرناپڑا۔
Talal Amjed
About the Author: Talal Amjed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.