دہلی پولیس کا ایک اور غیر انسانی سلوک بے نقاب

دن دہاڑے قانون کی دہلیز پرکانسٹبل کو کیا قلابازیاں کھانے پر مجبور

ابھی24جنوری کے واقعے کو مہینہ بھر بھی نہیں گزرا کہ دہلی پولییس کے کانسٹیبل کے ساتھ ایک اور غیر انسانی سلوک کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے ۔ پچھلے سانحہ میں جہاں کیٹرنگ اسٹاف نے کانسٹیبل کو نشانہ بنایا تھا اور موقع پر موجود اسی کے محکمے نے تماشہ دیکھا ہوگاتو موجودہ واقعے میں خود اپنے ہی محکمے کے ہاتھوں پولیس اہلکار کواذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔عدالت کے احاطے میں سر کے بل قلابازی کھائے ہوئے دیکھنا سب کو عجیب لگا۔ وکلاء کو پتہ چلا کہ یہ سب ایڈیشنل ڈی ایس پی کے حکم پر ہو رہا ہے تو پٹیالا ہاؤس عدالت کے وکیل اس فیصلے کی مخالفت میں سامنے آ گئے۔ وکلاءنے 100 نمبر ڈائل کیا لیکن جب اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو انہوں نے جج انچارج کے سامنے شکایت کی۔ پھر عدالت نے اس معاملے میں کارروائی کا حکم دیا۔

ترون رانا، ایس این شرما، مہندر سنگھ یادو اور بی بی تیاگی وکلاءکے چیمبر گیٹ نمبر 6کے ٹھیک سامنے ہے۔کانسٹیبل دنیش کمار اسی گیٹ پر چیکنگ کرتا ہے۔ شکایت کرنے والے وکلاءکا کہنا تھا کہ تقریبا 11 بجے انہوں نے دنیش کوقلابازیاں لگاتے ہوئے دیکھا تو کچھ ہی دیر میں انہیں سارا ماجرا سمجھ میں آ گیا۔ مہندر یادو نے بتایا کہ انہوں نے اپنے موبائل سے 100 نمبر ڈائل کیا۔ انہیں شکایت نمبر112 دیا گیا، کچھ دیر میں پی سی آر وہاں پہنچی لیکن پولیس والوں نے کہا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر وکلاءنے اس معاملے میں جج انچارج کو شکایت کی اور اس کی کاپی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ہوم سیکریٹری، پولیس کمشنر اور بار کونسل کے دہلی کے چیئر مین کو بھی ارسال کی۔

شکایت میں کہا گیا کہ انہوں نے تقریبا 11 بجے دیکھا کہ وردی میں ایک کانسٹیبل گیٹ نمبر6 سے کورٹ کی جانب قلابازیاں لگاتا ہوا جا رہا ہے۔ ایڈیشنل ڈی سی پی سےجو پی کرولا نے کانسٹیبل دنیش کمار کوکرولنگ کرنے کیلئے کہا تھا۔ وکلاءنے جج انچارج سے شکایت کی اور درخواست کی کہ وہ معاملات میں دخل دیں۔ ساتھ ہی کانسٹیبل کے ساتھ غیر انسانی حرکت کی گئی ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ وکلاء نے کانسٹیبل کو قلابازیاں کھاتے ہوئے ایکشن کو موبائل کے کیمرے سے ریکارڈ کر لیا اور اس ویڈیو کلپ کو عدالت کے سامنے پیش کیا۔

سینئر ایڈوکیٹ رمیش گپتا نے کہا کہ اس طرح سے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کورٹ کیمپس میں اس طرح کی واردات ہوئی اور وکلاءنے بر وقت ہمت دکھائی تبھی یہ معاملہ اجاگر ہو سکا۔ وہیں کوآ رڈنیشن کمیٹی آل بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ندیم چودھری نے بتایا کہ متعدد مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس والے صحیح طرح سے ڈیوٹی انجام نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ اعلٰی افسران نے ایکشن لیا ہوگا لیکن اس طرح سے ایکشن نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ وہیں واقعہ کے وقت موقع پر موجود ایڈووکیٹ کرن سنگھ نے کہا کہ یہ واقعہ غیر انسانی اور غیر قانونی ہے۔ جمہوری ملک میں اس طرح سے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ وہیں وکیل اجے دگپال نے کہا کہ اگر کوئی پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کے فی لاپروا ہے تو اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے لیکن اس طرح سے ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ذمہ داری کے ساتھ اپنی ڈیو ٹی انجام دینے والے پولیس کانسٹبل کو24جنوری کی صبح نئی دہلی اسٹیشن پر کیا ملا؟ 24جنوری کی وہ سرد صبح کانسٹیبل ریاض حسن کوموت کی نیند سلا گئی۔نئی دہلی کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر تعینات کانسٹیبل ر یا ض حسن کی 1978سے 2012تک کی حکومت کو دی گئی خدمات بھی اسے نہ بچا سکیں۔ صبح کے 6بجے سے 6بجکر 25منٹ کے دوران کیڑنگ اور پولیس عملہ کے درمیان ریل کی پٹریوں پر خونی کھیل شروع ہوکر ختم بھی ہوگیا۔ لدھیانہ شتابدی ایکسپریس میں اشیائے خورد ونوش پر مشتمل سامان چڑھانے پر شروع ہوا تنازع اس قدر سنگین ثابت ہواتھاکہ ریلوے کے کیٹرنگ انسپکٹرنے دہلی پولس کے کانسٹیبل کو اتنا پیٹاتھا کہ اسکی موت واقع ہوگئی۔جھگڑ ے کے شکار اس پولیس اہلکار کا قصورمحض اتنا تھا کہ اس نے اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے پیر کے روز صبح تقریباً 6بجے اس وقت مداخلت کی جب حفاظتی ضوابط کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے کیٹرنگ عملے کے ا ہلکار پلیٹ فارم نمبر ایک پر رکی ہوئی شتابدی ٹرین میں کھانے پینے کا سامان چڑھا رہے تھے۔ اس کیلئے مذکورہ کا رکنان لائن پربنے ہوئے پاتھ و ے کا استعمال کرنے کی بجائے پٹری کے اوپر سے گزر رہے تھے جس پر سپاہی ریاض حسن نے اعتراض کیاتو کیٹرنگ انسپکٹر دھنپت اس سے الجھ گیا۔ دھنپت نے حوالدار کی جم کر پٹائی کردی جس سے وہ بیہو ش ہوکر گر پڑا۔اسی حالت میں اسے لیڈی ہارڈنگ اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ ریلوے اسٹیشن پرنصب 54 کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں اور 500حفاظتی اہلکاروں کی تعیناتی کے درمیان خونی تصادم پر انتظامیہ کس نتیجہ پر پہنچی‘ اسے جاننے کیلئے آج بھی لوگ منتظر ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126049 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More