ناممجلہ:نعت رنگ(شمارہ:۲۲)
مرتب:سید صبیح الدین صبیح رحمانی،صفحات:560قیمت :300،سال اشاعت:2011
ناشر:نعت ریسرچ سینٹر، B-50، سیکٹر 11/A، نارتھ کراچی(پاکستان)
مبصر:ذیشان احمد مصباحی
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فروغ نعت صبیح رحمانی کی زندگی کا واحد مشن ہے- وہ
سوتے جاگتے، چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے اسی حوالے سے سوچتے رہتے ہیں-
انہوں نے نعت گوئی اور نعت خوانی کے ساتھ ادبی افق پر نعت کی فنی اہمیت کو
تسلیم کرانے اور اس پر عالمانہ وناقدانہ بحث و نظر کے لیے نعت رنگ کا جو
ادبی سلسلہ شروع کیا ہے وہ پابندی کے ساتھ جانب منزل گامزن ہے- اس وقت میرے
سامنے نعت رنگ کا۲۲واں تازہ شمارہ ہے- حسب سابق اس کا سرورق بہت ہی جاذب ہے
جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، مضامین و مقالات بھی فی الجملہ گزشتہ
سلسلوں کے مطابق ہیں- کچھ جدت طرازیاں اور سحر نگاریاں بھی ہیں جن کا ذکر
بطور خاص یہاں ضروری ہے-
صبیح رحمانی نے اس شمارے میں ایک جدت طرازی یہ کی ہے کہ اس بارسے ہر شمارے
میں کسی مہمان مدیر سے ابتدائیہ لکھوانے کا آغاز کیا ہے- اس بار یہ قرعہ
جناب ریاض مجید کے نام کا نکلا ہے- ریاض صاحب نے نعتیہ ادب پر تحقیقی ورک
کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے راجہ رشید محمود کے ماہ نامہ” نعت“ اور صبیح
رحمانی کے” نعت رنگ“ کی خدمات کا اعتراف کیاہے- اس کے ساتھ ہی انہوں نے
اپنے اظہاریہ میں یہ بات بطور خاص کہی ہے کہ:” محبت کے جذبے ازلی و ابدی
ہوتے ہیں، غیر مبدل، مگر ان کا اظہار سچا تخلیقی تجربہ اور تازہ کاری چاہتا
ہے-“
نعتیہ شاعری میں سہل نگاری ، تقلید، مضامین کی یکسانیت اور جدت طرازی و
تنوع سے گریزاں رویے کا چلن ہے جس سے ریاض مجید نعتیہ شعرا کو نکالنا چاہتے
ہیں- جناب ریاض مجید کی اس بات کو پروفیسر عتیق اللہ صاحب (انڈیا) کی اس
رائے سے جو ڑ کر دیکھیے تو مطلب اور واضح ہوگاجس کا اظہار انہوں نے راقم کے
ساتھ حالیہ ملاقات میں کیا کہ ”دراصل نعتیہ شاعری میں کوئی اتنا بڑا شاعر
سامنے آیا ہی نہیں جو اہل ادب کو اپنی طرف متوجہ کرتا- جس طرح نظم کو اقبال
نے اور آزاد نظم کو ن -م راشد نے اس عنبری پر پہنچادیا کہ لوگ اس کی طرف
متوجہ ہونے پر مجبور ہوگئے-“ جناب پروفیسر عتیق اللہ کی رائے سے اتفاق اور
عدم اتفاق سے قطع نظر، ان کے جذبے کی سچائی اور جناب ریاض مجید کے مشورے کی
اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا-
جناب صبیح رحمانی نے اپنے اداریے میں اپنے نعتیہ جذبات وواردات کے ساتھ جڑی
شخصیات جنہوں نے اس بیچ اس دنیا کو خیر باد کہا ہے ، کا ذکر خیر، محبت اور
دور کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کیا ہے- یقینا ان شخصیات کے اٹھ جانے سے محفل
نعت سوگ وار ہے جس کا غم قارئین کو بھی ہوگا- ان شخصیات میں پروفیسر شفقت
رضوی، ڈاکٹر عاصی کرنالی، نور احمد میرٹھی کی خبر رحلت سے ہمیں خاص طور سے
افسوس ہوا- اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے-
”مقالات“ کے باب میں پہلی تحریر ڈاکٹر شعیب نگرامی کی ہے- موصوف کا تعلق
سعودی عرب سے ہے-” نعت رنگ“ کے صفحات پر تازہ وارد ہوئے ہیں- ان کی تحریر
کو صبیح رحمانی نے اپنے قیمتی صفحات پر جگہ دی ہے، یہ بڑے حوصلے کی بات ہے-
ہم اپنے حوصلے کو بھی سلام کرتے ہیں کہ ہم اس تحریر کو پڑھ سکنے میں کامیاب
ہوگئے ورنہ ہماری عادت تو یہ ہے کہ ہم ایسی تحریریں پڑھنے سے پہلے ہی صاحب
تحریر کو سلام کرلیتے ہیں- اندازہ یہ ہواکہ نگرامی صاحب ملامت نہیں، محبت
بلکہ رحم کے مستحق ہیں- ہمیں شکوہ اس کا نہیں ہے کہ ان کی رائے ہمارے موقف
کے سخت خلاف ہے یا یہ کہ انہوں نے بڑے بڑے اساطین امت کو جہنم کا راستہ
دکھادیا ہے - یہ فریضہ تو ان کے ہم خیال حضرات بجائے ایصال ثواب کرتے ہی
رہتے ہیں- انہوں نے کچھ بھی نیا نہیںکیا ہے- انہوںنے نیا صرف یہ کیا ہے کہ
بغیر حوالے اور دلائل کے بھی جس شان سے تکفیر کے فتاوے صادر کیے ہیں اس سے
ان کی باطنی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے-
ہندوستان کے ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب کی تحریرمقالات کے باب میں دوسرے نمبر
پر ہے، جو اس کا صحیح مقام ہے- یہ تحریر دراصل نعت رنگ شمارہ 21 میں جناب
رشید وارثی مرحوم کی تحریر ”اردو نعت میں ضمائر کا استعمال“ کا تنقیدی
جائزہ ہے- ہمیں بعض دفعہ یہ دیکھ کر بڑی گھٹن ہوتی ہے کہ جہاں کوئی مسئلہ
نہ ہو، ہمارے بعض اہل علم وہاں بھی مسئلہ پیدا کرلیتے ہیں اور اس پر
تحقیقات کا ایسا دریا بہادیتے ہیں کہ اس مسئلے کے سوا ساری چیزیں غرقاب
ہوجاتی ہیں- سیدھی سادی بات ہے کہ ہر زبان کا اپنا اسلوب و اندازہے - اردو
کے جتنے بڑے ممتاز ادبا، شعرا اور اہل زبان ہوئے ہیں تقریباً سب کے یہاں کم
از کم شاعری کی حدتک یہ اسلوب رائج اور مقبول ہے کہ وہ حمد و نعت میں اپنے
ممدوح کے لیے تو،تیر اور تم جیسے ضمائر پورے ادب اور ذوق وشوق کے ساتھ کرتے
ہیں- اب بلاوجہ اس بحث کو طول دینا اور تحقیقات کے انبار لگانا میری سمجھ
سے باہر ہے- اگر کچھ لوگوں کے پاس وقت زیادہ ہے تو اس کے لیے کوئی جائز
مصرف کیوں نہیں تلاش کرتے؟اگر شخصی طور پر یاکسی علاقے کی سطح پر کسی کو
تم، تو اورتیرا میں تنقیص کا پہلو جھلک رہا ہے تو یہ اس کا اپنا ذاتی یا
علاقائی مسئلہ ہے- وہ اپنا فتویٰ اپنی ذات اور اپنے علاقے تک رکھے، پوری
دنیائے اردو کو وہ اپنا ”ہم ذوق “بنانے کے درپے کیوں ہے؟ ڈاکٹر اشفاق انجم
بھارت کے کس کونے کے ہیں، مجھے نہیں معلوم، وہ جہاں کے بھی ہوں، اگر وہاں
پر نعت اور حمد میں تو، تیرا اور تم کا استعمال ممنوع سمجھا جاتا ہو تو وہ
نہ کریں، لیکن بالعموم پوری اردو دنیا میں بطور خاص شاعری میں تم، تیرا اور
تو کا استعمال، غایت محبت اور وفور جذبات کے ساتھ رائج ہے- ایسے میں وہ
پوری دنیا میں لٹھ لے کر نکلنے کی زحمت کیوں کررہے ہیں؟ علم و تحقیق کے
دوسرے بہت سے موضوعات خالی ہیں- کچھ اور بھی کرلیں- اب اشفاق صاحب کے ادب
عالیہ، تحقیقات بدیعہ اور افکار بلند کی چند مثالیں بھی بلاتبصرہ دیکھ لیں-
”اردو میں ضمیر‘ آپ“ کے ہوتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ”تو“ کے
استعمال کو نامناسب سمجھا گیا ہے-“
”ضمیر ”تو “ آج بھی محبوب کے لیے استعمال ضرور ہوتی ہے لیکن یہ محبوب غزل
کا محبوب ہے-“
”جب خود اللہ تعالیٰ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے نام کے بجائے
یٰسین ، طٰہٰ، مزمل تک جیسے القاب سے یاد کرتا ہے تو پھر ہمیں کیا حق
پہنچتا ہے کہ ہم آپ کانام لے کر یا”تو“ سے مخاطب کریں! اس لیے یہ تخاطب
میرے نزدیک بے ادبی ہی نہیں بلکہ گستاخی ہے-“
اللہ کا شکر ہے کہ ایسے مفتیان کرام ایوان ادب میں بیٹھے ہیں- اگر ایوان
شریعت ان کے حوالے کردیا گیا تو پھر دین وشریعت کا اللہ ہی حافظ ہوگا-
”مقالات“ کے باب میں عزیز احسن کی تحریر”نعتیہ شاعری میں متنی رشتوں کی
تلاش“ اور ڈاکٹر سید یحیٰ نشیط کی تحریر ”دیار مغرب کے اردو شعرا کی نعتیہ
شاعری “بھی قابل قدر اور معلومات افزا ہیں-
”فکر وفن“ کے باب میںسید طاہر سیف الدین کے قیصدے فضیلة محمد رسول اللہ،
مفتی احمد یارخاں لغیمی کی نعتیہ شاعری، نازمانک پوری کے ارمغان عقیدت”رہبر
اعظم“، سید نظمی مارہروی کی نعت گوئی، صہبا اکبر آبادی کی نعت گوئی، ریاض
حسین چودھری کی نعت گوئی، امان خاں دل کی نعتیہ شاعری اور ستیہ پال آنند کی
ایک نعتیہ نظم پر بالترتیب ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی، ڈاکٹر سراج احمد قادری،
پروفیسر محمد اکرم رضا، غلام مصطفی رضوی، عزیز احسن، ڈاکٹر افضا ل احمد
نور، پروفیسر شفقت رضوی اور پروفیسر قیصر نجفی نے اپنے فکر و فن کے گہر
لٹائے ہیں-
”نعت شناسی“ کا باب پچھلے شمارے میں قائم ہوا تھا جو اس شمارے میں بھی قائم
ہے- اس باب میں ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر اسحٰق قریشی اور گوہر ملسیانی کی
نعت شناسی پر بالترتیب پروفیسر محمد اکرم رضا، ڈاکٹر شبیر احمد قادری اور
پروفیسر اکرم رضا کی تحریریں شائع ہوئی ہیں - یہ سلسلہ نعتیہ محققین کی
حوصلہ افزائی یا ان کی خدمات کے اعتراف کے حوالے سے بڑا اچھا ہے- بشرطیکہ
یہ سلسلہ ’من تراحاجی بگویم تو مرا حاجی بگو“ کے مرض سے پاک رہے-
شمارے کے دیگر مشمولات بھی حسب روایت عمدہ ہیں- مولانا کوکب نورانی اس
شمارے میں بھی نظر نہیں آئے- اللہ کریم کا شکر ہے کہ وہ مصروف ہیں- صبیح
رحمانی کے لیے دل سے ڈھیر ساری دعائیں، نعتیہ محققین کو مبارک باد اور آخر
میں ریاض مجید کا یہ شعر جو اس شمارے میں ایک جگہ نمایاں طور سے مکتوب ہے-
رسائی میں نہیں تخلیق نعت کا لمحہ
یہ سدرہ وہ ہے کہ جبریل لفظ تھک جائے
نعتیہ ادب پر ہندوستان میں بھی باضابطہ کام ہونا چاہیے، صبیح رحمانی کی یہ
خواہش ہے جو ہماری بھی ہے- کاش کوئی صاحب ہندوستانی سطح پراس علم کو بلند
کریں، بشرطے کہ معیار، فن نعت کے شایاں ہو- |