مجسمے رہ گئے، مایاوتی چلی گئیں

پانچ ریاستوں کے انتخاتی نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ چناﺅ یقینا کئی اعتبار سے تاریخی نوعیت کے رہے۔ سب سے پہلے تو یہ رائے دہندگی کے تناسب نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اترپردیش میں اوسط پولنگ 60فیصد کے قریب رہی اور بعض پولنگ بوتھوں پر 72 فیصدسے زیادہ پولنگ ہوئی۔رائے دہندگان کی تعداد میں بھی ریکارڈ30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اس کے باوجود پولنگ منظم اور پرامن رہی۔ دولت کی ریل پیل پر بھی روک لگی۔انتخابی مہم کے دوران نہ کسی نے کوئی ایسی حرکت کرنے کی ہمت کی جس سے فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا ہواور نہ کہیں دنگا فساد ہوا۔ مہم کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کا بروقت نوٹس لیا گیا جس سے بے راہ رو لیڈروں پر لگام کسی رہی۔ ہرچند کہ پہلے مرحلے کی پولنگ سے نتائج آنے کے درمیان کا طویل وقفہ تکلیف دہ رہا مگر چناﺅ کمیشن یقنیاً صاف ستھرے چناﺅ کے کامیاب انعقاد کےلئے مبارکباد کا مستحق ہے۔

بی جے پی صدر گجندر گڈکری کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی کہ یوپی کے نتائج چونکا دینے والے ہونگے۔حد تو یہ ہے کہ خود پیش گوئی کرنے والا بھی نتائج آئے تو چونک گیا۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ بھاجپا اور کانگریس دونوں قومی پارٹیوں کے لیڈر یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ ان کے ارکان کی فہرست اتنی طویل ہوجائے گی کہ حکومت کی نکیل ان کے ہاتھ میں آجائے گی، مگر عوام نے دونوں قومی پارٹیوں کوحاشیہ پر پہنچا دیا۔2004کے اسمبلی چناﺅ کی طرح رائے دہندگان نے اس بار بھی علاقائی پارٹی کو ترجیح دی اورواضح اکثریت کے ساتھ 5 سال حکومت کرنے کا موقع دیدیا۔ہرچند کہ دونوں مرتبہ قیاس یہی کیا جارہا تھا کہ اکثریت کسی کو حاصل نہیں ہوگی ۔گزشتہ مرتبہ عوام کا فیصلہ مایاوتی کے حق میں تھا اور یوپی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اپنی پانچ سال کی آئینی مدّت پوری کی۔ اس مرتبہ یہ موقع سماجوادی پارٹی کو دیا گیا ہے۔دیکھنا یہ ہے پارٹی عوام کی توقعات پر کتنی کھری اترتی ہے؟کھرا اترنے کی ایک ہی شاہ کلید ہے۔سب کے ساتھ انصاف، سب کی ضرورتوں کا پاس لحاظ اور کسی کی حق تلفی نہ کسی کی منھ بھرائی۔راج دھرم اسی کا نام ہے کہ حکومت کی نظر میں کمزور، طاقتور، اکثریت اوراقلیت سب یکساں ہوں۔ سابق میں سماجوادی پارٹی نے ایک مخصوص طبقہ اور خطہ کو فائدہ پہنچایا۔ یہی مایاوتی نے بھی کیا اور ہٹائی گئیں۔ کانگریس نے بھی اپنے طویل دور اقتدار میں اقلیتوں کو تباہ کیا اور اب 4.5فیصد کا جھنجنا دیکر ان کو بہکانا چاہا۔ عوام نے اس لالی پاپ کو مسترد کردیا۔ ان کو مراعات نہیں ، برابر کا شہری حق چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملائم سنگھ اپنی روش کو بدل پائیں گے اور سب کے ساتھ انصاف کرپائیں گے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مایاوتی کی گرفت انتظامیہ پر بڑی سخت رہی اور خاص طور سے انہوں نے فرقہ ورانہ شرارتوں کو سختی سے کچلا ، شہروں اور قصبوں میں گلیاں اور سڑکیں بھی بنیں اور لکھنو کا رنگ روپ بھی ان کے دور میں خاصا بدلا۔ مگر بے لگام رشوت خوری نے عوام کا ناطقہ بند کردیا۔ کام جائز ہو یا ناجائز ، جب تک رشوت نہ دی جائے ،ہونے کا سوال ہی نہیں۔ یہ بھی مشہور تھا کہ ہرضلع سے روز حساب جاتا ہے۔مرکزسے وزیراعظم دیہی سڑک اسکیم قومی دیہی صحت مشن (NRHM)اورقومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (NREGA) جیسی اسکیموں کےلئے جو رقومات ریاستی سرکار کوملی اگر اسی کو ایمانداری سے خرچ کیا جاتا تو عوام میں ان کی ہی مقبولیت بڑھتی مگران کی سرپرستی میں سرکار جو گھپلے ہوئے ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ خود وہ قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئیں اور عوام کی آواز ان تک پہنچ ہی نہیں سکی۔

مایاوتی دلت آندولن کی بدولت اقتدار میں آئی تھیں۔ مگر شاہجہاں بن جانے کے شوق میں اربوں روپیہ کے خرچے سے پارک بنوانے اور مورتیاں لگوانے کے شوق نے اور اس سے بھی بڑھ کر ہوس زر نے اس آندولن کو زبردست زک پہنچائی ہے۔انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا ایک اسکول ٹیچر کے پیشہ سے کیا تھا اور سائکل پر سفر کرتی تھیں۔ مگر چند سالوں کے اندر ہی ان کو ’دولت‘ کی بیٹی کہاجانے لگا۔ افسوس کہ 2012 کے عوامی فیصلے کی بدولت بس ان کے مجسمے ہی رہ جائیں گے، مایاوتی چلی جائیں گیں۔ان کے اس رویہ سے دلت آندولن کو جو نقصان پہنچا ہے اس ازالہ جلد ممکن نہیں۔

اس الیکشن میں سارے قیاسات کے برخلاف عوام نے سماجوادی پارٹی کو ایک تاریخی کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ ان کی پارٹی کو 224سیٹیں مل جائیں گی، یہ امید خود پارٹی لیڈروں کو نہیں تھی۔ پارٹی کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے اس اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچنے دے۔ اگر عزم اور ہوشمندی سے کام لیا گیا تو یوپی کی تصویر کو اسی طرح بدلا جاسکتا ہے جس طرح بہار کی صورت بدل رہی ہے۔ یوپی بھی دوسرا پنجاب اور ہریانہ بن سکتا ہے۔ لوگوں کو کیا چاہئے؟ سڑک، پانی، اسکول ، اسپتال، راشن اور رشوت خوری سے پاک انتظامیہ۔انتخابی نتایج آتے ہی جس طرح سماجوادی پارٹی کے کارکن کئی جگہ بے قابو ہوگئے اس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشے پھر سر اٹھانے لگے ہیں کہ کیا سابق کی طرح پھر غنڈہ راج قائم ہونے والا ہے؟ کیا امتحان گاہیں پھر نقل کا مرکز بن جائیں گیں؟اور کیا ان ترقیاتی کاموں کو روک دیا جائیگا جن کا آغاز مایاوتی کے دور میں ہوا ہے؟بہرحال یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ پانچ سال کی مدت گزرتے دیر نہیں لگتی اور رائے دہندگان اب کسی ورغلائے میں نہیں آتے۔

اس چناﺅ میں ایک مرتبہ پھر کانگریس اور بھاجپا کو مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھاجپا کا ووٹ اس بار 2004کے مقابلہ تقریباً دو فیصد کم ہوا ہے جب کہ کانگریس کا کوئی ساڑھے پانچ فیصد بڑھا ہے۔ بھاجپا کے ممبران کی تعداد بھی 51سے گھٹ کر 47رہ گئی ہے جبکہ کانگریس کی 22سے بڑھ کر 28ہوگئی ہے۔ البتہ کانگریس کی اتحادی لوک دل ممبران کی تعداد 10سے گھٹ کر 9رہ گئی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے سینئر لیڈر اور کئی مرتبہ کے ایم ایل اے اور سابق ریاستی وزیر کوکب حمید بھی باغپت سے اپنی سیٹ نہیں بچاسکے۔ اسی سے متصل بڑوت کی سیٹ پربھی پارٹی کے باغیوں کی وجہ سے آر ایل ڈی امیدوار ہار گیا۔ 2009کے لوک سبھا الیکشن کے بعد بھاجپا نے اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے یہ مہم چلائی تھی کہ ووٹنگ میشنوں میں گڑ بڑی کی گئی ہے۔ مگر اچھی بات یہ رہی کہ اس مرتبہ اس کے لیڈروں نے یہ تسلیم کرلیا کہ عوام نے پارٹی کو مسترد کردیا ہے۔ اور کیوں نہ کرتے جبکہ سوریہ پرکاش شاہی (ریاستی صدر)، سابق اسپیکر کیسری ناتھ ترپاٹھی بھی چناﺅ ہارگئے۔حد یہ ہے پارٹی ایودھیا کی سیٹ بھی ہار گئی جس پر اس کا امیدوار اس سے پہلے پانچ چناﺅ جیت چکا تھا۔

ریاست میں راہل گاندھی کی مہم سے جو ہوا بندھی تھی اور اس سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ کانگریس کی تقدیر بدل جائیگی ۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ یہ خیال درست ہوسکتا ہے کہ پارٹی کی تنظیمی کمزوری اس کی وجہ رہی۔ مگر رائے بریلی ، سلطانپور اور امیٹھی میں کیا ہوا جہاں سنگٹھن موجود ہے اور 15میں سے صرف2سیٹیں ہی ملیں۔جبکہ12پر ایس پی اور ایک پر پیس پارٹی جیت گئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ بھاجپا کی تنظیم تو ہرجگہ موجود ہے اور آر ایس ایس کا کیڈر بھی گڈکری کی پشت پر تھا،اس کی سیٹیں بڑھنے کے بجائے گھٹ کیوں گئیں؟ یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ مسلم رائے دہندگان نے ایک مرتبہ پھر اپنا رخ کانگریس سے کیوں پھیرلیا؟ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان ،سبھی مایاوتی سرکارسے اکتا چکے تھے اور میدان میں متبادل کے طور پر صرف ملائم سنگھ یادو کا ہی چہرہ نظر آتاتھا۔اس میں شک نہیں کہ راہل نے بڑے ہی اچھے اور شائستہ انداز میں مہم چلائی ۔ مگر ایسا ہی ایک نوجوان اکھلیش کی صورت میں سماجوادی پارٹی میں بھی نمایاں تھا۔ چنانچہ راہل فیکٹر کوئی جادو نہیں دکھا سکا ۔کانگریس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے پاس کوئی ریاستی قیادت نہیں ۔راہل گاندھی ہوسکتے تھے مگر ان کو تو ریاست کی قیادت سے بلند تر باور کرایا گیااور اندرا گاندھی کے دور سے ریاستی قیادتوں کو ابھرنے نہ دینے کا رجحان بدستور برقرار ہے۔بہر حال اطمینان کی بات ہے غیرمعمولی کامیابی کے بعد نہ تو اکھلیش نے کوئی بڑا بول بولا۔ نہ راہل گاندھی نے شکست کے باوجود مایوس ہوئے۔ اکھلیش نے ٹھیک کہا جیت اور ہار تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس رائے دہندہ نے یہ جیت دلائی ہے وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس نہ کرے۔ ہم ان دونوں نوجوانوں کو اور ان ساتھ جینت کو بھی مبارکباد دیتے ہیں جنہوں نے نوجوان ہونے کے باوجود ہوشمندی اور شائستگی سے دلوں کو موہ لیا ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.