خود کش بمبار کے تعاقب میں

سر ،میری بک آرہی ہے سید بدر سعید سے ایک تقریب میں جب پہلی ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت اس نے یہی کہا تھا اس کی چمکدار آنکھوں اور خود اعتمادی سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ لڑکا بہت تیزی سے نئی راہوں کے ذریعے بہت آگے تک جائے گا اس کا اعتماد بتا رہا تھا کہ چیلنج سے نمٹنا اور خطروں سے کھیلنا اس کی عادت ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوتی اور ہر بندے کا بس کا روگ نہیں ہوتا ،اس کے بعد ملاقاتوں کا اک سلسلہ چل نکلا تو بدر سعید کی شخصیت کھلتی چلی گئی اس نے کم عمری میں ہی آگ کے شعلوں سے کھیلنا شروع کیا ہوا تھا جس کے لئے اسے کئی بار مشکلات کا شکار ہونا پڑا، تاہم اس کے عزم و ارادے میں کوئی لچک نہیں آئی جب بھی کبھی ملاقات ہوتی تو میں ازراہ مذاق پوچھتا،بدر سعید کتاب کب آ رہی ہے ؟تو وہ ہنس کر ٹال دیتا کہ بہت جلد آ جائے گی اسی طرح دن گزرتے چلے گئے اور ایک دن ”خود کش بمبار کے تعاقب میں“ میرے ٹیبل میں پڑی نظر آئی جب کتاب دیکھی تو دیر سے آنے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کیونکہ یہ کوئی عام کتاب نہیں تھی۔

کسی لکھاری کو مطالعہ کرنے کا نشہ ہوتا ہے اسی لئے کافی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا لیکن جوں جوں” خود کش بمبار کے تعاقب میں“پڑھتا گیا حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا کیونکہ زمانہ طالبعلمی میں اتنا زیادہ گہرائی میں جاکر معلومات اکٹھی کرنا اور ان پر تحقیق کرنا کوئی معمولی بات یا سہل کام نہیں تھا تحقیقاتی صحافت کے میدان میں رہنے والوں کو پتا ہے کہ کتنی مشکلوں سے اور جان جوکھوں سے خبر کی گہرائی اور اس کی سچائی تک پہنچا جا تا ہے-

سید بدر سعید جب خود کش بمبار کے تعاقب میں نکلا ہوگا تو اسے بھی کافی مصیبتوں،تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا لیکن اس نے انتہائی محنت،مسلسل تگ و دو اور شبانہ روز کی کوشش سے کئی حقیقتوں پر پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جس میں اس نے عام قاری تک بھی یہ بات پہنچائی ہے کہ تحریک طالبان افغانستان کا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور دونوں الگ الگ تنظیمیں ہیں -

سید بدر سعید نے قاری کی آسانی کے لئے اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصے میں ان افراد کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے جو بھارت کو مطلوب ہیں جس میں جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید،لشکر طیبہ کے ذکی الرحمان لکھنوی،جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر،اہم جہادی رہنما عمر شیخ،کشمیری رہنما مشتاق زرگر،اور متحدہ جہاد کونسل کے سید صلاح الدین شامل ہیں اس کتاب میں مندرجہ بالا افراد کی سرگرمیوں کے بارے میں بڑے مفصل انداز میں ذکر ہے اور وہ باتیں بھی کافی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں جو اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھیں ۔

دوسرے حصے میں مصنف نے افغانی طالبان کے بارے تفصیل سے لکھا ہے جس میں تحریک طالبان افغانستان کے امیر ملامحمد عمرمجاہد کے حالات زندگی ،روس کے خلاف جہاد،افغانستان پر طالبان کی حکومت اور پھر 9/11کے بعد کے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اسی باب میں مصنف نے تحریک طالبان کا منشور اور ملاعمر کے پیغامات بھی لکھے ہیں ۔

تیسرے حصے کو مصنف نے تحریک طالبان پاکستان کے نام کیا ہے جس میں مفصل انداز میں پاکستان میں جہادی گروپوں ،پاکستانی طالبان،لشکر اسلام کے سربراہ حاجی منگل باغ،تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولوی فضل اللہ،تحریک طالبان پاکستان کے بانی بیت اللہ محسود،حکیم اللہ محسود،خود کش حملوں اور فوجی آپریشن کا ذکر ہے یہ وہ گراں قدر معلومات ہیں جن کے بارے سن کر انساں کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

چوتھے حصے میںمصنف نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں غیرملکی ہاتھ کی نشاندہی کی ہے جس میں ایک جامع اور تحقیقی انداز میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی ”خاد“ انڈین ایجنسی”را“بدنام زمانہ قاتل ایجنسی ”بلیک واٹر“اور امریکی سفارتی جاسوس کی گرفتاری و رہائی کے بارے مفصل رپورٹ ہے جو کہ مصنف کی تگ و دو ،جانفشانی اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کتاب کا پانچواں حصے کا نام ٹریننگ سے دھماکے تک رکھا گیا ہے جس میں مصنف نے باریک بینی سے اور تحقیق سے ان عناصر کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے خون کی ندیاں بہ جاتی ہیں بستے گھر اجڑ جاتے ہیں رونقیں ختم ہوجاتی ہیں قہقہے تھم جاتے ہیں مسکراہٹیں چھن جاتی ہیں جی ہاں اس باب میں مصنف نے خودکش بمبار کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔

تین سو زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایسے ایسے انکشافات سے بھری پڑی ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے میں اس کتاب کی اشاعت پر سید بدر سعید کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ایک نصیحت بھی کرتا ہوں کہ چھوٹی سی عمر میں تم نے اک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے لیکن مستقبل میں بھی اسی طرح کام کرتے رہو لیکن خیال رکھناکہ کہیں خودکش بمبار تمہارے تعاقب میں تو نہیں۔

( یہ مضمون نو مارچ کو ایف۔سی کالج یونیورسٹی میں کتاب کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 187359 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.