کیا نریندر مودی اہل ہیں وزارت عظمی کیلئے؟

گذشتہ روزفسادات میں تباہ شدہ عبادت گاہوں کی تعمیر کیلئے معاوضہ ادا کرنے کے گجرات ہائیکورٹ کے حکم سے ابھی اسلامک ویلفیئر کمیٹی سمیت انصاف پسند طبقہ کی بانچھیں کھلنے کے بعد مسکراہٹ پوری طرح طلوع بھی نہیں ہوئی تھی گجرات کے وزیر اعلیٰ کوفرقہ وارانہ معاملے میں بچانے کی کوشش میں مصروف ایس آئی ٹی کی کلین چڈ ملنے کے بعد ’آہ‘ کرنے پر مجبورکردیا ہے جس کے فوری ردعمل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن گڈکری نے اڈوانی کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے مژدہ سنایا ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی 2014کے لوک سبھا انتخابات کیلئے پارٹی کے’ وزیر اعظم‘ عہدے کے امیدواروں میں سے ایک ہیں۔ گڈکری کا یہ بیان گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران گلبرگہ سوسائٹی قتل عام پر ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے چندگھنٹے بعد سامنے آیا ہے ۔ یہ رپورٹ احمدآباد کی ایک عدالت کے سامنے پیش کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مودی کے خلاف قابل مقدمہ کوئی شہادت یا ثبوت نہیں پایا گیا ۔ گڈکری نے کہا کہ نریندر مودی 2014کیلئے ہمارے وز یر اعظم امیدواروں میں سے ایک ہیں اوراگر مودی کو کلین چٹ ملی تو صرف یہ تصدیق ہوگی کہ ہم نے جوکچھ بھی کہا ہے کہ یا کہہ رہے ہیں وہ ’درست‘ ہے ۔ تاہم گڈکری نے ا س پر کوئی رائے زنی نہیں کی کہ مسٹر مودی یوپی چناؤ میں پارٹی کیلئے مہم کیوں نہیں چلا رہے ہیں ۔ بقول گڈکری ’ اس سوال کا جواب مودی خود ہی دیں گے کیونکہ انہوں نے یوپی میں پارٹی کی چناؤ مہم شمولیت نہیں کی ‘۔ معلوم ہوا کہ مودی اپنے ایک حریف سنجے جوشی کو اتر پردیش میں الیکشن انچارج بنائے جانے کیلئے بی جے پی قیادت سے ناراض ہیں۔

گجرات کے وزیر اعلیٰ کوفرقہ وارانہ معاملے میں بچانے کی کوشش میں مصروف ایس آئی ٹی کلین چٹ ملنے کے بعد ذکیہ جعفری نے اس کے خلاف عرضی داخل کی ہے ۔نسل کش فسادات میں کانگریس کے مقتول ایم پی احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری اورتیستا ستلوارڈ کی قیادت والی سٹیزن فار پیس نے آج احمد آباد میں میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک عرضی داخل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ اندیشہ ہے کہ خصوصی تفتیشی ٹیم نے گلبرگہ سوسائٹی قتل عام میں مکمل رپورٹ داخل نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ تیستا ستلوارڈ اوروکیل مکل سنہا کی جانب سے داخل کی گئی عرضیوں میں گلبرگہ کیس میں عدالت میں پیش ایس آئی ٹی رپورٹ کی کاپیاں طلب کی گئی ہیں میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ایم ایس بھٹ نے کہا کہ رپورٹ کا مطالعہ کریں گے اورپھر کیس میں مناسب فیصلہ صادر کریں گے اوراسی کے ساتھ انہوں نے اس کیس میں ایس آئی ٹی کوایک نوٹس بھی جاری کیا ۔ عرضی کنندگان نے الزام لگایا کہ امیکس قرئی راجو رام چندرن کے بیانات اورتحقیقات اس رپورٹ میں شامل نہیں کی گئی ہے کیونکہ یہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ سے مختلف تھی ۔ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کے وکیل ایس ایم وورا نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت میں ایس آئی ٹی رپورٹ پوری کی پوری پیش کی جانی چاہئے ۔ مسٹر وورا کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پوری رپورٹ پیش نہیں کی گئی ہے ہماری عدالت سے درخواست ہے کہ سربمہر رپورٹ کو کھولے ۔ ہم نے عدالت سے یہ بھی کہا ہے کہ جیسا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی ۔ وہ یہ دیکھیں کہ کیا پوری رپورٹ پیش کی گئی ہے ۔ سماعت کی اگلی تاریخ 13فروری گزشتہ روز عدالت میں ایس آئی ٹی کی جانب سے گلبرگہ سوسائٹی قتل عام کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف قابل مقدمہ کوئی ثبوت نہیں پایا گیا ۔ ذکیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں آخری دم تک لڑائی لڑیں گی ۔انہوں نے کہا کہ میں حقیقت میں اس رپورٹ سے مایوس ہوئی ہوں اورمیں اس رپورٹ پر چین سے نہیں بیٹھوں گی ہم اپنے وکیلوں سے مشورہ کریں گے اور پھر اس لڑائی میں واپس آئیں گے ۔ گجرات کے 2002کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ان کے شوہر احسان جعفری ان 69لوگوں میں شامل تھے جنہیں گلبرگہ سوسائٹی میں فسادیوں نے ہلاک کردیا تھا ۔ ایس آئی ٹی نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق احمد آباد کی عدالت میں فائنل رپورٹ ایک سیل بند لفافے میں پیش کی تھی ۔ 27فروری 2002کے گودھرا سٹیشن کے نزدیک سابر متی ایکسپریس کے ایک ڈبےS6کو آگ لگائے جانے کے بعد ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات میں تقریباً 1200لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔ اس ٹرین سانحہ میں اجودھیا میں بابری مسجد کو مسمار کئےجانے کے بعد لوٹنے والے 59کارسیوکوں کی جل کر موت ہوگئی تھی ۔ مودی اور62 کے خلاف ذکیہ جعفری کی جانب سے فسادات میں ان پر مقدمہ چلانے کیلئے ایک عرضی داخل کی گئی تھی۔ گذشتہ روز ہی سپریم کورٹ نے فسادات کے دوران مودی کی جانب سے غفلت ، لاپروائی اوربے عملی برتے جانے کیلئے وزیر اعلیٰ کی سرزنش کی تھی ۔ اس سرزنش کے بعد ایس آئی ٹی نے یہ رپورٹ داخل کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایس آئی ٹی گجرات کے وزیر اعلیٰ کوفرقہ وارانہ معاملے میں بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔ذکیہ جعفری کی جانب سے عدالت عالیہ میں ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ الزام لگایا گیا کہ مودی اور 62اعلیٰ سرکاری افسروں نے 2002میں ریاست گیر فسادات پر قابو پانے کیلئے جان بوجھ کر کارروائی کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا ہے کہ اس کیس میں مجسٹریٹ مودی اور دیگر کے خلاف کارروائیاں ہذف کرنے کا فیصلہ کریں گے ۔ وہ ذکیہ کی درخواست کوسنیں گے جنہوں نے گجرات کے و زیر اعلیٰ اوردیگر کے خلاف ایک شکایت درج کرائی تھی ۔ جعفری کا کہنا ہے کہ ایس آئی ٹی کی جانب سے معقول چھان بین کی جانی چاہیے ۔ سپریم کورٹ نے مرکزی تفتیشی بیورو کو سابق سربراہ آر کے راگھون کی قیادت میں فسادات کی انکوائری کیلئے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تھی ۔ 2009میں عدالت عالیہ نے اس کیس کی جانچ کی ذمہ داری ایس آئی ٹی کے سپرد کردی تھی جس نے 2002میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی ۔

واضح رہے کہ گذشتہ روزمودی حکومت کو گجرات ہائی کورٹ کی پھٹکارتے ہوئےفسادات میں تباہ شدہ عبادت گاہوں کی تعمیر کیلئے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسلامک ویلفیئر کمیٹی کی درخواست پر عدالت کا تاریخ ساز فیصلہ سے انصاف پسندوں کو راحت ملی تھی۔گجرات ہائیکورٹ نے 2002 کے مابعد گودھرا فسادات کے دوران ریاستی حکومت کی غفلت، لاپروائی و نااہلی پر آج سخت تنقید کی۔ ان فسادات کے دوران مودی حکومت کی غفلت و لاپروائی اور نااہلی کے سبب مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ کارگذار چیف جسٹس بھاسکر بھٹاچاریہ اور جسٹس جے بی پردیوالا کی ڈیویژن بنچ نے ریاست میں ان فسادات کے دوران تباہ ہونے والے تقریباً 500 مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان تاثرات کا اظہار کیاتھا۔ یہ عدالت، اسلامک ریلیف کمیٹی آف گجرات (آئی آر سی جی) کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست کی سماعت کررہی تھی۔ عدالت العالیہ نے اس تاثر کا اظہار کیاکہ فسادات کو روکنے میں حکومت کی غفلت، لاپروائی و نااہلی، ساری ریاست میں مذہبی مقامات کی تباہی کا سبب بنی اور ریاستی حکومت ایسے مقامات کی تعمیر اور معاوضہ کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوگی۔ عدالت کے مطابق جب حکومت ان فسادات کے دوران تباہ شدہ گھروں اور تجارتی اداروں کی تباہی کا معاوضہ ادا کی ہے چنانچہ اس کو چاہئے کہ وہ مذہبی مقامات کو بھی معاوضہ ادا کرے۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ گجرات کے 26 ضلعوں کے پرنسپال ججس اپنے متعلقہ ضلع میں مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کیلئے معاوضہ کی درخواستیں وصول کریں گے اور ان پر فیصلہ کریں گے۔ گجرات کی اسلامی امداد کمیٹی نے 2003 میں درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی تھی کہ فسادات کے دوران تباہ شدہ مذہبی مقامات کو معاوضہ کی ادائیگی کیلئے حکومت کو ہدایت کی جائے۔ اس بنیاد پر قومی انسانی حقوق کمیشن نے معاوضہ کی ادائیگی کی سفارش کی تھی اور ریاستی حکومت اس سے اُصولی طور پر اتفاق کرچکی تھی۔ ریاستی حکومت نے اسلامی امداد کمیٹی گجرات کی اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دستور کی دفعہ 27 کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں مودی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ فسادات کے دوران تباہ ہونے والے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت کیلئے معاوضہ ادا کرنے سے متعلق اس کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اسلامک ریلیف کمیٹی آف گجرات کے وکیل ایم ٹی ایم حکیم نے ملک کے اس تاریخ ساز فیصلہ کا خیرمقدم کیا جس کے تحت فسادات کے دوران تباہ شدہ مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت کیلئے حکومت کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حکیم نے کہاکہ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ 2002 ءکے فسادات میں ریاستی حکومت کو غفلت، لاپروائی اور نااہلی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جبکہ موجودہ پیش رفت سے وہ ساری خوشی کافور ہوگئی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126047 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More