کرپٹ ٬ نااہل حکمران اور ملکی سلامتی کے تقاضے

تحریر : محمداسلم لودھی

مائیک مولن کو بھجوائے گئے مبینہ خط ( میمو)کا معمہ تو اب سامنے آیا ہے لیکن یہ بات کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی نہ صر ف فوج کو اپنا ذیلی ادارہ بنانے بلکہ امریکہ کے ایما پر آئی ایس آئی کے کل پرزے کاٹنے کی جستجو شروع کردی تھی ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ فوج ایک حقیقت ہے اور یہ بات ہر سویلین حکمران کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیئے۔ایک منظم اور مضبوط ادارے کی حیثیت سے فوج نہ صرف ایٹمی اثاثوں کی محافظ ہے بلکہ دفاع وطن کے حوالے سے بھی سویلین حکمرانوں کی نسبت زیادہ بااعتماد ثابت ہوئی ہے ۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے ۔ اپنے دور حکومت میں بےنظیر بھٹو پر ایٹمی پروگرام کے بلیو پرنٹ امریکہ کو دینے کاالزام لگا تھا خوش قسمتی سے بلیو پرنٹ دینے والوں نے اصلی کی بجائے نقلی دیئے تھے وگرنہ پاکستان کاایٹمی پروگرام دھماکوں سے پہلے ہی اختتام کو پہنچ چکا ہوتا۔ ضیاالحق دور میں بھارت میں سکھوں کی بغاوت کے حوالے سے جو تحریک زوروں پر تھی پیپلز پارٹی کے ہی دورمیں ان باغی سکھوں کی فہرستیں بھارتی وزیراعظم کے سپرد کی گئی تھیں۔ کشمیراور خالصتان کی بغاوت کو سختی سے کچلنے کے بعدبھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی را کے ذریعے پاکستان کو اب بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں تگنی کاناچ نچا رکھاہے ۔پیپلز پارٹی کی چشم پوشانہ پالیسی کی بدولت ہی بھارت چالیس سے زائد ڈیم بناکر پاکستانی دریاﺅں کو صحرامیں بدلنے کا کامیاب جستجوکررہا ہے ۔صرف 20 سالوں میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 93 ہزار کشمیری مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا جسے قائداعظم پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے تھے لیکن پیپلز پارٹی نے بھارتی فوج کی درندگی اور ایک لاکھ کے لگ بھگ کشمیری مسلمانوں کی شہادتوں کے باوجود بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی مکمل تیار ی کررکھی ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی اب کسی سے مخفی نہیں رہی کہ پیپلز پارٹی امریکہ سے ایک معاہدے کے تحت برسراقتدار آئی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار ملنے سے پہلے ہی راستے سے ہٹا دی گئی لیکن امریکہ سے طے پانے والے معاہدے کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے تمام تر ذمہ داری پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ان کے خصوصی مشیروں نے سنبھال رکھی ہے ۔صحافتی حلقوں میں یہ اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ جونہی امریکی سٹیلتھ ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کے خلاف کامیاب آپریشن کیا تو امریکی جارحیت کی وجہ سے جہاں فوجی قیادت ندامت اور شرمندگی محسوس کررہی تھی وہاں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں شادیانے بجائے جارہے تھے ۔ امریکیوں کو تنبیہ کرنے کی بجائے مبارک بادیں دی جارہی تھیں ۔یہ بھی شنید ہے کہ ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے پیپلز پارٹی کے سربراہ اور ان کے نااہل مشیر یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ اب آئی ایس آئی اور فوجی قیادت کی گردن ہمارے ہاتھ آئی ہے جن کی برطرفی میں ہی ہماری بقا ہے ۔ منصور اعجاز کے توسط سے ایڈمرل مولن کو دیئے جانے والے جس خط کا ذکر اب منظر عام پر آیا ہے اس کی عبارت اور 2 مئی2011 ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن کے بعد صدر پاکستان اور وزیر اعظم کی جانب سے اخبارات میں شائع ہونے والی تحریریوں اور بیانات کااگر موازنہ کرلیا جائے تو معاملہ کھل کر سامنے آجاتاہے ۔اب حسین حقانی سے استعفی لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تمام معاملات کا ذمہ دارصرف وہی تھا بالکل غلط ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ صدر اور وزیراعظم کی رضامندی کے بغیر سفیر از خود امریکی جنرل کو پاک فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کے خلاف کاروائی کرنے پر آمادہ کرے ۔ ایٹمی اثاثوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان قیادت کے باقی ماندہ افراد کے خلاف کاروائی کے لیے امریکہ کو اپنی فوج اتارنے کی اجازت بھی دے ۔یہ ایسے الزامات ہیں جن کا براہ راست تعلق افواج پاکستان اور قومی سلامتی سے ہے اور دانستہ چشم پوشی مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حسین حقانی کی طرح صدر اور وزیراعظم اپنے عہدوں سے مستعفی ہوکر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں عبور ی حکومت قائم کریں جو اس مبینہ میمو کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ذمہ دار لوگوں کا تعین کرکے ان کے خلاف سخت ترین کاروائی کرے ۔ لیکن پے درپے کرپشن اور سیکنڈلوں میں گھری ہوئی پیپلز پارٹی کی کرپٹ اور نااہل ترین حکومت سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرسکے گی ۔ کیونکہ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال کرپٹ ٬خائن اور ناہل لوگوں کی سرپرستی ٬ تعیناتی٬ سرکاری اداروں کی تباہی اور کرپشن کی حوصلہ افزائی میں ہی گزرے ہیں اور یہ خط بھی موجودہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی شاندار کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ان حالات میں جبکہ صدر اور وزیر اعظم اپنے عہدوں پر فائز ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وطن عزیز اور افواج پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں سے پردہ اٹھاکر ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جاسکے گی ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.