اِک ذرا گھر سے نکلیے اور گم ہو جائیے

کھوئے کھوئے رہنے کے لیے اب کسی کی یادوں کے جہان میں آباد ہونا لازم نہیں رہا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ سر، پیر بغیر کے اخباری تجزیے پڑھیں اور بے ذہنی کی حالت میں ایسے گم ہوں کہ دنیا کو نشان بھی نہ ملے! وہ زمانے ہوا ہوئے جب کسی کے ہاتھ نہ آنے کے لیے آپ سوچوں میں گم رہا کرتے تھے۔ اب اگر آپ اپنا پتہ گم کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، بس ذرا اپنے شہر کی خاک چھاننے کی جی میں ٹھان کر گھر سے نِکلیے! پھر بھلا کِس میں یارا ہے کہ آپ کا نشان بھی پاسکے؟

جب دوست یا رشتہ دار برسوں بعد ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جسم اور شکل میں تبدیلی رونما ہوتی ہی ہے مگر پھر بھی ہم مدت بعد کسی کو پاکر حیران ہوتے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ جس شہر میں ہم زندگی بسر کرتے آئے ہیں وہ آنکھوں کے سامنے تبدیل ہوا ہے اور پہچاننا مشکل ہوگیا ہے!
ہمدم دیرینہ خالد عمران مطہر کا مطلع ہے۔
نِکلتے ہیں سفر پر اور ٹھکانے بھول جاتے ہیں
پرندے قید رہنے کے زمانے بھول جاتے ہیں

اب ٹھکانے بھولنے کے لیے پرندہ ہونے کی قید بھی نہیں رہی۔ کراچی بھر کی ”زمینی فضائی“ میں راستوں کا ایسا جال بچھا ہے کہ (لیاری کی زبان میں کہیے تو) منزل کے پرندوں نے اپنی شکل گم کرلی ہے!

شہر میں بعض علاقوں اور مقامات کے نام بہت عجیب ہیں۔ تیس پینتیس سال قبل جب محکمہ ترقیات نے نارتھ کراچی میں سڑک کے لیے کھدائی کی تو ناگن نکل آئی۔ بس، علاقے کا نام ناگن چورنگی پڑگیا۔ بعد میں لوگ مدتوں سوچتے رہے کہ ناگن کا تو کہیں نام و نشان بھی نہیں ملتا، پھر چورنگی کو ناگن چورنگی کیوں کہیں؟ کل تک لوگ ناگن کو ڈھونڈتے پھرتے تھے، اب خیر سے پوری کی پوری ناگن چورنگی ہی ناپید ہے!

انڈا موڑ پہنچنے والے سمجھ نہیں پاتے کہ اس مقام کو انڈا موڑ کیوں کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ کہیں سے بھی انڈے کی سفیدی یا زردی جیسی نہیں۔ اور خیر سے علاقے کا ماحول بھی ایسا نہیں کہ اُس پر پولٹری فارم ہونے کا گمان ہو! ڈھونڈے سے دیسی مُرغی مل سکتی ہے مگر اب، خیر سے، پوری قوم ”فارمی“ ہوچکی ہے! ایسے میں کسی ایک علاقے کے لوگوں کو فارمی سمجھنا انصاف ہرگز نہیں!

جب مُلک میں ڈِسکو کلچر نیا نیا آیا تھا تب ہر چیز کے ساتھ لفظ ڈِسکو نتھی کردیا جاتا تھا۔ اُس دور کی یادگار نصف درجن ڈسکو بیکریز مختلف علاقوں میں اب بھی پائی جاتی ہیں! اگر کوئی بتائے کہ وہ ڈِسکو بیکری کے پاس رہتا ہے تو ساتھ ہی پورا نقشہ بھی دینا پڑتا ہے تاکہ لوگ کسی دوسری ڈِسکو بیکری پہنچ کر مطلوبہ ایڈریس کا بسکٹ تلاش نہ کرتے پھریں!

جب کوئی زیادہ اکڑفوں دِکھا رہا ہوتو ہم کہتے ہیں ”کیا بات ہے بھئی؟ بڑا پھیل رہا ہے!“ وہ زمانہ اب کہاں؟ اب پورا شہر کچھ اِس ادا سے پھیل رہا ہے کہ لوگ کونوں کُھدروں میں دُبکنے پر مجبور ہوگئے ہیں! شہر کے پھیلنے کی رفتار ایسی ہوش رُبا ہے کہ شہری اُس کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔ ہر گزرتا دن شہر اور شہریوں میں فاصلے بڑھا رہا ہے۔ بعض علاقے تو اِتنے پھیل چکے ہیں کہ اُس کی حدود میں دو مقامات پر رہنے والوں کو بھی ملاقات کی باضابطہ منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے! وہ تو خیر گزری کہ ٹیلی کام ٹیکنالوجی نے ترقی کرلی اور ہم سیل فون کلچر سے ہمکنار ہوئے، ورنہ شکل دیکھنے کو ترسنے والے آواز سُننے کو بھی ترستے ہی رہ جاتے!

جب چورنگیاں تھیں تب لوگ اُن کے چکر کاٹا کرتے تھے۔ اب چورنگیاں نہیں رہیں تو اُلجھن بڑھ گئی ہے۔ چورنگیوں کے خاتمے سے علاقوں کی شکلیں یکسر بدل گئی ہیں۔ لوگ منزل پر پہنچ کر بھی منزل کا سُراغ نہیں پاتے۔ چورنگیوں کی مہربانی سے چار سمتوں کا اندازہ تو ہوتا تھا۔ اب پتہ ہی نہیں چلتا کہ دائیں طرف مُڑنے کے لیے کتنا مُڑنا ہے!

سِگنل فری کوریڈورز نے الگ قیامت ڈھائی ہے۔ کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باعث لوگ گاڑیوں کو سرپٹ دوڑاتے پھرتے ہیں اور منزل سے پانچ چھ کلومیٹر آگے جاکر یاد آتا ہے کہ ارے، یہ تو ہم اِرشاد ماموں کے علاقے میں داخل ہوگئے، ببّو خالہ کا گھر تو پیچھے رہ گیا!

ہمارے معاشرے میں ہر چیز کسی نہ کسی نشانی کی مدد سے پہچانی اور یاد رکھی جاتی ہے۔ اب اگر آپ کسی دوست سے ملنے کے لیے دس بارہ سال بعد اُس کے علاقے میں داخل ہوں تو تیار رہیے، آپ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ سکتے ہیں۔ آپ کو یاد آرہا ہے کہ دوست کا مکان جس گلی میں تھا اُس کے کونے پر پان کے کیبن آمنے سامنے تھے۔ یہ ماضی کی حسین یاد ہے۔ مگر کبھی کبھی حال کا جمال ماضی کے حُسن سے بڑھ کر ہوتا ہے! آپ جہاں پان کے کیبن ڈھونڈ رہے ہیں وہاں اب حُسن و جمال کی دنیا آباد ہے۔ جہاں پان کی پیک کے دَھبّے ہوا کرتے تھے اور سگریٹ سُلگانے کے لیے رَسّی کے سُلگتے ہوئے ٹکڑے لٹکائے جاتے تھے وہاں اب شاندار بیوٹی پارلر ہے! دوست آپ کو تلاش کرتا ہوا آتا ہے اور آپ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر یاد دلاتا ہے کہ آپ اُس سے ملنے آئے ہیں، بیوٹی پارلر کے ماتھے پر لگی سجی سنوری دُلہنوں کی حسین تصاویر دیکھنے نہیں!

شہر میں پانچ چھ بسم اللہ ہوٹل ہیں تو چار پانچ سندھی ہوٹل۔ کم از کم نصف درجن بلوچ کالونیاں ہیں۔ تین چار بنگالی پاڑے ہیں اور دو مصدقہ و تسلیم شدہ بہار کالونیاں پائی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے ملنے بلوچ کالونی جانا ہے تو شارع فیصل پر بلوچ کالونی فلائی اوور پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ جن صاحب سے ملنا مقصود ہے وہ تو اورنگی ٹاؤن کی بلوچ کالونی میں رہتے ہیں! جہاں بنگالیوں کے دس پندرہ مکانات ہوں وہی بنگالی پاڑا ہے۔ اب اگر مطلوبہ بنگالی پاڑے پہنچنا ہے تو پوری وضاحت سے پتہ معلوم کیجیے۔ خود بھلے ہی سرپٹ دوڑیے مگر اِس معاملے میں اٹکل کے گھوڑے مت دوڑائیے۔

شہر کا جغرافیہ ایسا بدلا ہے کہ اِس کے مکینوں کے تعلقات کی تاریخ بھی بدل گئی ہے۔ شہر کے دو سِروں کے درمیان سفر 40 کلومیٹر تک ہوگیا ہے۔ ایک ہی شہر میں سفر کرتے ہوئے محسوس یہ ہوتا ہے کہ کئی شہروں کی سیر کرنے نکلے ہیں! بعض منچلے تو شہر کے مختلف علاقوں کی سیر کا احوال بھی اخبارات میں سفر ناموں کے انداز سے لکھتے ہیں! اور سِتم بالائے سِتم یہ ہے کہ داد بھی پاتے ہیں!

مضافاتی علاقوں کے مکین عشروں سے شہر کے وسطی حصے تک جانے کو ”ذرا شہر جا رہا ہوں“ کہتے آئے ہیں۔ یہ گزرے وقتوں کی باتیں ہیں۔ معاملہ شہر کی منزل سے آگے جاچکا ہے۔ اب تو شہر کے سِرے سے مرکزی حصے تک کا سفر کسی دوسرے مُلک کا سفر معلوم ہوتا ہے! کراچی میں پیدا ہونے والے جن لوگوں کی عمر 60 سال ہوچکی ہے اُن میں 75 فیصد سے زائد ایسے ہیں جنہوں نے اب تک 25 فیصد شہر نہیں دیکھا! اگر کسی دوسرے شہر سے کوئی مہمان آ جائے اور شہر میں اُسے کسی سے مِلنا ہو تو میزبان اُس کے ساتھ جانے کا خاص اہتمام کرتا ہے کیونکہ اِس بہانے اُس کی بھی تھوڑی بہت سیر ہو جاتی ہے اور وہ اپنے شہر سے تھوڑا سا اور واقف ہو پاتا ہے!
سلیم احمد مرحوم نے کہا تھا۔
دیوتا بننے کی حسرت میں مُعلّق ہوگئے
اب ذرا نیچے اُتریے، آدمی بن جائیے!

اہل کراچی کا معاملہ یہ ہے کہ دانستہ گم رہنے کے لیے یادوں اور سوچوں میں کھوئے رہنے کے مُکلّف نہیں رہے۔ اِس خدمت کی بجا آوری کے لیے شہر جو موجود ہے۔ یعنی
اِک ذرا گھر سے نکلیے اور گم ہو جائیے!

سُنتے آئے ہیں کہ عِشق ایک بھول بُھلیّاں ہے۔ جو اِس میں گیا پھر ہاتھ نہ آیا۔ کراچی بھی اب ایسی ہی بُھول بُھلیّاں ہے۔ اِس بُھول بُھلیّاں کو مزید مستند بنانے کے لیے، شالا نظر نہ لگے، ”نو گو ایریاز“ بھی موجود ہیں! یہ علاقے فیض کے مصرع ”جو چلے تو جاں سے گزر گئے ....“ کی عملی تصویر ہیں۔ ”نو گو ایریا“ میں بعض ”غدّاروں“ کے داخلے پر پابندی ہے۔ جنہیں جان عزیز ہے وہ اپنے علاقوں کو بھی ”نو گو ایریا“ تصور کرلیتے ہیں یعنی اُس سے باہر نکلنے سے بھی حتی الامکان گریز کرتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524773 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More