ُلڑھکے ہوئے پتھر اور مخزن

زیر نظر مضمون جناب مقصود الہی شیخ کے جریدے مخزن کے دسویں اور آخری شمارے میں اپریل 2010 میں شائع ہوا تھا

یہ بات ہے 1987 کی جب علی باقر نے ناقدین کرام کے رویے کے بارے میں کہا تھا:
ُُ ُِ” اردو ادب کے موجودہ حالات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کے درمیان ناقدین کی ایک بہت بڑی فوج آکر کھڑی ہوگئی ہے ا ور ان کی وجہ سے ہر طرف انتشار کا موسم ہے، لڑائی جھگڑے کا، موسم ہے، گروپ بندی کا موسم ہے۔ ناقد اصرار کرنے لگے ہیں کہ انہیں اور صرف انہیں ادب کی پہچان ہے، ادیب اور شاعر کی پہچان ہے اور چونکہ اکثر ناقد حضرات بارسوخ ہیں، وہ جس کو چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں ذلیل کرتے ہیں ۔ یہ لوگ خود ادب تخلیق نہیں کرتے ہیں لیکن ادب کی دنیا میں اپنی آوازبلند رکھتے ہیں تاکہ اس آواز کو وہ خود اور ان کے حواری سن سکیں۔”

آج جبکہ 2010 اپنی اختتامی سانسیں لے رہا ہے ۔ علی باقر کی کہی ہوئی بات کو تئیس برس بیت چلے ہیں اور آثار بتاتے ہیں کہ اگلے تئیس برس بعد بھی اس کلیے میں جان ہوگی۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ علی باقر نے جن ناقدین اور ان کی تکلیف دہ روش کی جانب اشارہ کیا ہے، دیار فرنگ میں بسنے والے اردو افسانہ نگاروں و تخلیق کاروں نے ان کی کبھی پرواہ نہ کی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو مخزن میں ان کے 2001 سے تاحال تواتر کے ساتھ شائع ہونے والے تخلیقاتی ادب کو تازہ خون کی فراہمی کب کی منقطع ہوچکی ہوتی۔

بریڈ فورڈ، برطانیہ سے سالانہ بنیادوں پر نکلنے والے ادبی مجلے مخزن کے مرتب جناب مقصود الہی شیخ نے (جن کو پروفیسر قیصر نجفی نے اجنبی زمینوں پر آباد جینوئن قلمکار کا خطاب دیا تھا) راقم کے نام ایک پیغام دیار فرنگ میں مقیم نو آزمودہ اور کہنہ مشق لکھاریوں کے کام کے سمیٹے جانے کی ضرورت کے جواز میں جو کچھ لکھا ، وہ بذات خود اس قدر خیال آفریں ہے کہ اس کے ذکر سے دامن بچا کر گزرنا نامناسب ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:

” پچھلے دس سال میں برطانیہ کے اردو مجلے مخزن میں پیش کردہ ادب کی افادیت و ابدیت کی تعلی کا مطلب یہ ہے کہ سڑک سے لڑھکے ہوئے پتھر، جن کو اہل وطن تقریبا فراموش کرچکے تھے ، انہوں نے دیار غیر میں اپنی زبان و ادب کی قندیل روشن رکھی بلکہ اس کی لو کو نئے در و دیوار کی اجنبیت و بے تحاشہ مصروف زندگی گزارتے ہوئے مزید ابھارا اور روشنی پھیلائی۔ اس پر مستزاد، مخزن کے ذریعے نئی تخلیقیت کی رو کو برصغیر کے جانے مانے تجزیہ نگاروں سے پرکھ اور تول کراکے از خود آزمائش کرائی۔ اس طرح سخت اور سنگلاخ راہوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان و ہندوستان کے درمیان ادبی پل بنا۔ آگے کیا ہوگا ؟ یہ خدا جانے مگر برطانیہ (مغرب) کے اردو قلمکاروں نے اپنی فنی خامیوں یا خرابیوں (بالفرض) کے باوجود، اردو ادب میں بے باک بیانیہ اور نئے وژن کو آنے والے وقتوں میں مشعل بن کر ابدیت عطا کی۔”

اردو ادب کا سنجیدہ قاری اس بات کی گواہی دے گا کہ سڑک سے لڑھکے ہوئے یہ پتھر اردو ادب کی شاہراہ پر ایک نمایاں مقام پاچکے ہیں بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پتھر ریفلکٹر کا کام بھی دے رہے ہیں جو اندھیرے میں شاہراہ پر سفر کرنے والوں کو بروقت اپنی چمک دکھا کر حادثے سے محفوظ بھی رکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ درست سمت کا پتہ بھی دیتا ہے۔

امجد علی بھٹی کے بقول ” جب انسان نے اپنے آپ کو فطرت سے الگ کرکے خود کو مرکز نگاہ بنایا اور اپنے قول و فعل کو جانچنے اور اپنے اردگرد پھلی زندگی سے خود کو شعوری طور پر ہم رشتہ کرنے کی خواہش کی تو اس کی سوچ کے عمل کو مہمیز ملی اور یوں اس نے قوت متخیلہ کی مدد سے سورج، چاند، ستاروں، طوفانوں ، آندھیوں کے متلعق کہانیاں تراش لیں۔ ”

زمانہ قدیم سے چلی یہ روایت ہمارے یہاں پہنچی ۔۔ بقول راجندر سنگھ بیدی ” زندگی کی راہ گزر پر اب بھی ماضی کی طرح بے شمار کہانیاں موجود تھیں لیکن عام انسان ان کہانیوں کو بے خبری میں روندتے چلے جاتے ہیں اور انہیں کسی تاجدار کا سر غرور ہونے کے باعث خاک راہ میں پامال ہوتے رہنے کی خبر ہی نہیں ہوتی۔” ۔۔۔لیکن منٹو، غلام عباس ، کرشن چندر، شوکت صدیقی ، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی اور جوگندر پال جیسا کوئی افسانہ نگار ان کہانیوں کو دیکھتا ہے تو اسے حقیقی زندگی کی یوں تمثیل بنا دیتا ہے کہ اس کی تکنیک سے حسن اور اس کی ہیت سے صداقت آشکار ہوتی چلی جاتی ہے۔

تقسیم ہند سے لے کر موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے ان لڑھکے ہوئے پتھروں کے تحریر کردہ افسانے میں نئے رجحانات کا اضافہ ،نئے موضوعات کی تلاش، علامتی افسانے کا آغاز، افسانے کی ہیت میں توڑ پھوڑ، انحراف کے مضمر اثرات کے ساتھ ساتھ جس قوی ترین رجحان سے راسطہ پڑتا ہے وہ ہے ہجرت کا کرب۔۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان افسانوں کا خام مواد دیار فرنگ میں موجود اجتمائی زندگی کی مشکلات، روز مرہ کے مسائل، مغرب میں انفرادی زندگی کے ناگزیر تجربات، معاشی، اقتصادی، استحصالی و خوش حالی کے حالات، محبت، نفرت اور عداوت و رواداری جیسے لاتعداد موضوعات سے نمو پاتا ہے۔

موضوع کی مناسبت سے یہاں ڈاکٹر مارٹن ڈاڈز (Dr. M.C.L Dodds)کے تبصرے کا حوالہ دینا یقیننا اہم ہوگا۔ ڈاکٹر مارٹن برطانیہ میں اردو کے استاد رہے ہیں۔ ان کی یہ رائے اس لحاظ بھی اہم ہے کہ اس بات کو جانا جائے کہ ا نگریزوں اور انگلستان کے بارے میں برطانوی اردو قلمکاروں کی تخلیقات پڑھ کر ایک انگریز اردودان کیا سوچتا ہے۔ڈاکٹر مارٹن لکھتے ہیں:

دیار فرنگ میں بسنے والوں کی اکثریت سن 1960 کی دہائی میں برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں منتقل ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ اب پہلی نسل کے ان ایشیائیوں بالخصوص پاکستانیوں کی دوسری اور تیسری پیڑی جوں جوں جوان ہوکر مقامی معاشرے میں گھلتی ملتی جارہی ہے، اس میں گھر کی حد تک اردو بول چال کا ماحول تو ہوسکتا ہے کہ ہو لیکن دوسری یا تیسری نسل کو اردو کے مطالعے کا شوق ہو، اس بارے میں یقینا ابہام ہے۔

یہاں2001 میں مخزن کے اجرا سے لے کر تادم تحریر ، اس باوقار اردو جریدے میں تواتر کے ساتھ لکھنے والے تارکین وطن (ابجدی ترتیب کے ساتھ) اور ان کے کام پر ایک تحقیقی نظر ڈالی جائے تو کچھ اس قسم کی تفصیل سامنے آئے گی:

ادیب/شاعر کا نام برطانیہ(مغرب ) منتقلی کا سال مخزن میں شمولیت

احمد فقیئہ 1980۔سوئیڈن مخزن۔۴(شاعری)
احمد صفی امریکہ(1987 سے 2002 تک قیام اور اس کے بعد کراچی منتقلی) مخزن۔۸ (مضامین: ابن صفی چند حقائق، ابن صفی، اسرار ناروی اور میرے ابو )
مخزن۔۹(افسانہ: شٹ ڈاؤن)
آدم چغتائی جون 1961۔برطانیہ مخزن۔۴(شاعری)
آصفہ نشاط امریکہ مخزن۔۴(افسانے: صفحہ سات کالم چار، بون سائی، بھابھی کی لیبارٹری)
آصف جیلانی 1965۔برطانیہ مخزن۔۹(مضمون: اردو پہ مری آکے عجب وقت پڑا ہے)
افتخار نسیم امریکہ مخزن۔۴(افسانے: گلو، اپنی اپنی زندگی، شبری)، مخزن۔۴(شاعری)، مخزن۔۵(شاعری)
مخزن۔۶(افسانہ: دلہن)
اکبر حیدرآبادی 1955۔برطانیہ مخزن۔۴(شاعری)
آغا محمد سعید 1965۔برطانیہ مخزن۔۴(افسانے: میں لٹ گیا، رفو، کتا)، مخزن۔۴(شاعری)، مخزن۔۵(شاعری)
مخزن۔۶(افسانہ: مجو)، مخزن۔۶(شاعری) ، مخزن۔۷(شاعری ۔۔افسانہ: خواہش کی تکمیل)
باصر سلطان کاظمی 1990۔برطانیہ مخزن۔۴(شاعری)
بانو ارشد برطانیہ مخزن۔۶(افسانہ: ننھی مفکر)، مخزن۔۷(افسانہ: ایک چیلنج)
پروفیسر نذیر تبسم 29 جون 2003۔برطانیہ مخزن۔۸(مضمون: ادب اور قومی شعور )
پرویز مظفر 1993۔برطانیہ مخزن۔۲(شاعری)
پروین لاشاری برطانیہ مخزن۔۲ (افسانے: دو بول، منتر)، مخزن۔۴(افسانے: احسان، بدبخت، خالی سیپ)
ادیب/شاعر کا نام برطانیہ(مغرب ) منتقلی کا سال مخزن میں شمولیت

جیتندر بلو برطانیہ مخزن۔۲(افسانے: بچھڑتی دھوپ، مونگرل)، مخزن۔۳(افسانے: چھلاوہ، انجانا کھیل)،
مخزن۔۴(افسانے: اعتراف، بازار، خدا کا رنگ)، مخزن۔۶(افسانہ: ٹھکانا)،
مخزن۔۷(افسانہ: ماں بیٹی اور باپ)
جاویددانش کینیڈا مخزن۔۴(ڈرامہ: ٹانک)(عید کا کرب)
جاوید اختر پاشا امریکہ مخزن۔۵(افسانہ: جگنو)، مخزن۔۹(افسانہ: آگ، برف اور راکھ)
جمشید مرزا برطانیہ مخزن۔(افسانے: زنجیر بنی رہنا، صبح کا خواب، رانی)
چمن لال چمن مئی 1974۔برطانیہ مخزن۔۲(شاعری)
حسن شکیل مظہری فروری 1973۔برطانیہ مخزن۔۲، ۳ ، ۴، ۶، ۷، ۹ (شاعری)
حسین مشیر علوی 1968۔برطانیہ مخزن۔۲(شاعری)
حفیظ جوہر اکتوبر 1968۔برطانیہ (وفات: 31 مئی 2009، بریڈ فورڈ) مخزن۔۲، ۶ (شاعری)
حمیدہ معین رضوی اپریل 1986۔ برطانیہ مخزن۔۲ (بڑے بھیا، کوئلہ بھئی نہ۔۔۔)
خالد یوسف 1975۔برطانیہ (وفات: ۳ اکتوبر 2009) مخزن ۔۱ ( افسانے:آٹھ نمبری، عندلیپ، باصر) ، مخزن ۔۲( افسانے:امینہ، کنول کا پھول۔شاعری)
مخزن ۔۳(شاعری) ، مخزن ۔۴ (شاعری) ، مخزن۔۵ (شاعری) ، مخزن۔۶ (شاعری)
مخزن۔ ۷( شاعری)
خواجہ محمد عارف برمنگھم ۔برطانیہ مخزن۔۹(مضمون: برطانیہ میں اردو کا مستقبل)
ڈاکٹر عمران مشتاق 1998۔برطانیہ مخزن۔۴(افسانے: بولتی آنکھیں، اپنا خون، فنتاسی) ، مخزن۔۵(افسانہ: یوتھیسنیمیا )
مخزن۔۶ (افسانہ: بے چہرگی کا عذاب) ، مخزن۔۷(افسانہ: معاہدہ)
رضا الجبار 1981۔کینیڈا مخزن۔۴(افسانے: سہاروں کے موسم، چھرے چہرے کی خراش، شب کے دامن کا سویرا )،
مخزن۔۵(افسانہ: شہر نگاراں)، مخزن۔۶(افسانہ: بوجھل دل)،
مخزن۔۷(افسانہ:چاہت، سسکی، آہٹ)
ساحر شیوی 27 جون 1994۔برطانیہ مخزن۔۲(افسانہ: کیچ برڈ۔۔ مضمون: جوش ایک مفکر)
سائیں ُسچا 1965۔سوئیڈن مخزن۔۴(افسانے: گیلی، سراب، فوٹو سیشن) ، مخزن۔۶(افسانہ:نجات)
ستارہ لطیف خانم ستمبر 1976 ۔برطانیہ مخزن۔۱ (افسانے: سراب، ٹشو، اس پار)
سلیم الرحمن 1961۔برطانیہ مخزن۔۲، ۳(شاعری)
سوہن راہی نومبر۔۳۶۹۱۔برطانیہ مخزن۔۲، ۴، ۵، ۶، ۷ (شاعری)
سیدہ سلیم عالم برطانیہ مخزن۔۲ (افسانے: اس بار پرتگال، آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی)
ش صغیر ادیب 1965 ۔برطانیہ(وفات: 13نومبر2008) مخزن۔۱ (افسانے: اگر، خواب، لاکھوں میں ایک)، مخزن۔۵ (افسانہ: زاد سفر)
شریف احمد قیصر تمکین علوی 27 ستمبر 1976 ۔برطانیہ(وفات:25 نومبر 2009، لیڈز) مخزن۔۱ (افسانے: شاطر، باب الابواب، سیر گل خوب نہ دیدم) ، مخزن۔۲(شہرزاد سو گئی، کفن کھسوٹ)
افسوس کہ بلبل ہزار داستان خاموش ہوگیا مخزن۔۳ (صدی کے موڑ پر، یہ رزاقی نہیں ہے)، مخزن۔۴(افسانے: چراغ تلے، واعظاں کیں،بھوبھل )
مخزن۔۵ (مقالہ: مغرب میں اردو فکشن کا رجحان) ، مخزن۔۶(افسانہ: ردعمل)،
مخزن۔۷(افسانہ:مرحبا)
شمسہ مسعود 1969 ۔برطانیہ مخزن۔۱ (افسانے: بجھتے چراغ، خوشبو کا سفر، کاربوٹ سیل) ، مخزن۔۶ (افسانہ: جال)
شوکت برجیس 1968 ۔برطانیہ مخزن۔۲(شاعری)
صفیہ صدیقی 18 اکتوبر 1961 ۔برطانیہ مخزن۔۱(افسانے: منزل، اور سمندر رونے لگا، چھوٹی سی بات) ۔ مخزن۔۲ ( افسانے: فیصلہ، ایک اور
موت)، مخزن۔۳ (افسانے: مکالمہ، بدلتے زمانے، بکھرتے لوگ)
مخزن۔۴ (افسانے: ماضی کے دریچے سے، بے عنوان زندگی، ایک طوفانی شام )،
مخزن۔۵(افسانہ: جب زنجیریں ٹوٹ گئیں)، مخزن۔۶ (افسانہ: شاید کہ سحر ہو)
مخزن۔۷ (افسانہ: ایک پرانی کہانی)، مخزن۔۹ ( خود نوشت: میرا نام و نشاں)
ضیاءجلالپوری جنوری 1968 ۔برطانیہ مخزن۔۲(شاعری)
طلعت سلیم یکم جون 1967 ۔برطانیہ مخزن۔۱ (افسانے: تم کو خبر ہونے تک، منزل منزل، ایک آئینہ ٹوٹ جانے سے) ، مخزن ۔ ۲ شاعری)
مخزن ۔۳ (شاعری) ، مخزن۔۴ (شاعری)، مخزن۔۵ (شاعری)، مخزن۔۶ (افسانہ: ایک آئینہ ٹوٹ
جانے سے)، مخزن۔۷ (شاعری)
عابد ودود 1970 ۔برطانیہ مخزن۔۲، ۴، ۶ (شاعری)
عطیہ خان جون 1969۔برطانیہ مخزن۔۲(افسانے: چارپائی کا مرثیہ، عمر دراز)، مخزن۔۶(افسانہ: یہ رشتے)
فہیم اختر جون 1993۔برطانیہ مخزن۔۲(افسانے: رشتوں کا درد، ایک آس)، مخزن۔۴(افسانے: کتے کی موت، ایک گریزاں لمحہ،
خواب کا ایک نیا انجانا رشتہ) ، مخزن۔۵(افسانہ: سرکل لائن)
فیروز مکرجی برطانیہ مخزن۔۲(افسانے: انمول ورثہ، صداقت حسین خاں کی کہانی ان کی زبانی)
فیروزہ جعفر ستمبر 1968 ۔برطانیہ مخزن۔۱ (افسانے: لنچن کلب، گیتوں کے دکھ، زائچہ)
قمر یوسف جنوری۔1963 ۔برطانیہ مخزن۔۲، ۵ ،۶،۷(شاعری)، مخزن۔۹(مضمون: شاعر بلند مقام۔محسن احسان)
لطیف راز لیور پول۔برطانیہ مخزن۔۹(مضمون: گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے )
محسنہ جیلانی دسمبر 1965 ۔برطانیہ مخزن۔۱(افسانے: چھٹی چادر، مہندی اور خون، ٹیمز اداس ہے)، مخزن۔۴(افسانے: صدیوں کا
اندھیرا ، ہم سو رہے ہیں، رسوائے جہاں ہو جاؤ گے)، مخزن۔ ۵ (افسانہ: اے دل۔۔اے دل)
مخزن۔۶(افسانہ: ٹیمز میں پھول)، مخزن۔۸(افسانہ: کس کی موت)
محمد سرور رجا 1980 ۔برطانیہ مخزن۔۴(شاعری)
محمد عارف جون۔1968 ۔برطانیہ مخزن۔۲(شاعری)
محمد فرید سپرو بریڈ فورڈ ۔برطانیہ مخزن۔۹(مضمون: والدین اور اردو)
محمد یعقوب مرزا ۶ اپریل 1959۔برطانیہ مخزن۔۱(افسانے: ناہید صدیقی کہ ہے ایک رقاصہ، ولائیت پاس، اکھنور )
محمود ہاشمی برطانیہ مخزن۔۴ (مضمون: لیڈز یونیورسٹی کی یادیں۔۔افسانہ: مشرق کی کہانی)
مقصود الہی شیخ ۱۳ مئی 1968۔برطانیہ مخزن۔۱(افسانے: رُت آئے۔رُت جائے،گھاؤ، موہے پیا ملن کو جانا)، مخزن۔۲(افسانے:رگ سنگ،
وابستگی۔وابستگی)۔ مخزن۔۳: (افسانے: طرز تغافل نہ عرض تمنا، سچ مچ)، مخزن۔۴(افسانے: برسو رے
نینوا مورے، پلوں کے نیچے بہتا پانی، چلو ہٹو)، مخزن۔۵(افسانہ: صبح شب فراق)، مخزن۔۶(افسانہ:
مقدر)، مخزن۔۷(افسانہ: سہم)، مخزن۔۸(افسانہ:گرداب۔۔ دریا کا سمندر ہونا۔۔احمد ندیم قاسمی
پر تحریر)، مخزن۔۹(افسانہ: درد سے بھرے سنگ و خشت)
منور احمد کنڈے ۸ دسمبر 1965۔برطانیہ مخزن۔۲، ۳، ۴، ۵، ۶(شاعری)
نجمہ عثمان 1969۔برطانیہ مخزن۔۱(افسانے: مجو میاں، سیتا کا بن باس، کلاسیفیکیشن) ، مخزن۔۲(افسانے: رشتوں کی دہلیز پر،
بعد دعا کے معلوم ہو)، مخزن ۔۳(شاعری)، مخزن۔۴(افسانے: سنگ گراں، پیڑ سے بچھڑی شاخ،
چوتھی عورت)، مخزن۔۵(افسانہ: مرتی ہوئی کہانی)، مخزن۔۶(افسانہ: زخمی پھول)
مخزن۔۹ (افسانہ: رانی کے ہیرا موتی)
نعیمہ ضیاءالدین جرمنی مخزن۔۴(شاعری۔۔۔افسانے: ڈسٹ بن، وصیت، مراجعت) ،
مخزن۔ ۶(افسانہ: ایک شبدکا جیون) ، مخزن۔۷(افسانہ: پیک دان) ،
مخزن۔۹(افسانہ: ایک شبد کا جیون)
نیر جہاں امریکہ مخزن۔۶ (افسانہ: دھنک سے تپتی ریت)، مخزن۔۶(شاعری)

جولائی کا مہینہ تھا اور سال 2001کا جب مخزن نے پاک و ہند اور دنیا کے دیگر حصوں میں بسنے والے اردو کے قارئین کے دروازے پر دستک دی اور اردو زبان کے چاہنے والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ روز اول سے تادم تحریر مخزن کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس وقت بھی جب یہ سطور سپرد قلم کی جارہی ہیں ، راقم کے سامنے مخزن کے ُکل نو عدد رنگ برنگے شمارے بکھرے ہوئے ہیں۔۔۔مختلف النوع رنگوں کے دیدہ زیب سرورق ۔۔ہر کوئی ایک دوسرے سے جدا ، اپنے پڑھنے والوں کے من کو لبھاتا ہوا! ۔۔ ادھر پہلا ورق پلٹئے اور وادی اردو میں داخل ہوجائیے جہاں آپ کا استقبال قدم قدم پر بکھرے فن پاروں سے کیا جائے گا۔

جولائی 2001 سے 2010 تک شائع ہونے والے مخزن کے نو عدد شماروں کی مکمل تفصیل کچھ یوں ہے:

مخزن اول سن اشاعت: جولائی 2001 تعداد: 500
مخزن ۔۲ سن اشاعت: اکتوبر 2002 تعداد: 750
مخزن ۔۳ سن اشاعت: مارچ 2004
مخزن ۔۴ سن اشاعت: 2005 تعداد: 500
مخزن ۔۵ سن اشاعت: 2006
مخزن ۔۶ سن اشاعت: 2007
مخزن ۔۷ سن اشاعت: 2008
مخزن ۔۸ سن اشاعت: 2009
مخزن ۔۹ سن اشاعت: فروری/مارچ 2010

مخزن کے پہلے شمارے میں اردو کی نئی بستیوں یا دیار فرنگ میں آباد بارہ افسانہ نگاروں کے کل تین تین افسانے شامل ہیں جبکہ ان افسانوں کا تجزیہ پیش کرنے والوں کی تعداد بارہ ہے۔ہلکے زرد رنگ میں راجا نیر کا بنایا سرورق جداگانہ نظر آتا ہے۔ یہ شمارہ کل 236 صفحات پر مشتمل ہے۔ مخزن کے دوسرے شمارے میں افسانوں کے ساتھ ساتھ شاعری ، متفرق مضامین، تحقیقی مضامین کو بھی جگہ دی گئی جبکہ افسانوں کا تجزیہ جانے مانے اہل قلم نے کیا۔ گہرے نیلے رنگ کا باوقار سرورق سادگی کی مثال ہے ۔مخزن کا یہ شمارہ 436 صفحات پر مشتمل ہے۔مخزن کے تیسرے شمارے میں برطانیہ کے بارہ افسانہ نگاروں کی چھتیس تخلیقات اور ان پر پاکستان کے معروف تجزیہ نگاروں کے تجزیے شامل کیے گئے ہیں۔ مذکورہ شمارہ 378 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ سرورق پر سمندر کی خوبصورت سیپیوں کی تصویر ہے۔ جناتی حجم کا حامل مخزن کا چوتھا شمارہ 810 صفحات پر مشتمل ہے۔یاد رہے کہ تاحال مخزن کا کوئی شمارہ حجم میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکا، ایک لحاظ سے ہم اسے مخزن کا خاص نمبر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس شمارے میں افسانوں کے علاوہ ڈرامے، تجربے، شاعری، سفرنامہ وغیرہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ مذکورہ شمارے میںؒ کشمیر اداس ہےؒ کے مصنف اور معروف قلمکار محمود ہاشمی کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔مخزن کے چوتھے شمارے کے گہرے نیلے رنگ سے تخلیق کردہ سرورق پر گول دائرے میں بند دنیا میں آگرہ کے تاج محل،اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد اور امریکہ کے مجسمہ آزادی کی حقیقی تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں۔249 صفحات پر مشتل مخزن کے پانچویں شمارے کا سرورق جمی آرٹسٹ نے تخلیق کیا ہے۔ اس شمارے میں پاک و ہند کے معروف تجزیہ نگاروں کی آرا اور دیار فرنگ میں آباد لکھاریوں کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں ۔ مخزن کا یہ شمارہ اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں تخلیقات پر تجزیے پیش نہیں کیے گئے بلکہ تخلیق کاروں نے پہلی مرتبہ خود اپنا تعارف پیش کیا۔مخزن کے چھٹے شمارے کے سرورق پر ہلکے سبز و نیلے رنگوں میں ایک گول گیند کی شکل میں دنیا کا نقشہ دکھایا گیا ہے جس کے کونے میں ایک قلم اپنی نوک سے لفظ مخزن تحریر کرتا دیکھا جاسکتا ہے۔ ثاقب فیروز کے بنائے سرورق کے حامل اس شمارے کے کل صفحات 456 ہیں اور اس میں مضامین، افسانے، شاعری اور یاداشتوں کے عنوانات سے مختلف تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔ مخزن کے ساتویں شمارے کے سرورق پر برطانیہ کے بلند و بالا پہاڑ کی جاب ایک شاہراہ جاتی دکھائی گئی ہے جس کے دونوں اطراف میں گھاس کے میدان ہیں۔ ذرا غور کرنے پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ یہ شاہراہنہیں بلکہ کسی لباس کی زپ ہے ۔ 312 صفحات پر مشتمل اس شمارے میں افسانوں اور شاعری کے علاوہ مختلف مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔ اس شمارے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ تخلیق کاروں کے علاوہ تجزیہ نگاروں کے کوائف بھی شامل کیے گئے ہیں۔مخزن کے آٹھویں شمارے کا منفرد و شوخ رنگوں کا حامل سرورق احمد ندیم قاسمی کی نواسی نفیسہ حیات قاسمی نے تخلیق کیا ہے ۔ سرورق پر احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر درج ہے:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

312صفحات پر مشتمل اس شمارے میں افسانوں، خودنوشت اور سفرناموں کے منتخب ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ شاعری کو شامل کیا گیا ہے۔جبکہ احمد ندیم قاسمی کے لیے ایک گوشہ بھی مخصوص کیا گیا ہے۔

مخزن کے آٹھویں شمارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں برصغیر کے نامور جاسوسی ادیب جناب ابن صفی پران کے فرزند ،احمد صفی کے دو خصوصی مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔مذکورہ مضامین کی مخزن جیسے موقر اور خالصتاادبی پرچے میں اشاعت ابن صفی کے ان گنت پرستاروں کے لیے ایک خوشگوار تحفے سے کم نہ تھی۔ گرچہ اس سے پیشتر بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر مجنوں گورکھپوری ، رئیس امروہوی، نصر اللہ خان، گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، امجد اسلام امجد، شاعر لکھنوی، سرشار صدیقی اور پروفیسر حسن عسکری جیسی نابغہ روزگار شخصیات ابن صفی کی ادبی خدمات کا برملا اعتراف کرچکی ہیں لیکن مخزن میں ان مضامین کو شائع کرکے جناب مقصود الہی شیخ نے صفی صاحب کی اردو ادب میں ان کی مسلمہ حیثیت و مقام کو کشادہ دلی سے تسلیم کیاجس کے لیے وہ بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ابن صفی نے جس مسلک کج کلاہی کی سمت ایک دفعہ اپنا قبلہ راست کرلیا، پھر اسے تاعمر نہیں بدلا اور اپنے اسی عہد وفا میں علاج گردش لیل و نہا ر ڈھونڈا۔ اور یہ انہوں نے اس زمانے میں کیا جب اردو زبان کے سری ادب کو تازہ خون کی اشد ضرورت تھی۔ کتنے ایسے ہیں جو قریبا نصف صدی تک ایک ہی وضع پر قائم رہے ہوں ؟ ابن صفی کے چنے ہوئے راستے سے ادب کے رہنماؤں کو اختلاف کیوں نہ رہا ہو لیکن اپنی بے مثال تحریروں کے ذریعے اردو زبان کے پھلاؤ، قانون کا احترام اور پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت جیسے کام جس پامردی و استقامت سے انہوں نے کیے وہ لائق تحسین و تکریم ہیں۔ مخزن کے نویں شمارے میں بہار، ہندوستان سے قاسم خورشید نے اپنے خط میں کیا خوب کہا کہ ؒ پہلی بار اب ہمارے ادب میں ابن صفی پر سنجیدہ گفتگو ہونے لگی ہے، یہ جان کر تقویت کا احساس ہوا ؒ ۔۔۔اسی طرح ظہیر انور نے کولکتا سے تبصرہ کیا کہ ؒ فن اور تصوراتی کاوشوں کے حوالے سے تخلیق کیا گیا ادب وہ ادب ہوا کرتا ہے جس کو عوام نے قبولیت کی سند بخشی ہو، عام آدمی ایسے ادب میں اپنی خوشی اور غم کی پوری کائنات کی جھلک دیکھ پاتا ہے، ابن صفی میں کوئی شے تو ایسی تھی کہ وہ ہر طبقے میں بیحد مقبول تھے۔ؒ

مخزن کا نواں شمارہ 344 صفحات پر مشتمل ہے ، سرورق دعا عباس کا تخلیق کردہ جبکہ اس کے ایک کونے میں نسیم سید کا یہ خوبصورت شعر درج ہے:

پڑی ہوئی تھی کسی در پہ ٹھیکرے کی طرح
میں اٹھ کھڑی ہوئی اور اٹھ کے کوہسار ہوئی

افسانوں، خود نوشت کے منتخب حصوں، شاعری کے علاوہ اس میں مخزن کے پچھلے شمارے پر قارئین کے خطوط پر مشتمل تبصرے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مولانا یوسف لدھیانوی کے مشہور سلسلے آپ کے مسائل اور ان کا حل کو بھی مذکورہ شمارے میں جگہ ملی اور قارئین اس کے عقبی ورق پر مقصود الہی شیخ صاحب کو ادب کا تمغہ امتیاز وصول کرتے دیکھ کر مسرور ہوئے۔

تارکین وطن ہم عصردنیا کا نیا موضوع ہیں۔ جادو ٹونوں کی سرزمینوں سے لوگ کھیل تماشوں کے پنڈالوں میں چلے آئے ہیں۔ دنیا ٹیلی وژن کی اسکرین میں سمٹ آئی ہے۔ حقیقت اب اسی کا نام ہے جو کیمرہ دکھا دے۔ جو منظر اوٹ میں ہے یا دکھانے، بتانے والے کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اس کا اسکرین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ جو اسکرین پر موجود نہیں، اس کے بارے میں تصور اور تخیل متحرک نہیں ہوپاتے۔ لیکن تمثیل اور تخیل کا کل اجارہ ٹیلی وژن کے پاس نہیں ہے۔ لفظ تخلیق کرنے والے ابھی موجود ہیں اور ان کو پڑھنے والے دستیاب! ۔۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی تعداد روز بروز کم ہوتی چلی جارہی ہے۔

ساتھ ساتھ ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ تیزی سے انحطاط پذیر معاشرے میں جہاں انسانی و اخلاقی قدریں پامال ہوئیں ہیں اوربدعنوانی نے ہر طبقے کو اس بری طرح متاثر کیا ہے کہ گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، وہاں معاشرے کا سوچنے اور غور و خوص کرنے والا طبقہ بھی اس بگڑتی صور تحال سے متاثر نظر آتا ہے۔ ذیل میں دو ایسے اہل قلم کی حالیہ آرا شامل کررہا ہوں جو معاشرے کے نباض کہلاتے ہیں۔پہلا تبصرہ جناب کمال احمد رضوی (الف نون فیم) کا ہے جن کی تحریریں الف نون کی شکل میں آج کم و بیش تیس برس گزر جانے کے بعد بھی تر و تازہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں:
" جو کچھ اس وقت پاکستان میں ہورہا ہے وہ ڈوبنے کا مقام ہے۔ ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ اب لکھنے والی بات ختم ہوگئی ہے ،معاشرے کی اصلاح کوئی نہیں کر سکتا۔اب تو صرف یہ بات کریں کہ معاشرے کو اور زیادہ کس طرح بگاڑا جاسکتا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین صرف یہ بتا تا ہے کہ کس نے کتنی چوری کی ہے لیکن ان چوروں کو کون سزا دے گا؟ آج تک کتنے دہشت گرد ہاتھ آئے ہیں؟ کیا کسی کو پھانسی ہوئی ہے ؟ پاکستان آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے، اوپر سے قدرت بھی آپ کا ساتھ نہیں دے رہی۔انسان ایک حد تک کوشش کرسکتا ہے اس کے آگے وہ بے بس ہے۔ "

اسی طور معروف شاعر جناب حمایت علی شاعر بھی رو بہ زوال معاشرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

" ظاہر پرستی کا زمانہ ہے۔ خدا کی حیثیت اب دو نمبر کی ہے۔ تہذیبی اقدار نہیں ہیں۔پیسے کے رشتے ناطے ہیں۔ پورا معاشرہ یہودی ہوچکا ہے۔ میں اپنے پڑوسی کو نہیںپہچانتا اگر وہ پیسے والا نہیں ہے تو۔ ہماری پوری تاریخ منافقت سے ہوئی ہے۔ ہم سچ بات بول نہیں سکتے، لکھ نہیں سکتے۔ہم نے لفظوں کی حرمت کھو دی ہے۔ہمارے یہاں مقابلے کا فقدان ہے۔ہم کسی سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ضعیف حکایات بتا کر نجانے ذہنوں کو کس راہ پرڈالنا چاہتے ہیں۔ "
یہ معجزہ بھی وقت کا کتنا عظیم ہے
اب دست سامری میں عصائے کلیم ہے

بین السطور آرا کے بعداگر اس تمام معاملے کا روش پہلو دیکھا جائے تو حوصلہ افزا بات یہ سامنے آتی ہے کہ 2001 میں مخزن کے اجرا سے لے کر 2010 تک انؒ لڑھکے ہوئے پتھروںؒ نے اپنے تخلیق کردہ ادب کے لیے جتن سے لفظ حاصل کیے اور پر بنا کر لگا دیے ۔ اب دیکھیے کہ ان سے بنتا کیا کچھ ہے۔فاختائیں یا کبوتر۔بقول شخصے ضرورت تو دونوں کی ہے، فاختاؤں کی امن کے لیے اور کبوتروں کو نامہ بر کا کردار ادا کرنے کے لیے۔ ان سب تک جو اپنی اپنی کہانی اوڑھے بیٹھے ہیں،۔۔۔لکھنے کا یارا نہیں رکھتے ۔۔دل پر جھیلتے ہیں۔

ان لڑھکے ہوئے پتھروں کی کہی ہوئی کہانیاں مشرقی و مغربی تہذیب، معاشرت، ثقافت اور انسانی رویوں کی آیئنہ دار ہیں جس میں کہیں تارکین وطن کا نوحہ، کہیں اعلی اقدار کی پامالی، کہیں استعماری قوتوں کی ریشہ دوانیاں، کہیں طبقاتی کشکش تو کہیں نادار و بے کس انسانوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ مشرق و مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقدار کا خوبصورتی سے احاطہ کی گیا ہے۔۔۔۔۔ یہ تو اپنا کام کر چکے۔۔اور شاہراہ ادب پر نمایاں مقام پر ایستادہ بھی ہوچکے۔۔۔اب ضرورت ہے اس بات کی کہ ان جیسے مزید تازہ دم قلمکار سامنے آئیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہیے۔۔اگر تھم گیا تو گراں خوابی کا شکار یہ معاشرہ جسے ہر دور میں نشتر زنی کی ضرورت درکار ہوئی ہے ، مجبوری و گھٹن کی صورت اس شعر کی تفسیر بن جائے گا:

ہم سے مجبور کا غصہ بھی عجب بادل ہے
اپنے ہی دل سے اٹھے، اپنے ہی دل پر برسے

اور اردو زبان فراق گورکھپوری کے بقول شاید اتنا ہی کہہ پائے گی:

تو پھر عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے! تم سے برا بھی ہو

لیکن ٹھہرو دوستو! ۔۔۔۔۔ مخزن کے شمارہ نمبر ۹ میں امجد مرزا نے ؒ برطانیہ کے ابھرتے ہوئے قلمکار اور ان سے وابستہ توقعاتؒ کے عنوان چند لکھاریوں کے مختصر کوائف بیان کیے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانیہ میں اردو کی بقا کا غم کھانے والے مقصور الہی شیخ کو اس بارے میں چنداں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔۔۔اردو کا مستقبل دیار فرنگ میں تابناک ہے۔۔۔۔مذکورہ لکھاریوں کے نام اس طرح سے ہیں:
ثمینہ بلال، نرگس جمال سحر، رخسانہ زخشی، سائرہ بتول، شہباز خواجہ، راحت بھٹی، سلیم فگار، اشتیاق زین ، مظفر احمد مظفر۔

یہاں مخزن کے اجرا کے بنیادی مقصد اور اس کے مرتب کی انتھک کاوشوں کے پس منظر میں مخزن کے متفرق شماروں ہی سے چند اہل قلم کی آرا شامل کی جارہی ہیں:

شیر افضل خان بریکوٹی: ؒ انگلستان میں اردو ادب کی تاریخ لکھنے والا مورخ جب چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھے گا تو وہ لکھنے پر مجبور ہوگاکہ اس ملک کے اندر بریڈ فورڈ میں مقصود الہی شیخ بھی تھا۔ؒ
رئیس الدین رئیس(علی گڑھ، ہندوستان): ؒ یہ تارک الوطنی مہاجرین لائق تحسین ہیں جو مغرب میں بھی اپنے مذہب اور اپنی مشرقی تہذیب و ثقافت پر نہ صرف یہ کہ قائم رہے بلکہ جلد ہی وہ منظم ہوکر ادب کے ایک پلیٹ فارم پر آگئے۔ آج وہ مغربی دنیا کو اردو ادب کا ایک تیسرا بڑا مرکز بنا دینے میں کماحقہ کامیاب ہیں۔ؒ
ڈاکٹر جلیس سہسوانی: ( ایڈیٹر: گلکدہ، اتر پردیش، ہندوستان): ؒ دیار غیر میں رہ کر اردو اور اردو شعر و ادب کی خدمت دیکھ کر بے اختیار منہ سے واہ واہ کی صدا نکل گئی۔ ؒ

ظہیر انور:(ماہنامہ انشا ، کولکتا ): ؒ اردو زبان و ادب کی جڑیں سمندر پار تک پھیل چکی ہیں، دور دراز ملکوں میں زبان کی مختلف اصناف کو فروغ ملا ہے ا ور اس کے ساتھ ساتھ ایک نیا ذائقہ اور احساس بھی۔ انگلستان تو اردو ادب کے ایک مستقل گہوارے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ؒ

حقانی القاسمی: (بزم سہارا، دہلی): ؒ مخزن دراصل میر تقی میر کی چھتری کی طرح ہے جو سمندر کے احوال کی خبر دیتی ہے۔

فخر زمان، لاہور: ؒ مخزن کے ذریعے علم و ادب کی یہ خدمت آب زر سے لکھی جائے گی اور مقصود الہی شیخ کے نام اور کام کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل تصور نہیں کی جائے گی۔ؒ

امجدمرزا امجد: ؒ کہتے ہیں کہ جواری جب سب کچھ کھو بیٹھتا ہے تو کوڑیوں سے کھیلنا شروع ہوجاتا ہے مگر کھیل سے باز نہیں آتا۔ مقصود الہی شیخ سے ادب کی بنجر ہوتی ہوئی زمین کو دیکھا نہ گیا۔ ؒراویؒ کے بعد اس منہ سے ایک اور چشمہ پھوٹا جس نے ساری دنیا کو سیراب کردیا۔ ایک ایسا پلُ بنا جس نے دنیا کے ہزاروں لکھاریوں، ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ؒ

سید ظفر ہاشمی(دوماہی گلبن، لکھنو): ؒ مخزن نامی اشاعتی سلسلے کو شیخ مقصود الہی نے ایک پل سے تعبیر کیا ہے جس کا مقصد مغربی ممالک میں آباد ادیبوں اور شاعروں کو برصغیر میں ان کی بڑوں سے جوڑنا تھا نیز دیار غیر میں مقیم قلمکاروں کو ہندوپاک میں متعارف کرانا تھا، ان کی تخلیقات سے قارئین کو مستفید کرانا اور برصغیر کے ناقدین کو ان تخلیقات کا تجزیہ کرنے کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس کار عظیم کو انہوں نے مختلف انداز سے انجام دینے کی کوشش کی، نتیجہ یہ ہوا کہ مخزن کا ہر مجلہ انفرادی انداز سے نمودار ہوا۔ؒ

مضمون کی ابتدا میں جناب مقصود الہی شیخ کا تبصرہ کہ ؒ سخت اور سنگلاخ راہوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ،مخزن پاکستان و ہندوستان کے درمیان ادبی پل بنا ؒ شامل کرچکا ہوں اور اس کی توثیق مشاہیر ادب کی مندرجہ بالا حقیقت پر مبنی آرا بجا طور پر کرتی نظر آتی ہیں۔

اس مضمون کے اختتام پر میں یہ کہنے میں کلی طور پر حق جانب ہوں کہ اجنبی سرزمین پر رہتے ہوئے شیخ صاحب اردو زبان کی ترویج کا جو مشن لے کر چلے تھے اسے انہوں نے بطریق احسن پورا کیا اور مخزن آج ان کے خواب کی تعبیر کی صورت میں موجود ہے۔ اس بات کی صداقت کے ثبوت میں مَیں کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ ع
زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300456 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.