23مارچ جسے ہم یومِ پاکستان کے
طور پر مناتے ہیں مگر23مارچ کے دن ہم جو کچھ قلم کے ذریعے لکھتے ہیں ، زبان
سے ادا کرتے ہیں اور اپنے عمل سے جس کا اظہار کرتے ہیں وہ سب کچھ دن گزرنے
کے ساتھ ساتھ ہمارے دل ودماغ سے مٹتا چلا جاتا ہے اور ہم دوبارہ اُنہی
کاموں میں مشغول ومگن ہو جاتے ہیں جو پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے کسی
طرح سے بھی آسانیاں پیدا نہیں کرتے بلکہ بے چینیاں اور مشکلات بوتے
ہیں۔علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایسا خواب نہیں دیکھا تھابلکہ
انہوں نے ایسی فلاحی ریاست کا خیال دیا تھا جہاں اِسلام اور اِسلام سے محبت
کرنے والے لوگ ہوں ،جہاں اُنہین معاشرتی ومعاشی قیود کا سامنا نہ ہو،جہاں
حاکم اور محکوم کے درمیان خلیج حائل نہ ہو،جہاں امن اور سکون ہو۔مگر ہوا
کیا؟ یہ ایک بڑی دردناک کہانی ہے۔ہم انگریزوں اور ہندووں کی غلامی سے نکل
کر جاگیرداروں ،چوہدریوں اور سرداروں کی غلامی میں جکڑ لئے گئے۔معاشی میدان
میں بھی ہم ر وز بروز تنزلی کا شکار رہے ہیں کیونکہ معیشت پر اُنہی جاگیر
داروں اور صنعت کاروں کا قبضہ رہا ہے جو ہندو بنئے اور مکار انگریز وں کے
تربیت یافتہ تھے۔مذہبی آزادی کا خوا ب بھی دوسرے خوابوں کی طرح چکنا چور ہو
گیاکیونکہ ہمیں پہلے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیا گیا پھر مسجدوں کو غیر
محفوظ بنا دیا گیایوں ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا گیا۔گویا ہمیں آزادی
کے ثمرات سے محروم کر دیا گیا۔قائدِاعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ
اورعلامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے یقینا ایسے پاکستان کی بالکل خواہش
نہیں کی ہو گی کہ جہاں بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہو،جہاں غر یبوں کو ایک
وقت کے کھانے کے حصول کے لئے جان کے لالے پڑ جاتے ہوں۔جہاں انصاف کی تلاش
میں لوگ مارے مارے پھرتے ہوں۔حکمرانوں کو استثنی حاصل ہو،وزراءاور
اُمراءقانون سے بالاتر ہوں اور غریب قربانی دینے والے ہی قانون کی پہنچ میں
ہوں۔جہاں لوگ امن اور تحفظ کے نام سے نا آشنا ہوں۔جہاں بے روزگاری کے
ہاتھوں ستائے پڑھے لکھے نوجوان سٹریٹ کرائم ،چوری چکاری اور ڈاکہ زنی کو
اپنانے پر مجبور کر دیئے گئے ہوں۔
جہاں لوگوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی (آٹا ،چینی،گھی،گیس اور بجلی) کے لئے
ترسایا جاتا ہو۔جہاں حکمرانوں اور اُن کے وزراء اور مشیروں کی حفاظت کے لئے
سیکیورٹی ایل کاروں کی فوج ظفر موج متعین ہو اور عوام کو بے یارو مدد گار
ڈاکوﺅں ،بھتہ خوروں اور لُٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہو۔حکمران
قانون سے بالاتر اور عوام قانون کے شکنجے میں ہوں۔جہاں جعلی ڈگری والے
قانون بنانے والے اور اصلی ڈگری ہولڈر قانون کا شکار ہوں۔جہاں اسمبلی میں
جانے کے لئے کوئی میرٹ نہ ہو اور چپڑاسی بھرتی کرنے کے لئے میرٹ ہو۔جہاں
ہزاروں کا قرضہ لینے والوں کی جائیدادیں اور مکان عدم ادائیگی پر نیلام کر
دی جاتی ہوں اور اربوں کے قرضے لینے والوں کو ایوانِ اقتدار میں بٹھا دیا
جاتا ہواور قرضے معاف کر دیئے جاتے ہوں یا NROجیسی پناہ گاہ فراہم کر دی
جاتی ہو۔جہاں غریبوں کی سرِعام چھترول کی جاتی ہو اور فوجداری مقدمات میں
ملوث بااثر افراد کو ملک کے اعلٰی عہدوں پر متمکن کر دیا جاتا ہو۔ کیا
23مارچ کوعلامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اِسی لئے الگ ملک کا مطالبہ
کیا تھا۔کیا 23مارچ کوعلامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے عوام کو ایک
عذاب سے نکال کر دوسرے عذاب میں دھکیلنے کے لئے علیحدگی کا خواب دیکھا
تھا۔سیاست دانوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے صوبوں میں نفرت کے ایسے بیج
بوئے ہیں کہ آج صوبہ بلوچستان اپنے جسم پر لگے زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے
علیحدگی کی باتیں کر رہا ہے۔صوبہ سندھ بھی سیاسی جماعتوں کے مفادات کی
بھینٹ چڑھتا دکھائی دیتا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی سیاسی انتشار کی
وجہ سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا یہی آزادی ہے؟ صوبہ پنجاب
میں بھی حالات سازگار نہیں سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لئے پنجاب کو حصوں
میں بانٹنے پر تلی ہوئی ہیں ۔ اپنے اپنے مفاد میں سب سیاسی جماعتیں اکٹھی
ہو جاتی ہیں ۔جیسے بیسویں ترمیم پر ،صدارتی اور وزیر ِاعظم کے انتخاب پر
،اپنی مراعات اور تنخواہوں کے اضافہ پر مگر جب بات ملکی مفاد اور عوامی
مفاد پر آتی ہے تو اِن میں اختلافات پھوٹ پڑتے ہیں جیسے کالاباغ ڈیم کا
منصوبہ لٹکا ہوا ہے ۔ایسے میں عوام جمہوریت اور سیاستدانوں سے مایوس نہ ہوں
تو اور کیا کریں؟
حالات جیسے بھی ہیں مگر بات ابھی اتنی نہیں بگڑی کہ ہم موجودہ حا لات کو
سنبھال نہ سکیں مگر اِن حالات کو سنبھالنے کے لئے ہمیں اپنے مفادات کو پسِ
پشت ڈالنا ہو گا اور ملکی مفاد اور استحکام کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات
کرنے ہوں گے23مارچ کا جذبہ جگانا ہو گا ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا ملک
سے بے روزگاری اور کرپشن ختم کرنا ہو گی۔اداروں کے درمیاں احترام ،اعتماد
اور اختیارات میں توازن کی فضا پیدا کرنی ہو گی۔ ملکی دشمنوں کی آنکھ میں
آنکھ ڈالنی ہو گی اور دوستوں کے لئے آنکھیں فرشِ راہ کرنی ہوں گی۔قانون سب
کے لئے ایک جیسا کوئی بڑا ہو یا چھوٹا تب جاکر 23مارچ کا دن منانے کے تقاضے
پورے ہوں گے۔تب جاکرعلامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے خواب کی سچی اور
سُچی تعبیر سے مزین پاکستان ملے گا۔تب جا کر قائدِاعظم محمد علی جناح رحمتہ
اللہ علیہ کے ویژن کے مطابق جمہوریت کے ثمرات پاکستانیوں کا مقدر بنیں گے۔
تب جا کر لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا حق ادا ہو گا 23مارچ کا یہی پیغام
ہے - |