دلوں کو متاثر و مسحور وہی بات
کرتی ہے جس میں دو خوبیاں پائی جاتی ہوں حسنِ مضمون اور حسنِ بیان۔ قرآن
کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں یہ دونوں خوبیاں بکمال درجہ پائی
جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کلام نے سنگ دلوں کو موم بنا کر رکھ دیا۔ اس
کلام کو اس کی اصل نفاست و سلاست اور اصل حکمت و نکہت کے ساتھ جب بھی بیان
کیا جائے گا یہ دلوں کو مسحور اور ذہنوں کو مقہور کرے گا۔یہی کچھ تذکرہ
علامہ اقبال ؒ نے اپنے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضرِ و موجود سے بیزار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھا کے تجھے تلوار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
ایسی تحریریں زندہ و جاوید ہوتی ہیںجن کے پیچھے صرف بلاغت و ندرت کا
اعجازہی نہیں ہوتا بلکہ کردار کی عظمت بھی کا رفرما ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
کوئی طاقت انہیں محو کر سکتی ہے نہ محدود۔ سیّد قطبؒ لکھتے ہیں:"کسی مصنف
کی تحریریں ایسی ہیں جیسے خوب صورت مورتیاں۔ جب مصنف اپنی تحریروں کی تائید
اپنے کردار سے کرتا ہے تو ان میں روح داخل ہوجاتی ہے اور پھر وہ کتابوں کے
اندر ہی نہیں رہتیں، بلکہ انسانی آبادیوں کے اندر چلتی پھرتی نظر آنے لگتی
ہیں"۔انسان کی گفتگو خود اُس شخصیت کی عکاس ہوتی ہے۔جب کوئی بات زبان سے
باہر نکلتی ہے تو سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں اس جانب ٹھہر جاتی
ہیں جہاں سے وہ آواز آرہی ہوتی ہے۔بس چند لمحات گزرتے ہیں کہ یہ کان،آنکھ
اور دماغ یکجا ہوکر فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ اب یا تو یہ بات اپنے مثبت اثرات
کے ساتھ قلب میں جاگزیں ہوجاتی ہے یا پھر منفی اثرات کے ساتھ قلب سے
دور،بہت دور پھینک دی جاتی ہے۔جہاں نہ صرف وہ الفاظ بے معنی ہو کر رہ جاتے
ہیں بلکہ وہ شخصیت بھی اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے۔قرآن حکیم کہتا ہے
:وَاَنّھُم یَقُولُونَ مَالَا یَفعَلُونَ (الشعرائ:۶۲۲)۔"اور کہتے وہ ہیں
جو کرتے نہیں"۔یہ وہی بات ہے جو ہم یہاں کر رہے ہیں کہ جب شخصیت جانی
پہچانی ہواور اس سے سابقہ بھی پیش آچکا ہو ایسی حالت میں اس کی زبان سے
نکلی بات یا تو منفی یا پھر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔اس لیے لازم ہو جاتا
ہے کہ زبان سے وہی بات ادا کی جائے جو انسان خود اپنے لیے،اپنے گھر والوں
کے لیے،اپنے متعلقین کے لیے پسند کرتا ہو۔آئیے اب ہم جاننے کی کوشش کریں کہ
تحریر و تقریر کے معنی کیا ہیں اور ان کو ادا کرتے وقت کن خوبیوں سے مزیّن
ہونا چاہیے۔
بات کہو جب دل سننے کے لیے آمادہ ہوں:حضرت علی ؓ نے فرمایا: "دلوں کی کچھ
خواہشات اور میلانات ہوتے ہیں، کسی وقت وہ بات سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں
اور کسی وقت اس کے لیے تیار نہیں ہوتے، تم لوگوں کے دلوں میں میلان کے وقت
داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب کہ سننے کے لیے آمادہ ہو کیونکہ دل کا
معاملہ ایسا ہے کہ جب اسے کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو
جاتا ہے (بات کو قبول کرنے سے انکار کر بیٹھتا ہے)"(کتاب الخراج ابو یوسف)۔
معلوم ہوا کہ ہر بات ہر وقت لوگوں کے سامنے نہ پیش کی جائے بلکہ پیش کرنے
سے پہلے موقع و محل دیکھ لیا جائے۔ اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ جس
مجلس میں ہم اپنی بات پیش کر رہے ہیں وہ کس نوعیت کی ہے۔فائدہ یہ ہوگا کہ
جب ہم مجلس کا خیال رکھتے ہوئے اپنی بات کہیں گے تو کیونکہ پہلے سے ہی اُس
طرح کی بات لوگ سننے کے لیے آمادہ ہوں گے لہذا وہ بات اثر انداز ہو جائے
گی۔اس کے برخلاف جو لوگ موضوع سے ہٹ کر بات لوگوں کے دماغوں میں ٹھونسنے کی
ناکام کوشش کرتے ہیں تو کیونکہ لوگوں کے دل اس جانب مائل نہیں ہوتے لہذا
بہت شاندار انداز میں کی گئی بات بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ نہ صرف ضائع ہوتی ہے
بلکہ لوگوں کا وقت بھی برباد ہوتا ہے اور سوائے وقت بربادی کے کچھ ان
کوحاصل نہیں ہوتا۔
حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بازار سے گزر رہے تھے، لوگوں نے آپ کو دونوں طرف سے گھیر رکھا تھا ، آپ کا
گزر ایک چھوٹے کان والے مردہ بکری کے بچہ سے ہوا، آپ قریب گئے اور اس کے
کان پکڑ کر فرمایا:"تم میں سے کون اس مردہ بچہ کو ایک درہم میں خریدنا پسند
کرے گا؟"۔صحابہ نے عرض کیا"ہم کسی قیمت پر اس کو خریدنا نہیں چاہتے، یہ
ہمارے کس کام آئے گا۔ آپ نے پوچھا! کیا تم پسند کروگے کہ یہ مفت میں تمہیں
مل جائے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اگر زندہ ہوتا تب بھی کان
چھوٹے ہونے کا عیب اس میں تھا ہی، جب کہ ابھی تو یہ مردہ ہے، اس لیے اس کو
لینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا "۔یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم! یہ بچہ تمہاری نظر میں جتنا بے وقعت ہے،
دنیا اللہ کی نظر میں اس سے کہیں زیادہ بے وقعت ہے"(صحیح مسلم)۔ یہ ہے وہ
انداز اور موقع و محل کہ جس کے ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
صحابہ کرام کے دلوں میں دنیا کی حیثیت واضح کردی۔یہاں دو باتیں قابل لحاظ
ہیں۔۱) والدین،اساتذہ،اور وہ لوگ جولوگوں کی تربیت کے لیے مقرر ہوں یا جن
پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہو کہ وہ لوگوں کی تربیت کریں، انھیں اگر کوئی
اچھی بات ذہن نشیں کرانے کے لیے ذرا سا بھی موقع ملے تو اس سے بھر پور
فائدہ اٹھائیں۔۲) بات جو ذہن نشیں کرائیں وہ اس انداز میں کہ لوگوں کا قلب
و ذہن اس کی طرف پوری طرح یکسو ہو جائے۔
کلام میں محبت و دل سوزی: انداز بیان ہمیشہ شیریں رکھنا چاہیے، یہ وہ کلید
ہے جس سے سخت ترین لوگوں کے دل بھی پگھل جاتے ہیں۔ انداز بیان شیریں ہونے
کے ساتھ ساتھ جس سے بات کی جائے اس سے انسان محبت بھی رکھتا ہو اور اس کا
اظہار اُس پر کھل کر کرنا چاہیے ، صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی
۔اگر یہ دو باتیں انسان کی ذات میں موجود ہوں تو زبان سے نکلی ہوئی بات
مخاطب کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے گی۔ بات اس انداز سے بیان کی جائے کہ
اس میں حد درجہ مشفقانہ اور خیر خواہانہ جذبات جھلکتا ہو۔یہ وہ انداز ہوگا
کہ جس سے مخاطب مجال سرتابی نہیں کر سکتا اور جو بات بھی ادا کی جائے گی اس
کو نہایت خوش دلی سے عملی جامہ پہنانے کو تیار ہو جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ
مخاطب کا عملی اظہار آپ کی بات کے اولین دن سے ہی نہ ہو ۔لیکن یہ ممکن نہیں
کہ ہم صبر کے دامن کوبھی نہ چھوڑیں، اپنی بات کو بھی جاری رکھیں اور پھر
بھی ہمیں نتائج نہ حاصل ہوں۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان قریش کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"قافلے کا دید بان کبھی بھی اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا، اللہ کی قسم!
اگر میں (بفرض محال) تمام لوگوں سے غلط بات کہنے پر آمادہ ہو بھی جاتا تب
بھی تم سے غلط بات نہ کہتا۔ اگر (بفرض محال) تمام لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی
کرتا، تب بھی تمہارے ساتھ دھوکہ نہیں کرتا۔اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی
معبود برحق نہیں ، میں تمام لوگوں کی جانب اور خاص طور پر تمہاری جانب اللہ
کا رسول ہوں۔ جس طرح تم سو جاتے ہو پھر نیند سے بیدار ہوتے ہو ، اللہ کی
قسم ویسے ہی تم کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے، تم سے تمہارے
کاموں کا حساب لیا جائے گا، تمہں بھلائی کا بدلہ بھلائی سے اور برائی کا
بدلہ برائی سے ضرور دیا جائے گا اور یہ بدلہ یا تو ہمیشہ کی جنت کی شکل میں
ہوگا یا ہمیشہ کی جہنم کی صورت میں"۔معلوم ہوتا ہے کہ مربی اعظم جو بات بھی
ادا کر رہے ہیں اس کے اندر بے انتہا محبت اور دل سوزی موجود ہے۔اور آپ کی
بات نہ صرف قولی بلکہ عملی طور پر بھی اس کا کھلا ثبوت پیش کرتی ہے، جبکہ
آپ لوگوں کی مدد کرتے ، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے، مصائب میں ان کی دل
جوئی کرتے، ہمیشہ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے، اظہار ِ محبت کے لیے
مصافحہ اور معانقہ کرتے، یہ وہی اعمال تھے کہ جس کے نتیجہ میں لوگ آپ کے
گرویدہ ہو جاتے، اپنے ماں باپ سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ، آپ کے ہر حکم پر
اپنی جان دینے کے لیے تیار رہتے۔ایک بار ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم سے ملاقات کے لیے آیا۔آپ نے دیکھاکہ اس کی ہتھیلیوں پر نشانات پڑے
ہوئے ہیں، آپ نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا: یا رسول اللہ میں ایک مزدور
آدمی ہوں، کسب حلال کے لیے مجھے پتھر توڑنا پڑتا ہے، اس سخت محنت کی وجہ سے
یہ نشانات پڑ گئے ہیں، جب آپ نے یہ بات سنی تو فرط محبت میں اس کے ہاتھ چوم
لیے۔ غور فرمائیے کیا اس شخص کا دل نہ بھر آیا ہوگا، اس کا حوصلہ بلند نہ
ہوا ہوگا نتیجہ یہ کہ آپ سے محبت میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہوگا۔یہ ہے وہ
سوز محبت جو لوگوں کے دلوں کو پگھلانے والا ہے۔ لوگوں میں عیوب تلاش کرنا
اور پھر انکا نازیبا انداز سے تذکرہ کرتے پھرنا یہ وہ نقائص ہیں جن سے لوگ
آپ سے دور بھاگیں گے۔ہمیں ہر حال میں لوگوں سے قربت قائم کرنا ہے نہ کہ ان
سے دوری۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: "بہترین عالم وہ ہے جو
لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا اور نہ اللہ کی نافرمانی کے لیے
رخصت دیتا ہے، اور نہ اللہ کے عذاب سے انہیں بے خوف بناتا ہے"۔
تدریج: جس طرح زندگی کے مختلف مراحل میں تدریج لازمی ہے ۔ اور جس طرح ایک
انسان کی زندگی خود اس کی واضح اور زندہ مثال ہے کہ بچپن کے بعد جوانی اور
جوانی کے بعد بڑھاپا ایک تدریجی عمل ہے اسی طرح زندگی کے ہر کا م میں تدریج
لازمی جزہے۔چاہے وہ تربیت کے تعلق سے ہو، علم کے حوالے سے ہو، ذمہ دارانہ
زندگی کے تعلق سے ہویا پھر عقائد و نظریات اور عبادات کے ارتقائی مراحل سے
ہو۔ لہذا قول و عمل اور تحریر و تقریر میں بھی ان باتوں کا خیال رکھنا
انتہائی ضروری ہے۔اب یہ تحریر و تقریر میں کس طرح تدریجی عمل جاری رہے گا،
یہ اُن لوگوں سے متعلق ہے جو یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنی بات کن لوگوں کے
سامنے پیش کر رہے ہیں۔وہ جس عملی میدان تک بھی بڑھ چکے ہوں اس سے آگے کی
بات ان کے سامنے بیان کی جانی چاہیے۔لیکن یہ کام تقریر میں تو ممکن ہے لیکن
تحریرمیں دشوار ، کیونکہ نہیں معلوم کہ کب کس طرح کا شخص اس تحریر کو پڑھنے
بیٹھ جائے۔ وہاں پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تحریر کی ترتیب اس انداز کی
ہونی چاہیے کہ بات با تدریج آسانی کے ساتھ واضح ہوتی چلی جائے اور یہی
تحریر کا تدریجی اظہار ہوگا۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: "قرآن پاک میں پہلے پہل صرف وہ سورتیں نازل ہوئیں
جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کے سائے میں آگئے
تو حلال و حرام کی آیتیں نازل ہوئیں۔ اگر پہلے ہی مرحلہ میں وہ آیات نازل
ہو جاتیں جن میں شراب اور زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے تو شاید لوگ پکار
اٹھتے: ہم شراب اور زنا کو کبھی نہیں چھوڑیں گے"(بخاری)۔ ایک مرتبہ عمر بن
عبدالعزیز نے اپنے بیٹے کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: "بیٹے ! جلدی نہ
کرو، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شراب کی مذمت میں دو بار آیتیں نازل کیں، پھر
تیسری بار آیات نازل کر کے شراب کو حرام قرار دیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر
میں تدریج کو نظر انداز کر کے یکبارگی لوگوں کو پورے طور پر حق پر آمادہ
کرنے کی کوشش کروں تو کہیں لوگ اسے چھوڑ نہ دیں، تو یہ فتنہ پہلے سے بھی
بڑا فتنہ ہوگا"(الموافقات)۔ایک اورواقعہ کا تذکرہ کرکے ہم اپنی اس بات کو
مکمل کریں گے۔ حضرت معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت اللہ کے رسول نے
فرمایا:"اے معاذ! تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہے، تم
پہلے انہیں توحید اور رسالت کی دعوت دینا۔ جب وہ یہ بات مان لیں کہ اللہ
ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں تو پھر انہیں یہ بتانا
کہ اللہ نے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ اس بات کو بھی تسلیم
کر لیں تو پھر انہیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاةٰ فرض کی ہے جو ان کے
مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراءمیں تقسیم کر دی جائے گی"(متفق
علیہ)۔ زندگی کے مختلف محاظ پر تدریج کو ملحوظ رکھنا چاہیے،فائدہ یہ ہوگا
کہ ہماری بات میں اثر پیدا ہوگا اور ہمارے اور دیگر لوگوں کے کردار میں
تبدیلی آئے گی۔اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو یہ نہ ہمارے لیے ممکنہے کہ ہم
زندگی کے ہر محاظ پر لوگوں کے لیے نمونہ پیش کر سکیں اور نہ ہی لوگوں کے
لیے یہ ممکن ہوگا کہ ایک ہی وقت میں اپنی زندگیوں کو سنوار لیں۔ اس کے
برخلاف طرز عمل اختیار کرنے سے نقصان یہ ہوگا کہ لوگ ہم پر اور ہم لوگوں پر
طعنے کسیں گے ، اوروہ ہم سے دور اور ہم ان سے دور ہوتے جائیں گے!
چند توجہ طلب پہلو:
۱۔ قرآنی اسلوب: کہا کہ: "تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی
مثال اس پاکیزہ درخت سے دی ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور چوٹی نہایت بلند آسمان
پر پہنچی ہوئی ہے۔ وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل لاتا ہے۔ اللہ لوگوں کے
لیے تمثیلات بتلاتا ہے تاکہ وہ سمجھیں اور نصیحت حاصل
کریں"(ابراہیم:۵۲)۔اپنی بات پیش کرتے وقت مختلف مثالوں اور تشبیہوں کا
استعمال کیا جانا چاہیے۔یہی طریقہ اللہ تعالیٰ خود قرآن حکیم میں اختیار
کرتا ہے اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی لوگوں کو اپنی بات
سمجھانے کے لیے آسان مثالیں اور تشبیہیں استعمال کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس بات
کا لحاظ رکھنا چاہیے ،کیونکہ یہ طریقہ آسان اور عام فہم ہے۔اور اس طرح بات
جلد ذہن نشیں ہو جاتی ہے۔
۲۔ جھو ٹ سے گریز: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں،کہ رسول اللہ
نے ارشاد فرمایا"آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اس
کو بیان کرتاپھرے"(مسلم)۔معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جو ہم نے سنی اور پڑھی اس
کو بغیر علمی تحقیق کے نہ بیان کر دیا جائے۔اگر اس بات کا خیال نہ رکھا گیا
تو آدمی جھوٹوں میں شمار ہوگا،اس کی شخصیت مجروح ہوگی ، اور اس کے زبان و
قلم کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔لہذا بات پیش کرتے وقت جھوٹ سے لازماً گریز
کیا جانا چاہیے۔
۳۔ قول و عمل میں یکسانیت: قول و عمل میں یکسانیت ایک لازمی جز ہے۔اس کے
بغیر بات میں تاثیر پیدا ہوہی نہیں ہو سکتی ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ متوجہ
کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ: "اے لوگوجو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے
ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ
بات جو کرتے نہیں" (صف:۲-۳)۔یہاں یہ بات صاف کردی گئی کہ جو بات بھی ادا کی
جائے اس پر خود عمل کیا جائے اور اگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا تو نہ صرف وہ
بات بلکہ وہ شخص بھی مجروح ہوتا ہے۔اللہ کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ دنیا اور
آخرت میں ناکام و نامراد ہوتا ہے۔اسی طرف توجہ دلاتے اور ڈراتے ہوئے
فرمایاگیا کہ: "تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو،
مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل
سے بالکل ہی کام نہیں لیتے"(البقرہ:۴۴)۔
۴۔ نقطہ نظر: آج بھی اور آج سے قبل بھی دنیا میں بہت سارے نقطہ نظر نہ صرف
موجود تھے بلکہ موجود ہیں ۔ہم اگر ان ہی کے ارد گرد گھومتے رہے اور اگر
اپنا کوئی واضح نقطہ نظر نہیں رکھتے تو پھر ہمارا بات کرنا اور نہ کرنا
برابر ہے۔کیونکہ ہم وہی کچھ کر رہے ہوں گے جو دوسرے لوگ کرتے آئے ہیں ، اس
لیے ہم اور ہماری بات میں نہ کوئی وزن ہوگا اور نہ کوئی متاثر کرنے والی
بات۔ضروری ہوا کہ ہم جو بات بھی کہیں ا ور پیش کریں اس میں ہمارا بحیثیت
مسلمان ،اسلام کا نقطہ ¿ نظر واضح ہونا چاہیے۔کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ قوموں
کے عروج و زوال کی بساط اسی وقت پلٹی جاتی ہے جب کہ وہ اخلاقی پستی میں
مبتلا ہو جاتے ہیں۔یہ عروج و زوال کی کہانی نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے،نہ
سائنس و ٹیکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا
انحصار ہے۔یہ انسان کے اخلاقی کسب اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں
عروج و زوال کی طرف جاتی ہیں۔لہذا ہماری تحریر و تقریر میں وہ عامیانہ رویہ
نہ اختیار کیا جائے اور اس سے بچنے کی ہر ممکن سعی و جہد کی جائے، تب ہی
ہماری بات اور دوسروں کی بات میں فرق ہوگا، اور اس فرق کا نتیجہ ہوگا کہ
دیر یا سویر لوگ ہماری بات پر غور کریں گے، اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے
اور ہم سے اور ہماری باتوں سے فیض یاب ہوں گے۔
۵۔تنقید: جب آپ اسلام کا نقطہ نظر پیش کریں گے تو یہ ممکن ہے کہ دیگرافکار
و نظریات اور فلسفیانہ تحریر و تقریر پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے تنقید
کریں۔یہ آپ کا اختیار بھی ہے اوراس تعلق سے آپ کو قانونی اور اخلاقی حقوق
بھی حاصل ہیں۔ لیکن اس کے باوجودتنقید کا لہجہ اور زبان دونوں ایسے ہونے
چاہئیں جن سے ہر سننے والے کو محسوس ہو کہ آپ فل واقع اصلاح چاہتے
ہیں۔تنقید کے لیے زبان کھولنے سے پہلے یہ اطمینان بھی کر لیجئے کہ آپ کے
اعتراض کی کوئی بنیاد واقعہ میں موجود ہے؟بلا تحقیق کسی کے خلاف کچھ کہنا
ایک گناہ ہے جس سے فساد رونما ہوتا ہے۔ساتھ ہی اس فرمان پر بھی اپنی توجہ
مرکوز رکھنی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: وَلَا
یَجرِ مَنَّکُم شَنَآ نُ قَومٍ عَلَی اَلَّا تَعدِلُوا اعدِلُوا
ہُوَاَقرَبُ لِلتَّقوَی وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ ا للہَ
خَبِیربِمَاتَعمَلُونَ۔ "اورلوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے
کہ انصاف چھوڑ دو۔انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور خدا سے
ڈرتے رہو۔کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے"(المائدہ:۸)۔یہ
وہ واضح تعلیمات ہیں جن حدود کا ایک مسلمان کو لازماً پاس و لحاظ رکھنا
چاہیے، الفاظ کی ادائیگی میں بھی اور معاملات کے لین دین میں بھی۔
۶۔ یقین ِ کامل: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ
شبہات کے نزول کے وقت تیز نگاہ کو اور شہوات کے ہجوم کے وقت عقلِ کامل کو
محبوب رکھتا ہے"۔جو بات کہی جائے اس میں تردد، تذبذب، حیرت اور درماندگی کی
کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تواس سے انتشار، بے اعتمادی کا فقدان
ہوگا۔کیونکہ کہنے والا اگر خود ہی تذبذب کا شکار ہوگا تو اس کو سننے اور
پڑھنے والا کس طرح اس پر یقین کر سکے گا۔ اور ایسی بات کہنے کا کیا فائدہ
جس پر نہ کہنے والے کو یقین ہو اور نہ سننے والا ہی اس سے فیض یاب ہو سکے۔
۷۔ جہد ِ مسلسل: انسان اس دنیا میں سعی جہد کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
اس کی نجات اس ہی حالت میں ہے کہ وہ اس کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کر لے جہاں
سے وہ کبھی نکالا گیا تھا۔ یعنی جنت کے حصول کے لیے لگاتار ، مسلسل ، بغیر
رکے اور ٹھہرے کوشش کرتا چلا جائے۔یہاں ہماری بات تحریر و تقریر کے سلسلے
میں ہو رہی ہے اور اس میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے تعلق سے ہے تو اس میں
لازم ہے کہ ہم اپنے علم، اپنی سمجھ، اپنے فہم میں اضافہ و اصلاح کرتے چلے
جائیں نیز اسی طرح کی دیگر خصوصیات کے حصول کوبھی مسلسل جاری رکھیں۔ اس
سلسلے میں کبھی بھی اور کسی بھی لمحہ اس شیطانی وسوسہ کا شکار نہ ہوں کہ اب
ہم کافی کچھ جانتے ہیںیااب ہم ان میدانوں میں کامل ہو گئے ہیں۔جوکچھ ہمیں
بننا تھا وہ بن چکے،مزید کمال مطلوب ایسا نہیں رہا جو ہمیں حاصل کرنا ہو۔آپ
نہ فرداً فرداً اور نہ من حیث الجماعت، کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اگر پاس و لحاظ رکھا جائے تو ہماری
گفتگو اور ہماری تحریر وں میں جان پیدا ہو جائے گی۔اور اگر ہم نے ان باتوں
کا اپنے قول و عمل سے مظاہرہ نہ کیا تو نہ صرف ہماری بات بلکہ ہم بھی بے
وزن ثابت ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمارے کردار کو داغ دار ہونے سے بچائے اور
ہمیں اُس فتنہ عظیم سے بچا لے کہ جس میں بد اعمال لوگ مبتلاہوتے ہیں۔کیونکہ
یہ حقیقت ہے کہ آج نہ صرف عام آدمی بلکہ تحریک ِ اسلامی کے شعلہ بیان
مقریرن نے بھی تربیت کے تنفیذی طریقہائے کار کو چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے
اکثر اسلامی نظریات اور فلسفے ،علم اور نظریہ کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتے
ہیں اور بات علم و ثقافت اور اطلاعات سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ہم نہیں کہتے کہ
سب ایک ہی رَو میں بہہ رہے ہیں لیکن نتیجہ کے اعتبار سے یہی محسوس ہوتا ہے
کہ ہم داعیانِ دین کی فہرست میں بیشتر ایسے شعلہ بیان مقررین اور زور دار
خطیبوں کو دیکھ سکتے ہیں جو عوام سے کہیں زیادہ زندگی اور دولت ِ دنیا کے
خواہش مند ہوتے ہیں۔شاید ایسے ہی لوگوں کو یہ الفاظ اپنی جانب متوجہ کرتے
ہیں!
اِذَا عِبتَ مِنھُم اُمُورًا اَنتَ تَاتِیھَا
اَصبَحتَ تَنصَحُھُم بِالوَعظِ مجتھدًا
وَالمُوبِعَاتُ لَعمری اَنتَ جانِیھَا
تَعِیبُ دُنیَا وَنَاسًا رغِبِینَ لَھَا
وَاَنتَ اَکثَرُ النَّاسِ رَغبَةً فِیھَا
(اے واعظِ شعلہ بیاں! تو لوگوں کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے حالانکہ ان امور کا
ارتکاب کرکے تونے خود اپنا دامن رنگین کر لیا ہے!تو انہیں وعظ و نصیحت کے
جام پلاتا ہے حالانکہ بخدا تو خود اس جُرم کا ارتکاب کر رہا ہے!جو عوام کو
بُرا بھلاکہہ رہا ہے کہ وہ دنیا کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں اور تیرا حال
یہ ہے کہ عوام سے زیادہ دنیا سے دل چسپی تو رکھتا ہے!)
ہم دیکھتے ہیں کہ مخلص ترین افراد اور جاں باز کار کن بھی جب متاعِ دنیا کی
طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں تو ذلیل اور پست ہو کر رہتے ہیں۔ بہت سے وہ لوگ بھی
ہیں جو دعوت کے آفاق میں گم ہو گئے اور قیادت کے مرحلے تک پہنچ گئے پھر
دنیوی مال و منال اور اس کی فتنہ سامانیوں سے شکست کھا کر چِت گر پڑے اور
آخرت پر متاعِ حیات کو ترجیح دے دی۔ کہا کہ: فَاَنَا مَن طَغٰی۔وَ ٰا
ثَرَالحَیٰوةَ الدُّنیَا۔ فَاِنَّ الجَحِیمَ ھِیَ المَاوٰی وَاَمَّاَ مَن
خَافَ مَقَامَ رَبّہ وَنَھَی النَّفسَ عَنِ الھَوٰی۔ فَاِنَّ الجَنَّةَ
ھِیَ المَاوٰے۔ "پس جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، دوزخ ہی
اس کا ٹھکانہ ہوگی، اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور
نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا، جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی"(نازغات:
۷۳-۱۴)۔لہذا ہمیں ہر حالت میں ان خرابیوں اور ناکامیوں کے رستہ سے گریز
کرنا چاہیے اور قول و عمل کے تضاد سے بچنا چاہیے۔اس بات کو ہمیشہ تازہ
رکھنا چاہیے کہ ہم جو بات کہہ رہیں یا لکھ رہے ہیں وہ بہت اہم ہے اور ان
باتوں کا تعلق ایک بہت بڑے نصب العین سے وابستہ ہے ۔لہذا اس کام کے حصول کے
لیے ہمیں اللہ کی مدد و نصرت بھی درکا رہوگی۔اس لیے ضروری ہےکہ ہم اللہ ربِ
رحیم سے دعا کرتے رہیں اور ان الفاظ کو اپنی زبان پر جاری رکھیں : رَبّ
ِاشرَح لِی صَدرِی۔وَیَسّرِلِی اَمرِی۔وَاحلُل عُقدَةً مِن
لسَانِی۔یَفقَہُواقَولِی "پروردگار(اس کام کے لیے) میرا سینہ کھول دے، اور
میرا کام آسان کردے، اور میری زبان کی گہرہ کھول دے، تاکہ وہ بات سمجھ
لیں"(طٰہ:۵۲-۷۲)۔ نیز قرآن حکیم کی اس تنبیہ سے بھی ڈرتے رہیں ، جس میں
فرمایا گیا : یَومَ تَشہَدُ عَلَیھِم اَلسِنَتُھُم وَاَیدِ یھِم
وَاَرجُلُھُم بِمَا کَانُو یَعمَلُونَ ۔ "(قیامت کے دن) جس دن ان کی زبانیں
ہاتھ اور پاﺅں سب ان کے کاموں کی گواہی دیں گے"(النُّور:۴۲)۔ یہ وہ وقت
ہوگا کہ قول و عمل میں یکسانیت اور قول و عمل کا تضاد دونوں چیزیں کھل کر
سامنے آجائیں گی۔ لہذا اُس دن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔قبل اس سے کہ زبان
سے کوئی لفظ ادا ہو یا قلم میں جنبش پیدا ہو جائے !! |