زَن مُریدی کو مَرحَبا کہیے

جو لوگ شادی کی تقریب میں بیگمات کو سُکون سے بتیانے کا موقع فراہم کرنے کی خاطر بچوں کو سنبھالے رہتے ہیں اُنہیں کسی کی طعن و تشنیع سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو شاپنگ کے دوران، سامان سے لدے پھندے، بیگم کے نقوش قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں وہ بھی دل برداشتہ نہ ہوں۔ اگر وہ اِس کام کو اپنے لیے تذلیل کا سامان سمجھتے ہیں تو جان لیں کہ بڑے بڑوں کو یہ تذلیل جھیلنا پڑتی ہے! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اہل خانہ اور بالخصوص اہلیہ کو رام کرنے کی خاطر حرام و حلال ذرائع سے دولت حاصل کرنا پڑی ہے تو کبیدہ خاطر نہ ہو کہ یہ ”سعادت“ تو اُن کے حصے میں بھی آئی ہے جو خود کو بہت با اختیار اور با اُصول گردانتے رہے ہیں! اگر کسی کے ذہن میں یہ شبہ ہے کہ گھر کے تمام اہم فیصلوں میں گھر والی کی مرضی شامل کرنے سے مردانہ عزت اور توقیر میں کچھ فرق پڑتا ہے تو ہرگز دل چھوٹا نہ کرے کہ جنہیں پوری ریاست اور مملکت کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں وہ بھی گھر والی کی رائے کو نظر انداز کرنے کا سوچ نہیں سکتے! اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ گھر اور دل پر راج کرنے والی کی بات مان کر اُس نے چند غلط فیصلے کئے ہیں اور مُنہ کی کھائی ہے تو یہ سُن پر ریکارڈ درست کرلے کہ کئی بڑے ڈکٹیٹرز کو اُن کی بیگمات نے اِس قدر ڈکٹیٹ کیا ہے کہ چند غلط فیصلے پوری قوم کو لے ڈوبے!

عام آدمی سے سربراہان مملکت و حکومت میں کہنے کو تو زمین آسمان کا فرق ہے مگر ایک معاملے میں وہ ایک ہیں۔ ایک گھاٹ ایسا بھی ہے جہاں سے دونوں جی بھر کے پیاس بُجھاتے ہیں۔ اور وہ گھاٹ ہے زَن مُریدی کا! یہ زہر وہ ہے جسے امیر غریب، شاہ و گدا سبھی ہنس ہنس کر پیتے آئے ہیں اور پی رہے ہیں۔ میر تقی میر کی روح سے معذرت کے ساتھ۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
”زُلفِ بیگم“ کے سب اسیر ہوئے!

ابراہیم جلیس مرحوم نے ”اوپر شیروانی، اندر پریشانی“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ بیشتر آمروں کا بھی کچھ یہی حال دکھائی دیتا ہے۔ دُنیا کے سامنے وہ طُرّم خان بنے پھرتے ہیں، بات بات پر غُرّاتے ہیں اور کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ مگر گھر میں بیگمات کا سِکّہ چلتا ہے (اِسی لیے تو وہ گھر والی کہلاتی ہیں!) اور ہر ڈکٹیٹر بھیگی بلّی کی طرح، بلکہ تگڑی بلّی کے سامنے چوہے کی طرح ساری باتیں مانتا چلا جاتا ہے! مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ ڈکٹیٹرز مگر مچھ کی طرح ہوتے ہیں۔ یعنی اوپر سے جتنے سخت، نیچے سے اُتنے ہی نرم اور آسانی سے شکار ہو جانے والے!

سِلور اسکرین پر راج کرنے والے خاں صاحب یعنی دلیپ کمار ہوں یا محض ایک شاٹ کی حد تک نمودار ہونے والے ایکسٹرا، امریکی صدر ہوں یا کسی سرکاری دفتر کے سب سے نچلے گریڈ کے ملازمین، گھر والی کی سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!

مُسلم دنیا کے ڈکٹیٹرز کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ریاستی و حکومتی امور سے گھریلو معاملات تک بیگمات کا دَم بھرتے آئے ہیں اور بیگمات کے مشوروں پر عمل کرنے ہی سے اُن میں سے بیشتر کی لُٹیا بھی ڈوبی ہے! یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ ڈکٹیٹرز شادی شدہ ہوتے ہیں۔ قوم تو مطالبات کرتے کرتے تھک جاتی ہیں مگر ڈکٹیٹرز جانے کا نام نہیں لیتے۔ بیگمات کی فرمائشوں، نخروں اور مشوروں کو اللہ سلامت رکھے کہ اِن کے ہاتھوں ہی ڈکٹیٹرز کا بھی بیڑا غرق ہوتا ہے! اگر وہ شادی ہی نہ کریں تو کِس کے مشوروں پر عمل کرکے اپنے آپ کو بُرے انجام دے دوچار کریں اور عوام کو سُکون کا سانس لینے کے چند مواقع میسر ہوں!

تیونس کے معزول صدر زین العابدین بن علی نے اپنی اہلیہ لیلیٰ کے سامنے ہمیشہ سگِ لیلیٰ کا کردار ادا کیا بلکہ اُس سے بھی ایک قدم آگے جاکر قوم کے وسائل پر دانت گاڑتے رہے۔ لیلیٰ طرابلسی کو دولت کی ہوس تھی۔ جب عوام جاگے تو لیلیٰ طرابلسی کئی سیکڑوں کلو گرام سونا اور بہت سی دوسری قیمتی اشیاءلیکر بھاگ نکلی اور اب سعودی سرزمین پر سُکون سے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اِس لیلیٰ کی دِل جُوئی کرتے کرتے زین العابدین بن علی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیلیٰ فائدے میں رہی اور سگِ لیلیٰ یعنی زین العابدین بن علی کتے کی مانند گھر کے رہے نہ گھاٹ کے!

مرزا کا استدلال ہے کہ کم عمر اور حسین بیوی اِنسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ اگر ایسی بیوی بادشاہ کی ہو تو اُسے بے وطن یعنی جلا وطن کرکے دم لیتی ہے اور اگر غریب کی ہو تو بے چارے کو دُنیا ہی سے چلتا کردیتی ہے!

شام میں اگر ظلم کی شام ڈھل نہیں رہی اور خوش حالی کے سُورج کو طلوع ہونے کا موقع نہیں مل رہا تو اِس کی ایک بڑی وجہ بشارالاسد کی جواں سال بیوی اسماءبھی ہے جو لندن میں بیٹھ کر شوہر کو اب بھی ڈکٹیٹ کر رہی ہے۔ ذرا حد ملاحظہ فرمائیے۔ فرانس کے صدر سرکوزی کہتے ہیں کہ جب تک اسماءہے، شام میں عیسائیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں!

بشار کے والد حافظ الاسد بھی جورو کے غلام تھے۔ 1980 کے عشرے کے اوائل میں اُنہوں نے درعا شہر میں سُنّیوں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن اپنی جواں سال ملکہ عالیہ انیسہ مخلوف کی فرمائش پر کیا تھا۔

مصر کے سابق ڈکٹیٹر حُسنی مبارک نے اپنے نام میں پائے جانے والے حُسن پر اکتفا نہ کیا اور شریکِ حیات سوزان کے کہے پر عمل کرکے اپنے دل کو دل سوزاں کی منزل تک پنہچاکر ہی نِچلے بیٹھے!

ایران کے رضا شاہ پہلوی کو اپنی جوان و حسین ملکہ فرح دیبا کے احکام پر عمل میں فرحت محسوس ہوتی تھی۔ فرح دیبا نے رضا شاہ پہلوی کو کسی پہلو چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ وہ بھی ملک کی ڈی فیکٹو حکمران تھیں اور اُن کے مشوروں اور احکام پر عمل کرنے سے بے چارے رضا شاہ پہلوی کا یہ انجام ہوا کہ مصر میں جلا وطنی کے دوران وہ ایک کَچّے مکان میں ایڑیاں رگڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔

اُردن کی کہانی یہ ہے کہ شاہ حسین بظاہر کینسر سے مَرے مگر اُن کا دِماغ بہت پہلے زَن مُریدی کے کینسر میں مبتلا ہوچکا تھا! نُور کی شکل میں انتہائی حسین مغربی ملکہ پاکر شاہ حسین نے سوچ لیا کہ اب ذہن استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں! ملکہ نُور کی ”پُرنور“ سوچ نے شاہ حسین کے ذہن میں اندھیروں کا ایسا محل کھڑا کیا کہ موصوف نے اپنے بھائی طلال کی ولی عہدی ختم کرکے ملکہ نُور کے بطن سے پیدا ہونے والے عبداللہ کو ولی عہد مقرر کیا اور سُکون سے ہمیشہ کے لیے موت کے اندھیرے کو گلے لگالیا!

بیشتر ڈکٹیٹرز اپنے وطن اور اہل وطن پر جس قدر حکم چلاتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ حکم اور جادو تو خود اُن پر اُن کی بیگمات کا چلتا ہے اور پھر یہ چکر اِس قدر چلتا ہے کہ اِن ڈکٹیٹرز کے دِماغ چل جاتے ہیں!

مشرق وسطیٰ کے ڈکٹیٹرز کو بیگمات کے نشے میں چُور اور مخمور رہنے کا طعنہ کیا دیجیے کہ ہمارے پرویز مشرف بھی پَکّے ”صہبائی“ ثابت ہوئے! گھر میں ”صہبا“ کے ہوتے ہوئے اُن پر بھلا کیوں ”صہبا پرستی“ کا الزام نہ آتا! جب پرویز مشرف میڈیا سے گفتگو یا قوم سے خطاب کے دوران اپنے مخصوص لہجے میں ”کِسی سے ڈرتا نہیں ہوں“ کہتے تھے تو اِس جملے سے صرف اپنی بیگم کو استثنٰی دیا کرتے تھے! یا یوں کہیے کہ استثنٰی دینے کی زحمت نہیں اُٹھانا پڑتی تھی، وہ تو طے شدہ تھا!

1936 سے 1951 تک مصر پر حکومت کرنے والے شاہ فاروق کا کیس البتہ منفرد استثنٰی کا درجہ رکھتا ہے۔ موصوف بھی اپنی ملکہ فریدہ نریمان کے مُرید تھے۔ گھر اور مملکت کے بیشتر اُمور میں حکم بیگم صاحبہ کا چلتا تھا۔ یہ معاملہ اِس حد تک بڑھا کہ ایک دِن شاہ فاروق نے گھبراکر فریدہ کو طلاق دے دی!

زَِن مُریدی کے تذکرے کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں بلکہ اِس راہ میں آگے مزید ایک آدھ سخت مقام ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524848 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More