نارتھ کراچی کے پاور ہاؤس چورنگی
بس اسٹاپ پر سید شاہد حسن سے کئی برس بعد ملاقات ہوئی تو دِل کی کلی کِھل
گئی۔ شاہد حسن لِکھنے میں بھی کسی سے کم نہیں اور ”بتیانے“ کا ہنر بھی خوب
جانتے ہیں۔ اور جب وہ بولنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو مقام کی کوئی قید نہیں۔
بس اسٹاپ کا چَھجّہ بھی ٹاک شو کے سیٹ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے! ویسے
بولنا بھی لکھنے جیسا ہی عمل ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض مہربان منہ کو قلم
سمجھ کر شروع ہو جاتے ہیں اور خاصی دیر کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج کل
فُل اسٹاپ سے اُن کے مُنہ کی ”کُٹیّ“ ہے!
شاہد حسن معاشرے کے ”باغیوں“ میں سے ہیں یعنی پڑھنے کے بھی شوقین ہیں! یہ
بھی غنیمت ہے، ورنہ ہمارے ہاں بیشتر لِکھاری وہ ہیں جنہوں نے کبھی پڑھنے کی
زحمت گوارا نہیں کی! یہ کام اُنہوں نے اپنے قارئین کے مُقدر کی جھولی میں
ڈال رکھا ہے! خان کوچ میں سوار ہوئے تو گفتگو کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ موصوف
کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو صرف پڑھتے نہیں، بلکہ کتابیں بھی سنبھال
کر رکھتے ہیں تاکہ سَند رہے! کتاب خوانی کا شغف رکھنے والوں کی یہ عمومی
روش ہے کہ مطالعے کے بارے میں بتاتے وقت اپنے گھر میں موجود کتابوں کی
تعداد بھی بتانا نہیں بھولتے۔ اِس میں خود نُمائی کی کوئی بات نہیں، مقصود
صرف یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ فریق ثانی یہ نہ سمجھے کہ کتابوں کے بغیر ہی
مطالعہ کرلیا! شاہد حسن نے بتایا کہ اُن کے گھر میں اب خیر سے سات ہزار سے
زائد کتابیں ہیں۔ یہ تعداد سُن کر ہم اُن کے مزید معتقد اور (اُس سے بھی
ایک قدم آگے جاکر مزید) مرعوب ہوگئے!
ہمیں بھی ایک زمانے سے مطالعے کا شوق ہے اور آئے دن (یعنی سال میں تین چار
مرتبہ) کتابیں خریدتے رہتے ہیں۔ ہمارے شوق کی انتہا یہ تھی کہ جب بھی کوئی
کتاب پسند آ جاتی تھی تو مستعار لیکر پڑھ ڈالتے تھے اور سادگی کی انتہا
دیکھیے کہ کتاب واپس کرنا اکثر بھول جاتے تھے! کتاب واپس نہ کرنا بھی دراصل
خود کو احمق ثابت نہ کرنے کے لیے تھا۔ کسی کا یہ قول اتفاق سے ہم نے بھی
سُن رکھا ہے کہ کتاب مستعار دینے والا بے وقوف اور مستعار لی ہوئی کتاب
واپس کرنے والا اُس سے بڑا بے وقوف ہوتا ہے! سچ تو یہ ہے کہ اِس قول سے
واقفیت اور بے وقوف ثابت ہونے سے بچنے کی کوشش نے ہمارے مطالعے کو وسیع
کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے!
جب سے کمپیوٹر کا استعمال عام ہوا ہے اور ہم نے بھی سوفٹ کاپیز کی مدد سے
مطالعہ شروع کیا ہے، کچھ تو شیلف کی تسلّی اور اُس سے کہیں زیادہ لوگوں کی
تشفّی کے لیے کبھی کبھار کتابیں خریدنا پڑتی ہیں! تین عشروں کے دوران ہم نے
”کتاب دوست“ ہونے کا جو ثبوت متعدد مواقع پر فراہم کیا ہے یعنی پرانی
کتابوں کے ٹھیلوں کی جو سیر کی ہے اُس کے نتیجے میں گھر بھر میں کتابیں ہی
کتابیں دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہمارے گھر میں آٹھ دس ہزار
کتابیں تو ہوں گی۔ ایک دن ہم بھی شاہد حسن کی جَون میں آگئے یعنی اپنے
جُثّے سے ہم آہنگ جوش و خروش کے ساتھ ہم نے کتابوں کو شمار کیا۔ شیلف کے
علاوہ میز کے نچلے حصے میں پڑے ہوئے علم کے موتیوں پر بھی ہماری نظر گئی
اور یہ جان کر دل کو انجانی سی مسرت ہوئی کہ اِن پر فرنگیوں کی نظر نہیں
پڑی ورنہ آج اِنہیں یورپ میں دیکھ کر ہمارا دل بھی علامہ اقبال کے دل کی
طرح سی پارہ ہو جاتا! خوب اطمینان سے، ٹھہر ٹھہر کر گنتی کی تو شرم سے زمین
میں گڑ جانے کو جی چاہا۔ کُل مِلاکر 370 کتابیں نکلیں! اور اِن میں بھی بیس
پچیس تو نصابی یا درسی تھیں یعنی جی چاہے تو اُنہیں کتب کہیے، نہ چاہے تو
نہ کہیے! اہلیہ نے ہمیں دیکھا تو ”چہرہ اُترائی“ کا سبب پوچھا۔ ہم نے بتایا
کہ لاکھ کوشش کے باوجود ہماری کتابیں فور فگر میں داخل نہ ہوسکیں! اُنہوں
نے یہ کہتے ہوئے ڈھارس بندھائی ”دل چھوٹا مت کیجیے۔ کتابیں نہ سہی، آپ خود
تو ’فور فگر‘ میں داخل ہوچکے ہیں!“
خیر صاحب! پھر آمدم بر کتاب۔ کتابوں کی تعداد اِتنی کم تھی کہ ہم نے ”خوفِ
فسادِ خلق“ سے اِس کے بارے میں عزیز ترین دوستوں کو بھی بتانے سے گریز کیا!
کتابیں بہرحال قابل احترام ہوتی ہیں ورنہ ہم کہتے کہ کھودا پہاڑ اور نکلا
چوہا! ہم پتہ نہیں کیا کیا پڑھ چُکنے کا گمان کربیٹھے تھے۔ گھر میں موجود
کتابوں کی تعداد معلوم ہوئی تو اپنا ”کتابی“ سا مُنہ لیکر رہ گئے!
اِنسان جو کام کرتا ہے ویسا ہی ہوتا جاتا ہے۔ جو لوگ مختلف تنظیموں اور
اداروں کے پریس ریلیز اخبارات کے دفاتر تک پہنچانے آتے ہیں وہ دور ہی سے
پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ”کسرتِ ترسیل“ سے وہ پریس ریلیز جیسے دکھائی دینے
لگتے ہیں! ہم نے سوچا تھا کتابیں پڑھتے پڑھتے شاید ہمارا چہرہ بھی کتاب سا
یعنی کتابی ہوگیا ہوگا۔ ایک دن اِس ” علمی موضوع“ پر بحث چھڑی تو ہمارے ایک
دوست نے کہا ”آپ کا چہرہ بھی خیر سے کتابی ہے مگر یہ کسی متنازع کتاب سے
زیادہ متاثر دِکھائی دیتا ہے!“ اب اگر ایسے کسی موضوع پر بات چل نکلے تو ہم
پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں!
کراچی ما شاءاللہ خاصی ترقی کرچکا ہے مگر چند مقامات ”پس ماندہ“ یعنی پیچھے
رہ گئے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والے یہ چند مقامات وہ ہیں جہاں کتب بین اور کتب
فروش جمع ہوتے ہیں! اِس گئے گزرے دور میں علم سے محبت کرنے والوں کا ایک
اچھا ٹھکانہ صدر میں پرانی کتابوں کا اتوار بازار بھی ہے۔ ہفتہ بھر خالص
کاروبار کرنے والی گلی میں اتوار کی صبح سے علم کا بازار سجتا ہے۔ ”تحقیقی
بھیڑیوں“ کے جبڑوں سے کچھ بچ رہے تو ہم بھی خرید لیتے ہیں! سارا اچھا مال
صبح کی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ہوا ہو جاتا ہے۔ شام کو اتوار بازار کا چکر
لگائیے تو محسوس ہوتا ہے۔
اِستخواں پیش سَگاں انداختیم!
وادی اُردو ڈاٹ کام والے بھائی راشد اشرف، سِٹی بُک پوائنٹ کے روح رواں آصف
حسن، برادرم مجید رحمانی، عزیزم یوسفِ ثانی اور جہانگیر سید ایسے چند احباب
صدر کے اتوار بازار کو زندگی کا حِصّہ بنا بیٹھے ہیں۔ اتوار کا سُورج طلوع
ہوتے ہی یہ احباب گھر سے صدر جانے کے لیے اُسی طرح نکلتے ہیں جس طرح کمان
سے تیر جان چھڑاتا ہے! اِن میں بھی بھائی راشد اشرف کی باقاعدگی تو ایسی ہے
جیسے وہ ہفتے کی شام غروب ہونے والے سُورج کو ہدایت کرتے ہوں کہ اب جب ہم
کتابوں کے درمیان ہوں تب طلوع ہونا!
کسی زمانے میں ہم بھی صدر میں اتوار بازار کا باقاعدگی سے چکر لگایا کرتے
تھے۔ ہماری باقاعدگی بھی ایسی تھی کہ لوگوں کو پورا یقین ہوتا تھا کہ اتوار
کو ہم صدر کی فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے پہلو میں ملیں گے۔ یہ ہفتہ وار
معمول اِس قدر غیر لچکدار تھا کہ قرض خواہ وصولی کے لیے وہاں پہنچنے لگے!
صورت حال کی نزاکت نے ہمیں ناغے کا سسٹم متعارف کرانے پر مجبور کردیا!
پرانی کتابوں کا اتوار بازار کتب بینی کا شوق رکھنے والوں کا مقبول ترین
”ڈیٹنگ اسپاٹ“ بھی ہے! اِس میں باقاعدگی سے آنے والے مطالعے کے بارے میں کم
ہی گفتگو کرتے ہیں۔ ملاقات کا بڑا حصہ مطالعہ نہ کرنے والوں کے ماتم میں
تلف ہو جاتا ہے! اِس بازار کی ساری رونق علم دوست اور کتاب خواں شخصیات کے
مَرنے پر موقوف ہے۔ جب فٹ پاتھ اور ٹھیلوں پر پُرانی کتابوں کا نیا اسٹاک
دکھائی دیتا ہے تو ”کتاب جُو“ نظریں سمجھ جاتی ہیں کہ کوئی علم دوست مَرا
ہے اور اہل خانہ نے کتابی کباڑیوں کو بلاکر اِس ”خزانے“ سے جان چھڑائی ہے!
ایک زمانہ تھا جب کِسی علم دوست کے مرنے پر پس ماندگان اُس کی کتابوں کو
تین چار سال تو سنبھال کر رکھتے تھے۔ اب کتابوں سے اِتنیِ تیزی سے جان
چُھڑائی جاتی ہے جیسے کتابیں نہ ہوں، خُدا ناخواستہ، کچرے کا ڈھیر ہوں!
علم کے خزانے سے عجلت میں جان چھڑانے کی روش کتاب اور اہل کتاب سے الرجی کا
نتیجہ ہے۔ کبھی کبھی یہ الرجی کتاب سے محبت کرنے والوں کے لیے نعمت بھی
ثابت ہوتی ہے۔ 1987 میں ہم اٹاری کے ذریعے بھارت گئے۔ اُس زمانے میں
پاکستان والے کسٹمز کی کارروائی لاہور ریلوے اسٹیشن پر کیا کرتے تھے۔ واپسی
پر لاہور میں کسٹم افسر نے پوچھا بڑے صندوق میں کیا ہے۔ ہم نے کہا بھائی!
کچھ بھی نہیں، ہم صندوق کھولیں گے تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ وہ ہمیں کھیپیا
سمجھ کر مُک مُکا کرنے کے موڈ میں تھا۔ مگر جب ہم نے کچھ دینے پر رضامند
ہونے کے بجائے صندوق کھولا تو اوپر سے نیچے تک کتابیں دیکھ کر کسٹم افسر نے
ناک بھوں چڑھائی اور فوراً کلیئر کرتے ہوئے صندوق تیزی سے ہٹانے کا حکم
دیا۔ اُسے یہ ڈر تھا کہ کوئی کھیپیا ہاتھ سے نہ نکل جائے!
مغرب میں ایک مشہور ادیبہ کے پاس ہزاروں کتابیں تھیں۔ ایک بار سردی زیادہ
تھی۔ کھڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ معمر ادیبہ نے ہوا روکنے کے لیے کھڑی کے کھانچے
میں کتابوں کا ڈھیر لگادیا۔ شومئی قسمت کہ ہوا کے ایک تیز جھونکے سے کتابیں
ادیبہ پر گریں اور وہ بے چاری اُن کتابوں میں دب کر چل بسیں! شاہد حسن نے
یہ واقعہ اپنی بیٹیوں کو سُنایا تو اُنہوں نے شوخی سے جواب دیا ”بابا! کہیں
آپ کا بھی یہی انجام نہ ہو!“
شاہد حسن کو اندازہ ہونا چاہیے کہ سات ہزار سے زائد کتابیں اُوپر آن گریں
تو بندہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔ مگر زمانے کی روش دیکھتے ہوئے یہ نُکتہ
معترضہ ہم واضح کردیں کہ اِس بار کتابیں گِریں گی نہیں، گِرائی جائیں گی! |