کراچی کے ادبی مجلے مکالمہ کے
شمارہ نمبر 19 (مارچ 2012) میں جناب ظفر اقبال کا مضمون ”میر کے تاج محل کا
ملبہ“ شائع ہوا ہے۔ مکالمہ کا یہ شمارہ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس میں
شائع ہوا الزامات سے بھرپور یہ مضمون سخن فہم حضرات کے لیے بحث و تنقید کے
نئے راستے کھولے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بغور مطالعے کے بعد سخن فہم،
سخن اور فہم دونوں ہی سے ہاتھ دھوتے نظر آرہے ہیں۔ ظفر اقبال نے زیر تذکرہ
مضمون میں یگانہ کے بعد اب میر تقی میر کو نشانہ بنایا ہے ۔ اس سے قبل
یگانہ پر ان کا مضمون ’ میرزا یاس یگانہ۔ایک معمولی شاعر‘ شائع ہو کر ہر
خاص و عام سے ’ غیر مقبولیت‘ کی سند پا چکا ہے۔ میر پر اپنے اس مضمون میں
وہ صرف ایک بات کہنا چاہتے تھے اور وہ یہ کہ خدائے سخن کے کلام میں ہر شعر
دخور اعتنا نہیں ہے، یہ بات وہ مدیر کے نام اپنے یک سطری مکتوب میں بھی کہہ
سکتے تھے، لیکن اتنی سی بات کہنے کے لیے الزامات کے جو تانے بانے انہوں نے
بنے، اس کی زد میں خود ان کا آنا بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔
بزبان ِخامہ بگوش، اتنی تیزی سے تو کسی کو رسوائی بھی نہیں ملتی جتنی تیزی
سے ظفر اقبال کو شہرت ملی ۔ ان کے مجموعہ کلام ’آب رواں ‘ کا دوسرا ایڈیشن
شائع ہوا ، جس میں آب تو بقدِر اشک ِبلبل تھا ، رہی روانی سو اس مجموعہ
کلام کو پڑھنے کے بعد اس کا قاری بحق شاعر رواں تو ہوا لیکن کسی بھی قسم کے
کلمہ خیر کے بغیر۔ انتظار حسین تو اس قدر جز بز ہوئے کہ تنگ آکر حال ہی میں
ایک سالم کالم لکھ دیا۔انتظار حسین لکھتے ہیں: ” آب رواں پر شمس الرحمن
فاروقی نے ایک پرمغر دیباچہ باندھا ہے۔ فاروقی صاحب کا قلم اس وقت اور ہی
شان سے رواں ہوتا ہے جب ظفر اقبال کی شاعری زیر بحث ہو۔فاروقی صاحب صحیح
کہتے ہیں کہ عام حالات میں تو آب رواں کے مصنف کو زندگی بھر ان اشعار کی
کمائی کھانا چاہیے تھی۔“
پروفیسر فاروقی کے بیان سے یہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ظفر اقبال کی اپنے
اشعار کے ذریعے حاصل کی گئی کمائی اب ختم ہوگئی ہے۔ اس بات کی تصدیق انتظار
حسین نے بھی کی ہے، مزید لکھتے ہیں: ” تو پھر کیا ہوا، ظفر اقبال نے ایک
لمبی چھلانگ لگائی اور گلافتاب کی اوبڑ کھابڑ کھاڑی میں جااترے اور ایسے
شعر لکھنے لگے:
لہو لہلوٹ سیاہی پھیلویں پھب
کڈھب کاغذ طلب تحریر نے کی
کوؤں کے شور مچانے سے کوئی مر تو نہیں جاتا۔تو کرتے رہیں یار اغیار ظفر
اقبال کی کڈھب غزل پر تھو تھو، اس نے ایک معتبر نقاد سے سند لی اور اجتہاد
کا شرف حاصل کرلیا۔ ارے ہم (انتظار حسین)تو اردو کی سخت جانی کی دلیل یہیں
سے لاتے ہیں کہ یہ زبان ظفر اقبال کے تشدد کو مسلسل سہہ رہی ہے اور زندہ
اور پائندہ چلی آرہی ہے۔“
ظفر اقبال ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کے بارے میں نقاد اب لکھتے
لکھتے تھک چکے ہیں بلکہ کئی ایک تو یہ دنیا ہی چھوڑ چکے ہیں مثال کے طور پر
خامہ بگوش جنہوں نے ایک سے زائد کالمز میں ہمارے ممدوح پر قلم اٹھایا تھا۔
اپنے ایک کالم میں خامہ بگوش لکھتے ہیں: ”انیس ناگی ایک نہایت عمدہ ادبی
رسالے دانش ور سے بھی وابستہ ہیں۔ اس رسالے کی پیشانی پر ایک لیبل چسپاں
ہوتا ہے جس پر یہ الفاظ درج ہیں: ’ نئے ادب کا ترجمان‘ ۔ لیکن جو ادب اس
میں چھپتا ہے وہ نئے پن سے آگے کی چیز ہے۔ مثلا اس کے تازہ شمارے میں ظفر
اقبال کی نئی غزلیں شامل ہیں، ایک غزل کے یہ دو شعر ہم نے بطور نمونہ استاد
لاغرمراد آبادی کو سنائے:
جو آن کے ہمسائے ہمارے میں ر ہیں گا
تحقیق کہ خود ہی خسارے میں رہیں گا
اس گھر کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ شوخ
ایک بار رہیں گا تو دوبارے میں رہیں گا
استاد گرامی نے یہ شعر سن کر فی البدیہہ فرمایا:
ناگی نے جو چھاپیں ظفر اقبا ل کی غزلاں
جو ان کو پڑھیں گا وہ خسارے میں رہیں گا
’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں ظفر اقبال نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’ میر کے
ہاں کڈھب اور ناملائم الفاظ کا استعمال زیادہ ہے جس سے سلاست اور روانی بھی
مجروح ہوتی ہے تاہم جہاں میر سلیس زبان استعمال کرتے ہیں، وہاں سب سے آگے
نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔‘
میر کے بہتر نشتر ہیں اور ان تمام نشتروں کا جواب ظفر اقبال نے مذکورہ بالا
فرمان کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے، حیرت کی بات یہ ہے یہ فرمان جاری کرتے
وقت وہ اپنے کلام کو شاید سرے سے فراموش کربیٹھے جو ’کڈھب اور سلیس ‘ دونوں
کی ایک نرالی مثال ہے، یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
رنگت ہی بدل گئی بدن کی
جب سانپ نے پہلی بار ڈسا
ڈھیلے ہیں پڑے ہوئے میاں تو
بیگم کا ابھی وہی ہے ٹھسا
پانی اتنا ملا کے اس نے
لسی کا کردیا ہے لسا
ظفر اقبال نے اپنے مضمون میں خدائے سخن میر تقی میر کے تاج محل کے ملبے کی
جانب قارئین کی توجہ دلانے کی کوشش تو کی ہے لیکن خود ان کی شاعری کے ملبے
کا تاج محل کھڑا کرنے والے اپنے محسن پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کو بھی
نہیں بخشا۔ فرماتے ہیں۔ ” شمس الرحمان فاروقی قابل مواخذہ اس لیے ہیں کہ
انہوں نے جدیدیت کا جھنڈا سب سے اونچا اٹھا رکھا ہے اور خود غزل لکھتے بھی
ہیں لیکن وہ انصاف اور ایمانداری سے بتائیں کہ کہ جدید غزل میں ان کا کنٹری
بیوشن اور مقام کیا ہے ؟ “
یہ معاملہ دو بڑے لوگوں کے درمیان ہے لہذا اس میں دخل دینا ہمارے لیے مناسب
نہیں لیکن جب ہم نے یہ استاد لاغر مراد آبادی کے گوش گزار کیا تو انہوں نے
فرمایا کہ ” یہ عزیز یہ بات کیوں بھول جاتا ہے کہ شمس الرحمان فاروقی کے
بلند کیے ہوئے جدیدیت کے جھنڈے پر تو یہ خود کئی برس سے براجمان ہے۔ ‘
اپنے مضمون میں ظفر اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ ’ ایک مرتبہ میں نے شمس
الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون میں لکھا تھا کہ جو شخص جدید غزل کی تنقید
لکھتا ہے ، اگر اس کی اپنی غزل جدید نہیں ہے تو اسے جدید غزل پر تنقید
لکھنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا، جس پر اسی شمارے میں انہوں (فاروقی) نے ترنت
جواب دیا کہ ظفر اقبال جتنے اچھے شاعر ہیں ،اتنے ہی برے نقاد بھی ہیں۔ عرض
کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں (انتظار حسین،حسن عسکری، شمس الرحمن
فاروقی) اور ایسے سب حضرات باہر کے لوگ ہیں، انہیں غزل جیسی اندر کی چیز پر
ہاتھ صاف کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔“
یہاں پھرہمیں مجبورا استاد لاغر مراد آبادی کو زحمت دینی پڑی ، خامہ بگوش
کی رحلت کے بعد وہ عملی طور پر گوشہ نشین ہی ہو گئے ہیں لیکن گاہے گاہے ان
سے ایسے معاملات میں ہم تبصرے کی درخواست کرتے رہتے ہیں ۔استاد نے یہ بیان
سن کر تبسم فرمایا اور کہا کہ ’غزل جیسی اندر کی چیز پر تو تمہارے شاعر نے
ایسا ہاتھ صاف کیا ہے کہ خود اسی کے الفاظ میں، لسی کا لسا کردیا ہے، بھئی
وہ میرا یار خامہ بگوش ،ظفر اقبال کو پیار سے ’علامہ ظفر اقبال ‘ (علامہ
اقبال اور ظفر اقبال کا مرکب) یونہی تو نہیں کہتا تھا۔‘ ‘
یہاں ہم نے خامہ بگوش کا ایک اور تبصرہ استاد کے گوش گزار کیا کہ ” یہ تو
سب کو معلوم ہے کہ شمس الرحمن فاروقی جس شاعر کی تعریف کردیں اس کی دنیا تو
کیا عاقبت بھی سنور جاتی ہے یعنی وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
فاروقی نے شعرشور انگیز کے نام سے کلام میر کی جو شرح لکھی ہے ، اس میں جگہ
جگہ ظفر اقبال کے شعر ، میر کے شعروں کے بالمقابل پیش کیے گئے ہیں ، اگر یہ
شرح میر کی زندگی میں لکھی جاتی تو یہ ان کی زندگی کا دوسرا صدمہ ہوتا ۔
پہلا صدمہ دلی کا اجڑنا تھا جسے وہ برداشت کرگئے مگر دوسرا صدمہ آخری صدمہ
بن جاتا۔ “
ظفر اقبال نے اپنے مضمون ’میر کے تاج محل کا ملبہ ‘ میں چومکھی لڑی ہے۔ بات
میر تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن انہوں نے ساتھ ہی ساتھ پروفیسر شمس الرحمان
فاروقی، پروفیسر محمد حسن عسکری، انتظار حسین ، حتی کہ خواجہ میر درد کو
بھی لپیٹے میں لے لیا۔
زیر تبصرہ مضمون یوں تو اس قابل ہے کہ تمام کا تمام ہی یہاں نقل کردیا جائے
لیکن مضمون اور صاحب مضمون، دونوں کی طوالت کے خوف سے ایسا کرنا مناسب نظر
نہیں آرہا، لہذا مضمون سے چند اچھوتے فرمودات یہاں نقل کیے جار ہے ہیں:
۔ میر کے براہ راست متاثرین میں فراق گورکھپوری اور ناصر کاظمی کا نام لیا
جاتا ہے، ان میں احمد مشتاق بھی شامل تھے لیکن وہ اس جال سے بہت جلد اپنے
آپ کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔
۔میر کے دور کی شاعری اب زیادہ تر محققین ہی کے کام آنے والی چیز ہوکر رہ
گئی ہے۔
۔ہر شاعر کی طرح بھرتی کے اشعار غالب کے ہاں بھی فراوانی سے دستیاب ہیں۔
۔عسکری سمیت یہ حضرات مناسباتِ لفظی اور دیگر انسلاکات کے اہتمام کو نہ صرف
شاعری سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ دوسروں کو اسے منوانے پر بھی مصر ہیں۔
۔میر صاحب نے رونے کے مضمون کو اس تکرار اور کثرت کے ساتھ باندھا ہے کہ اس
سے جی ہی اوبھ گیا ہے حتی کہ اس قبیل کے اشعار دیکھ کر رونے دھونے میں شامل
ہونے کے بجائے ہنسی آتی ہے۔
۔اب وقت آگیا ہے کہ میر کا کلام جس جھاڑ جھنکار سے بھرا پڑا ہے، اسے اس سے
صاف کرلیا جائے۔
۔میر کو کبھی خدائے سخن کہا گیا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ خدائے سخن
ہی رہیں۔اس وقت سخن کا جو عالم تھا ، وہ اس کے خدا ہوبھی سکتے تھے لیکن اب
سخن کی صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، حتی کہ اب میر کے بہتر نشتروں میں
بھی کئی اشعار باقاعدہ مزاحیہ لگتے ہیں۔
۔خدائے سخن ہونا تو درکنار، آج کے دور میں میر فرشتے کے منصب کو بھی پہنچتے
نظر نہیں آتے۔
۔میں یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محمد حسن عسکری ہوں یا انتظار حسین ،ان
کاغزل کے ساتھ کیا تعلق ہے جو وہ اس کے بارے میں اتنی اتھارٹی کے ساتھ بات
کرتے ہیں، یہ ا تھارٹی انہوں نے کہاں سے حاصل کی ہے؟
۔ جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے ۔رومال دو دو دن تک جوں ابرِ تر
رہے ہے۔۔۔۔میر کے اس شعر کی تعریف میں عسکری صاحب آپے سے باہر ہورہے ہیں،
یہ ایک تھڑد کلاس شعر ہے۔
۔میر کا شعر ہے:
جو اس شور سے میر روتا رہے گا۔تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
روتا کون نہیں ہے لیکن رونے کی بھی ایک تہذیب ہے۔ایک نمونہ (ظفر اقبال کا
اپنا) ملاحظہ ہو:
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفر
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوں میں
۔۔۔۔
جناب ظفر اقبال کے ان فرمودات پر مزید تبصرہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
البتہ اسے بہتر طور سے سمجھنے کے لیے جہاں جہاں میر تقی میر کا نام آیا ہے،
وہاں وہاں مضمون نگار (میر کے تاج محل کا ملبہ)کا اپنا نام رکھ کر اِسے
پڑھنے سے صورت حال خاصی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ رہا سوال حسن عسکری اور
انتظار حسین کے اتھارٹی حاصل کرنے کا تو اس سلسلے میں یہی عرض ہے کہ دونوں
حضرات نے یہ اتھارٹی وہیں سے حاصل کی ہے جہاں سے پروفیسر فاروقی نے ظفر
اقبال کی شاعری کو بطور سند پیش کرنے کے سلسلے میں اسے حاصل کیا تھا۔ جناب
ظفر اقبال نے میر کے کلام میں موجود جھاڑ جھنکار کو صاف کرنے کا مطالبہ بھی
کیا ہے۔ یہاں میر کے طرفدار جناب ظفر اقبال کی شاعری کے جھاڑ جھنکار میں
موجود کلام کو صاف کرنے کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسی کسی بھی کوشش
کے نتیجے میں یہ کوشش کرنے والا ’ ہمارا تن بدن ہی جھاڑ ہو جھنکار ہو جیسے
‘ کی تفسیر بن سکتا ہے۔
اپنی شاعری میں جھاڑ جھنکا ر کو صاف کرنے کی بات سے یہاں ہمیں جناب ظفر
اقبال کے اس انٹرویو کے مندرجات یاد آرہے ہیں جسے انہوں نے بی بی سی کے
انور سن رائے کو دیا تھا۔مذکورہ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ” میں تو
اپنی شاعری کو خود مسترد کرتا ہوں اور کسی بھی وقت اسے منسوخ بھی کرسکتا
ہوں، ساری کی ساری کو۔“
ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ نیک کام بھی کر ہی لیا جائے۔
انٹرویو میں ایسی مزے دار باتیں ہیں کہ جو بجائے خود ایک علاحدہ مضمون کے
لکھے جانے کی متقاضی ہیں۔ ایک جگہ کہتے ہیں ” میری شاعری میں جو عاجزی ہے،
جو انکسار ہے، مثلا میں نے کبھی تعلی کا شعر نہیں کہا، کبھی دعوی نہیں کیا
کہ میں نے یہ کیا ہے، میں نے یہ کہا ہے۔ابرار احمد کہا کرتے ہیں کہ یہ میری
چالاکی ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چالاکی ہے تو کرکے دکھاؤ۔ایرج مبارک
کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی ہر غزل میں کم از کم تین شعر اپنے خلاف کہے ہوئے
ہیں۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چالاکی ہے تو کرکے دکھائیں، لکھیں ایک
دو شعر اپنی غزل میں۔ ایک اور بات سے اس کا شبہ مجھے ہوتا ہے کہ شمس
الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں لیکن وہ
دونوں بیک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ظفر اقبال ہی اس وقت اردو دنیا کا،
برصغیر کا سب سے بڑا غزل گو شاعر ہے۔“
اللہ بخشے حفیظ ہوشیارپوری زندہ ہوتے تو اس چالاکی کے مضمون سے تاریخ نکال
لیتے لیکن کیا کیجیے کہ چالاکی سے تاریخ تو نکالی جاسکتی ہے لیکن چالاکی سے
شاعری نہیں کی جاسکتی ۔
جناب ظفر اقبال کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے
دو لوگ زندگی میں کسی ایک بات پر متفق ہوجائیں تو گمان ہے کہ ان کے خون کی
پیاس بجھ چکی ہے اور اب وہ کسی تیسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ واللہ
اعلم بالصواب! یہاں ہمیں جناب ظفر اقبال ہی کا ایک شعر یاد آرہا ہے:
مقبولِ عام ہو گیا ہوں۔۔۔ یعنی کہ تمام ہو گیا ہوں
انٹرویو میں ایک جگہ جناب ظفر اقبال نے ’ ان گھڑ مقلدین‘ کی ترکیب استعمال
کی جس پر انور سن رائے نے استفہامیہ لہجے میں اسے دوہرایا ۔ ظفر اقبال نے
مصاحبہ گو کی ادب نا شناسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا ’ ’ان گھڑ
، یعنی جو ابھی تیار نہیں ہوتے اور ظفر اقبال کی نقل شروع کر دیتے ہیں اور
مار کھا جاتے ہیں۔“ ۔
ایک موقع پر تو جناب ظفر اقبال نے انو ر سن رائے کو یہ کہہ کر بدحواس کردیا
کہ ” جہاں تک میرے لب و لہجے کا سوال ہے تو میں اسے تبدیل کرتا رہتا ہوں۔
میں تو کہیں ٹک کر بیٹھتا ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا کام زیادہ تر
ایکڈیمک ہے۔ میری شاعری مشاعرے کی شاعری نہیں ہے۔ نہ یوں ہے کہ میں مقبولیت
حاصل کرنے کے لیے شعر کہتا ہوں۔ لوگ قاری کو راغب کرتے ہیں، میں قاری کو
اشتعال دلاتا ہوں باقاعدہ۔ بعض اوقات۔ ایک چیلنج کے طور پر کہ تیری ایسی کی
تیسی دیکھو یہ۔ “
میر تقی میر کے 72 نشتر مشہور ہیں ، خامہ بگوش نے مندرجہ ذیل 73 واں نشتر
میر ہی کے دیوان سے دریافت کیا تھا :
قیامت کو جرمانہ ّ شاعری پر
مرے سر سے میرا ہی دیوان مارا
ان حالات میں تو یہ 73 واں نشتر جناب ظفر اقبال کے لیے ہی تجویز کیا جاسکتا
ہے جو زیر تبصرہ مضمون ’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں ایک جگہ خود اپنے بارے
میں فرماتے ہیں:
میں پچپن سال سے اس کوچے (شاعری) میں جھک مار رہا ہوں۔ ‘
ہم جناب ظفر اقبال سے مودبانہ عرض کریں گے کہ اس قسم کے تبصروں سے گریز ہی
کیا کیجیے، مضمون میں قاری جہاں آپ کی تمام باتوں سے اختلاف کرے گا وہاں وہ
کسی ایک بات سے اتفاق بھی کرسکتا ہے۔“ |