حقوق العباد - عظمت والدین وحقوق والدین

حقوق کی دوقسم ہیں۔ 1۔ حقوق اللہ 2۔حقوق العباد
حقوق اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں ان حقوق کے بارے میں میرارب فرماتاہے فَیَغفِرُلمن یَّشائُ وَیُعذِّبُ من یَّشَائُ تو جسے چاہے گابخشے گاجسے چاہے گاعذاب دے گا۔
حقوق العبادسے مرادبندوں کے حقوق ہیں
اللہ پاک اپنے حقوق تواپنی رحمت سے بخش دیگا۔پربندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں ہونگے جب تک وہ بندہ خودمعاف نہ کرے گا۔
حقوق العبادمیں سب سے پہلاحق والدین کاہے ۔
دورِجاہلیت میں عورت کوحقارت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔عورت کی معاشرے میں کوئی قدروقیمت نہ تھی ۔ماﺅں کے ساتھ لونڈیوں جیساسلوک کیاجاتاتھا۔بیویاں کوستایاجاتاتھااورہرقسم کے تکلیف دی جاتی تھی اگرکسی کے گھرمیں بیٹاپیداہوتاتوخوشی کی انتہانہیں رہتی ۔اوراگراسی گھرمیں بیٹی پیداہوتی تواسکے گھرغم کاساماں پیداہوجاتاتھا۔لوگ اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور(زندہ دفنادینا)کردیتے تھے۔لیکن جس وقت میرے پیارے آقا ،رسولوں کے سردارنبی مختار ﷺاس دنیاپرتشریف لائے توآپ نے عورت کومعاشرے میں عزت کامقام دیا۔والدین کی خدمت اوربیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کاحکم دیا۔
اللہ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادفرماتاہے۔
"اورتمہارے رب نے حکم فرمایاک اس کے سواکسی کی کونہ پوجواورماں باپ کے ساتھ اچھاسلوک کرواگرتیرے سامنے ان میں ایک یادونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان سے اف تک نہ کہنااورانہیں نہ جھڑکنااوران سے تعظیم کی بات کہنااوران کے لئے عاجزی کابازوبچھانرم دلی سے اورعرض کراے میرے رب توان دونوں پررحم کرجیساکہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔پارہ نمبر15سورة بنی اسرائیل آیت نمبر 23,24
جس طرح اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ نیکی اوراحسان کرناہم پرفرض کیاہے اسی طرح انکے ساتھ سختی سے بات کرنے سے بھی منع فرمایاہے۔اوروالدین کی نافرمانی کوحرام قراردیاہے۔اس لئے اپنے والدین کومت جھڑکناکیونکہ انہوں نے تیرے لئے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں بلکہ اف تک نہ کہہ اگرتوان کوجھڑکے گاتوان کے دل کوتکلیف پہنچے گی جب انکے دل کوتکلیف پہنچی تواللہ تعالیٰ اس آدمی پرناراض ہوجاتا ہے اس لئے اللہ رب العزت نے حکم دیاہے کہ والدین کے ساتھ ادب احترام سے بات کراورانکے حق میں رحمت کے لئے دعاکرکیونکہ توانکے احسانات کابدلہ نہیں چکاسکتا۔پس تواللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کرکہ یااللہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالاپوسااورمیں انکااحسان نہیں چکاسکتااسکے بدلے توان پررحمت نازل فرما۔
نبی اکرم نورمجسم ﷺ نے ارشادفرمایا"جس بندے کے دونوں ماںباپ یاان میں سے ایک فوت ہوچکاہو۔اوروہ (آدمی) اپنے والدین کا نافرمان ہو۔وہ ان کےلئے دعاکرے اوران کے حق میں استغفارکرے تواللہ تعالیٰ اسکوفرمانبردار لکھدے گا۔ مشکوٰة شریف
ہمارے نبی علیہ الصلوٰة والسّلام کواللہ رب العزت نے مومنین کے لئے رﺅف اوررحیم بناکربھیجاہے۔توآقاعلیہ الصلوٰة والسّلام نے ہمارے لئے کتنی آسانیاں مہیاکردی ہیں ۔کہ کسی نہ کسی طریقہ سے میری امت دوزخ کی آگ سے بچ جائے۔اس حدیث سے آقاﷺ نے ہم پرمہربانی کی کہ جوشخص والدین کی زندگی میں خدمت نہیں کرسکاتواسکوچاہیے کہ والدین کی وفات کے بعدانکے حق میں دعااوراستغفارکرے تواسکو اللہ پاک فرمانبرداربندوں کی لسٹ میں لکھ دے گاخداکی قسم اگرآقاﷺیہ مہربانی نہ فرماتے توہم بربادہوجاتے کیونکہ والدین کانافرمان جنت میں داخل نہیں ہوسکتاداخل ہوناتوبعدکی بات ہے جنت کی بُوبھی نہیں سونگھ سکے گا۔
آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام نے ارشادفرمایا"کہ تین شخص ایسے ہیں جوجنت میں داخل نہیں ہونگے اورنہ ہی (جنت)کی بُوسونگھ سکیں گے۔حالانکہ اسکی خوشبو100سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے۔1۔والدین کانافرمان 2۔ بغیرت(جواپنے اہل میں زنادیکھے اورغیرت نہ کرے) 3۔وہ عورت جومردوں سے مشابہت رکھے
حضرت مسلمؓ سے روایت ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام نے ارشادفرمایا"خاک آلودہوناک اسکی ،خاک آلودہوناک اسکی،خاک آلودہوناک اسکی قیل یارسول اللہ عرض کیایارسول اللہ کسی کی !آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام نے فرمایاجسکے ماں باپ دونوں یاان میں سے ایک زندہ ہوں اوروہ (انکی خدمت کرکے)جنت میں داخل نہ ہو۔
کتنابراشخص ہے جووالدین کی خدمت بھی نہیں کرتابلکہ انکی دل آزاری کرتاہے ۔ایسے شخص کواللہ پاک کاعذاب گھیرلیتاہے۔
حضورنبی اکرم نورمجسم شفیع بنی آدم ﷺ نے ارشادفرمایا'تین شخص ایسے ہیں جن کی طرف اللہ رب العزت نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔اوران کے لئے دردناک عذاب ہوگاان میں سے پہلاشخص والدین کانافرمان ہے دوسراشخص ہمیشہ شراب پینے والاہے اورتیسراشخص نیکی کرکے جتلانے والا۔
یہ تینوں شخص اللہ پاک کی نگاہ رحمت سے محروم رہیں گے۔جب تک اپنے والدین کی نافرمانی کرنے اورشراب پینے سے توبہ نہیں کرتے ۔آجکل ہم کسی کے ساتھ نیکی کرتے ہیں توبارباراسکونیکی کوجتلاتے رہتے ہیں جوآدمی کسی کے ساتھ احسان کرتاہے اوراسکوجتلاتاہے تووہ بھی اللہ پاک کی نگاہ رحمت سے محروم رہتاہے۔ہمیں ایسے گناہوں سے بچناچاہیے اگرگناہوں سے نہیں بچیں گے تواللہ پاک کی ذات ہم پرناراض ہوجائیگی۔
آجکل تولوگ اپنی بیویوں کے اکسانے پروالدین سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں یہاں تک اپنے والدین کوزدوکوب کرنے کی حدتک پہنچ جاتے ہیں ایسے شخص لعنتی ہیں جواپنی بیویوں کووالدین پرترجیح دیتے ہیں۔اِن لوگوں کے لئے حضورنبی کریم ﷺ کافرمان مبارک ہے۔
"جوشخص اپنی ماں پراپنی عور ت کوترجیح دیتاہے اسپراللہ پاک اسکے فرشتے اورسب انسانوں کی لعنت ہوتی ہے"۔اللہ پاک اس سے محفوظ رکھے
آجکل توبیویوں کواسقدرترجیح دی جاتی ہے کہ والدین چھوٹ جائیں توخیرہے بیوی ناراض نہ ہو۔بیوی کی خفگی برداشت نہیں کرسکتے ۔ایسے انسان پراللہ پاک ناراض ہوجاتاہے اوراس پرلعنتیں پڑتی رہتی ہیں۔ایک دوروہ بھی تھاکہ والدین کے کہنے پرعورت کوطلاق دیناپڑتی کیونکہ والدین کی محبت کوعورت پرترجیح دی جاتی ۔
مشکوٰة شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے ۔کہ میری ایک بیوی تھی جسکے ساتھ میری سخت محبت تھی لیکن میرے والد حضرت عمرؓ اسکو ناپسندکرتے تھے۔ایک روزمجھے والدنے فرمایاکہ اپنی بیوی کوطلاق دے دولیکن جب میں نے ایسانہ کیاتومیرے والدحضرت عمرؓ نے حضورنبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی کہ میں نے عبداللہ ؓ سے کہاتھاکہ اپنی عورت کوطلاق دیدوتواس نے اسے طلاق نہیں دی اس پررسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایااے عبداللہ اپنی عورت کوطلاق دے دواپنے والدکاحکم مانواوراپنے والدکی محبت کواپنی عورت پرترجیح دو۔
آپ ﷺ کے صحابی حضرت علقمہ ؓ جونمازاورروزہ کے پابندتھے خیرات وصدقات میں بھی بہت آگے تھے ایک دفعہ وہ سخت بیمارہوئے یہاں تک کہ اسکی بیوی نے آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام کی بارگاہ اقدس میں پیغام بھیجاکہ آپکاصحابی حالت نزع میں ہے حضورعلیہ الصلوٰة والسّلام نے حضرت عمارؓحضرت بلال ؓاورحضرت صہیب ؓ کوعلقمہ ؓ کے پاس بھیجاکہ اسکوکلمہ کی تلقین کریں چنانچہ ان صحابہ کرام نے بہت کوشش کی لیکن کلمہ شریف پڑھنے کے لئے حضرت علقمہ ؓ کی زبان نہ کھلی ۔حضورعلیہ الصلوٰ ة والسّلام کواس بات کاپتاچلاتوآپﷺ نے پوچھاکہ اسکے والدین میں سے کوئی زندہ ہے صحابہ کرام علہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ اسکی بوڑھی والدہ زندہ ہے آپ ﷺ اسکی بوڑھی والدہ کے پاس پہنچے اورپوچھا اے مائی سچ بتاﺅتمہارابیٹاعلقمہ کیساتھابڑھیانے عرض کیامیرابیٹانمازگذارتھاروزے بھی رکھتاتھااورصدقہ خیرات بھی کثرت سے کیاکرتاتھا آپﷺ نے اس کی ماں سے پوچھاکیاتواس پرراضی ہے یاکہ ناراض اس صحابی کی بوڑھی والدہ بولی یارسول اللہ ﷺ میں اس سے راضی نہیں آپ ﷺ نے ناراضگی کی وجہ پوچھی توعرض کی کہ وہ میری بات نہیں مانتاتھااوراپنی بیوی کے کہنے پرچلتاتھااپنی بیوی کومجھ پرفضیلت دیتاتھاتو حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایاتیری اس ناراضگی کیوجہ سے اسکی زبان پرکلمہ جاری نہیں ہوتاہے ۔پھرآپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کوحکم دیاکہ لکڑیاں جمع کرواس کی والدہ نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ کیوں؟آپ ﷺ نے فرمایاتیرے بیٹے علقمہ ؓ کواس میں جلاﺅں گااس صحابی کی والدہ نے عرض کیاوہ تومیرابیٹاہے اورمیرادل یہ بات برداشت نہیں کریگا کہ میرے سامنے اسے جلایاجائے ۔آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام نے فرمایااللہ پاک کا عذاب تواس سے بھی سخت ترہے ۔خداکی قسم !علقمہ ؓ کونمازروزہ صدقہ خیرات فائدہ نہ دیگاجب تک تواسے معاف کرکے راضی نہ ہوجائیگی۔ اگرتوچاہتی ہے کہ خدااسکوبخش دے اوردوزخ کی آگ سے بچادے توتواسکومعاف کردے اورا س سے راضی ہوجا۔تواسکی والدہ نے عرض کیا یارسو ل اللہ ﷺ میں اس پرراضی ہوگئی پھرآپﷺ نے حضرت بلال ؓ کوعلقمہ ؓ کے پاس بھیجاحضرت بلال ؓ دروازے پرابھی پہنچے تواندرسے کلمہ پڑ ھنے کی آوازیں آرہی تھیں اورعلقمہؓ کلمہ پڑھتے ہوئے دنیاسے رخصت ہوگئے توآپ ﷺ نے علقمہ ؓ کی نمازجنازہ پڑھائی ان کی قبرپرکھڑے ہوکرفرمایا۔"اے مہاجراورانصارکے گروہ جوشخص اپنی ماں پراپنی عورت کوفضیلت دیگااس پراللہ تعالیٰ اوراسکے فرشتے اورسب انسان کی لعنت ہوئی"۔
میرے بھائیو! انسان جتنابھی عبادت گزارہواگراس پروالدین ناراض ہیں تواس کی سب عبادتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔اگرانسان خداکی بندگی بجالائے اوروالدین کی خدمت کرے تواس انسان کی دنیابھی بن جاتی ہے اورآخرت بھی۔حدیث مبارکہ میں آتاہے
آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام ارشادفرماتے ہیں "اللہ رب العزت تین آمیوں کے فرض اورنفل قبول نہیں کرتا۔
1۔جووالدین کانافرمان ہو. 2 ۔احسان جتلانے والاہو. 3۔تقدیرکاجھٹلانے والاہو
جو انسان والدین کادل دکھاتاہے اور ان کوتکلیف دیتاہے وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اپنی زندگی سکون سے گزاروں گابلکہ والدین کانافرمان دنیامیں بھی عذاب میں مبتلاہوجاتاہے اورطرح طرح کی مصیبتیں اسکوگھیرلیتی ہیں۔اس بارے میں مشکوٰة شریف میں حدیث مبارکہ موجودہے اسکامفہوم
"سب (ہرقسم کے)گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ جوچاہتاہے ،معاف فرمادیتاہے مگروالدین کے نافرمان کو نہیں بخشتااورایسے گناہ گارکواللہ تعالیٰ بہت جلدمرنے سے پہلے ہی دنیاکی زندگی میں اسکی سزادیتاہے.معاذاللہ اللہ پاک ایسے گناہ سے معاف فرمائے۔ہم دنیامیں والدین کو ستاتے ہیں و کوگالیاں دیتے ہیں اسکی سزاکے بارے میں ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔
شب معراج کی رات آقادوجہاں سرورکائنات ﷺ نے کچھ آدمیوں کوآگ کی ٹہنیوں سے لٹکے ہوئے دیکھااورجبرائیل امین علیہ السّلام سے پوچھایہ کون لوگ ہیں جبرائیل امینؑ نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ یہ وہ لوگ ہیں جواپنے ماں باپ کودنیامیں گالیاں دیتے تھے۔نزہة المجالس میں ایک ایسے شخص کے متعلق روایت ہے جس نے اپنی ماں کودکھ دیاماں نے اسکو بددعادی جس سے اس کی عبادتیں رائیگاں چلی گئیں ۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تورات کاعمدہ قاری تھااس شخص کی قرات سننے کے لئے بہت سے لوگ جمع ہوجاتے اس کی عادت شراب پینا تھی۔والدہ اسکوشراب پینے سے منع کرتی تھی۔چنانچہ ایک رات اس نے شراب پی اورمستی کی حالت میں تورات پڑھنے لگالوگ تلاوت سن کرجمع ہوگئے ماں نے اُسے وضوکرنے کی ہدایت کی تواس نے اپنی ماں کے چہرے پرضرب ماری جسکی وجہ سے ماں کی ایک آنکھ اورکئی دانت نکل گئی ۔ماں نے اسے اس رنج میں بددعادی کہ خداتجھ سے راضی نہ ہو۔صبح جب ہوش میں آیاتوبہت شرمندہ ہوااوراس ارادے سے گھرسے نکل پڑاکہ ساری عمراللہ کی عبادت میں گزارے گا۔لیکن ماں نے کہاتوں جہاں بھی جائے اللہ پاک تجھ سے راضی نہ ہو۔وہ شخص ایک پہاڑپرچڑھ کر40سال تک عبادت الٰہی میں مشغول ہواکہ سوکھ کرکانٹاہوگیااورپھراللہ تعالیٰ کے دربارمیں عرض کی اے خداتونے مجھے بخش دیاہے یاکہ نہیں غیب سے آوازآئی چونکہ تجھے تیری ماں نے بددعادی تھی کہ خداتجھ سے راضی نہ ہوتوجب تک تیری ماں راضی نہ ہوگی خداراضی نہ ہوگا۔یہ سن کرپہاڑکوچھوڑدیااورگھرواپس آیااپنی ماں سے پکارکرکہااے جنت کی کنجی اگرتوزندہ ہے توخوشی کامقام ہے لیکن اگرفوت ہوگئی تومیں ہلاک ہوگیاچنانچہ اسکی ماں نے کہاخداتجھ سے راضی نہ ہوتواس نے اپنی ماں کے پاس جاکراپنے ہاتھ کوکاٹاورکہااس ہاتھ نے تیری آنکھ نکالی تھی میں اسے دیکھنانہیں چاہتاپھردوستوں سے کہاکہ لکڑیاں اکٹھی کرواورآگ جلائی اوراس میں کودگیالوگوں نے اسکی ماں سے جاکرکہاتووہ پکاراٹھی اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک توکہاں ہے خداتجھ سے راضی ہوماں کاراضی ہوناتھاکہ خالق برحق بھی راضی ہوگیااوراللہ پاک کے حکم سے جبرائیل امین آئے اوراپناپَرمل کربڑھیاکوبھی تن درست کیااور جوان کاہاتھ بھی صحیح ہوگیا۔
رحمت عالم ﷺ نے فرمایاکہ میں تمہیں سب سے بڑاگناہ نہ بتاﺅں؟آپﷺ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایاپھرفرمایااللہ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا اوروالدین کی نافرمانی کرنا۔
سیدناانس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ہمارے سامنے کبیرہ گناہوں کاذکرفرمایااللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک کرنااوروالدین کی نافرمانی کرنا
ایک روایت میں ہے کہ آقاﷺ نے اہل یمن کی طرف ایک ارشادنامہ روانہ فرمایا"فرمایااللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے دن کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑاگناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا۔دوسرابڑاگناہ مومن کوقتل کرناہے تیسراگناہ میدان جنگ سے پیٹھ پھیرکربھاگناہے چوتھابڑاگناہ والدین کی نافرمانی ہے پھرپاک دامن عورتوں پرتہمت لگاناہے پھرجادوسیکھنااورعمل کرناہے پھرسودکی لعنت اوریتیم کامال ہضم کرناہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتم اپنے والدین کوگالیاں مت دو۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ کیاکوئی ایسابدبخت ہوگاجواپنے والدین کوگالیاں دے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایااسکی صورت یوں ہے۔کہ تم دوسروں کے والدین کوگالیاں دوگے تووہ جواب میں تمہارے والدین کوگالیاں دے گا۔گویاوہ تمہارے والدین کوگالیاں نہیں دیتاتم خوداپنے والدین کوگالیاں دیتے ہو۔
امام بخاری لکھتے ہیں دوگناہ ایسے ہیں جنکی سزااللہ پاک دنیامیں دیتاہے۔ 1۔ بغاوت 2۔والدین کی نافرمانی
جوآدمی اپنے والدین کے ساتھ احسان کرتاہے اس کے بارے میں
اللہ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجیدکے پارہ نمبر21سورة لقمان میں ارشادفرماتاہے۔
اَنِ شکُرلِی وَلِوَلِدَیکَ اِلَیَّ المَصَیر ترجمہ: یہ حق مان میرااورماں باپ کا(کیونکہ کہ) آخرمیری طرف لوٹ کرآناہے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اورشکرگزاری کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت ورضاضروری ہے ۔
حضورعلیہ الصلوٰة والسّلام نے وادلین کے اطاعت اوررضاجوئی پرزوردیتے ہوئے فرمایا۔
"اللہ تعالیٰ کی رضاوالدین کی رضامیں اوروالدین کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے "
مشکوٰة شریف میں ہے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت مٰآب ﷺ میں حاضرہوااورعرض کیایارسول اللہ والدین کااولادپرکیاحق ہے توآپ ﷺ نے ارشادفرمایا۔وہ تیری لئے جنت بھی ہوسکتے ہیں اوردوزخ بھی یعنی اگرتوان کی خدمت کریگاتوجنت میں جائے گااگرنافرمانی کریگاتودوزخ میں
ایک شخص آقاﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورعرض کیایارسول اللہ ﷺ میں غزوہ یعنی جنگ میں شریک ہوناچاہتاہوں اوراس لئے حاضرہواہوں کہ مشورہ کرلوں۔تورسول اللہ ﷺ نے فرمایاتیری ماں ہے تواس شخص نے عرض کیاہاں ہے پھرآپﷺ نے فرمایااسکی خدمت کولازم رکھ کیونکہ اسکے پاﺅں تلے جنت ہے
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیایارسول اللہ ﷺ کونساعمل اللہ تعالیٰ کوزیادہ محبوب ہے آپ ﷺ نے فرمایا۔اول وقت میں نمازپڑھنا۔والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔اللہ کے راستے میں جہادکرنا۔
ایک روایت میں آیاہے کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان اورنیکی کروتاکہ تمہاری اولادتمہارے ساتھ نیکی کرے۔
ابوطفیل ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ بمقام حجرانہ گوشت تقسیم کررہے تھے۔ایک عورت آئی حضورﷺخودآگے بڑھے اپنی چادرمبارک بچھائی اوراسے اس چادرپربٹھایا حضرت ابوطفیلؓنے کہامیں نے پوچھاکہ یہ عورت کون ہے جسکی اسقدرتکریم کی جارہی ہے لوگوں نے بتلایاکہ یہ رسول اللہ ﷺکودودھ پلانے والی والدہ ہیں۔
حضورﷺ نے ارشادفرمایا "جسے پسندہوکہ اسکی عمرزیادہ ہواوررزق میں فراخی ہواسے اپنے والدین کے ساتھ احسان ،صلہ رحمی اورنیکی کرنی چاہیے"۔ مشکوٰة شریف
انسان کے لئے والدین بہت عظیم نعمت ہیں جوشخص ایک دفعہ محبت کی نگاہ سے اپنے والدین کودیکھے تواسے مقبول حج کاثواب ملتاہے
آقاﷺ نے ارشادفرمایا"جب بیٹااپنے والدین کی طرف نظررحمت سے دیکھتاہے تواللہ تعالیٰ اسکے لئے ہرنظرکے بدلے ایک مقبول حج کاثواب لکھ دیتاہے.صحابہ کرام ؓ نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ !اگرکوئی ہرروزسومرتبہ دیکھے تواسے کیا100حج کاثواب ملے گا۔آپﷺ نے فرمایاہاں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے کثرت سے بھرے ہوئے ہیں اور وہ اس بات سے پاک ہے کہ اسکی طرف کمی کی نسبت کی جائے۔
ام المومنین عائشہ الصدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں "میں جنت میں داخل ہواتواسمیں قرآن کریم پڑھنے کی آوازسنی تومیں نے پوچھایہ کون ہے جوقرآن پڑھتاہے توفرشتوں نے عرض کیایارسول اللہ ﷺیہ حارث بن نعمان ؓہے دیگرصحابہ کرام علہیم الرضوان نے سوچاکہ کسطرح اس نے یہ فضیلت پائی ہوگی۔تورسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ تم بھی اسطرح نیکی حاصل کرسکتے ہیں کہ اپنی ماں کے ساتھ نیکی اوراحسان کرناجنت کی طرف لے جاتاہے۔ مشکوة شریف
ایک حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اللہ رب العزت سے دعاکی اے بارخدامجھے میراجنت کاساتھی دکھادے توحکم ہواکہ فلاں شہرمیں چلاجاوہاں ایک قصاب ہے جوجنت میں تیراساتھی ہوگا۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی شہرمیں گئے اوراس قصاب کے پاس پہنچے اس قصاب نے آپکی دعوت کی جب کھاناکھانے بیٹھے تواس قصاب نے ایک بڑی زنبیل پاس رکھ لی وہ ایک نوالہ خودکھاتااوردونوالے زنبیل میں ڈالتاتھاموسیٰ ؑ اس امرسے متعجب ہوئے لیکن اسی دوران دروازے پردستک ہوئی اوروہ قصاب اٹھ کرباہرگیاتوموسیٰ علیہ السلام نے دیکھاکہ اس زنبیل میں ایک ضعیف العمرمرداورایک عورت ہے جنہوں نے موسیٰ کودیکھ کرمسکراہٹ سے خوشی کااظہارکیااورآپکی رسالت کی شہادت دی اورجاں بحق ہوگئے قصاب واپس آیاتوزنبیل میں اپنے والدین کومردہ پایاقدرََامعاملے کوسمجھ گیااورموسیٰ ؑ کی د ست بوسی کی اورکہاآپ اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام ہیں توآپ نے پوچھاتجھے کیسے معلوم ہواتوعرض کیااے خداکے رسول زنبیل میں میرے والدین تھے جنکومیں کھاناکھانے سے پہلے کھلاتاتھا اور وہ ہروقت دعاکرتے تھے کہ اے خداہمیں موسیٰ ؑکی زیارت کے بعداس دنیاسے اٹھانااب میں نے انکومردہ دیکھ کرجان لیاکہ آپ موسی علیہ السلام ہیں ۔موسیٰ ؑ نے کہاکہ تیری ماں کے ہونٹ ہلتے تھے وہ کیاکہہ رہی تھی توقصاب نے عرض کیاکہ اے خداکے برگزیدہ پیغمبرجب میں اسے کھاناکھلاتاتھاتووہ میرے حق میں ہمیشہ یہ دعامانگاکرتی تھی کہ اے الٰہ العالمین میرے بیٹے کوموسیٰ علیہ السلام کاجنت میں رفیق بنا۔
یہ سن کرموسیٰ علیہ السّلام نے فرمایاکہ اے اللہ کے نیک بندے مبارک ہوکہ اللہ نے تجھے جنت میں میراساتھی بنایاہے۔
انسان والدین کی خدمت کرجنت میں جانے کاحقداربن جاتاہے اللہ رب العزت سے دعاہے کہ اللہ پاک ہم سب کووالدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے اورتمام جہانوں میں آقاعلیہ الصلوٰة کی شفقت نصیب فرمائے اللہ پاک آقاﷺ سے محبت کرنے کی توفیق عطاکرے اورمنکرین محبت سے دوررکھے آمین بجاہ النبی الامین۔
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 295847 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.