صوبائی دارلحکومت پشاور میں واقع تاریخی مقامات اہمیت کھوتے جارہے ہیں

صوبائی دارلحکومت پشاور میں واقع تاریخی مقامات محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مناسب حفاظت اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں جسمیں گور گھٹڑی کی عمارت اندر اور باہر دونوں اطراف سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے گور گھٹڑی کا مشرقی دروازہ مخدوش حالت میں انتظامیہ کی غفلت کی نشاندہی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسی طرح پشاور میں دیگر تاریخی مقامات یکہ توت میں واقع مزار شہید مردار،شاہ جی کی ڈھیری ،قلعہ بالا حصار کی جانب شمال مشرق میں پنج تیرتھ پانچ پیروں کی جگہ ،ڈبگری میں بابا جوگن کا مندر،کریم پورہ کے قریب جھنڈا بازار میں گورکھ ناتھ اور رتن ناتھ کامندر ،شیخ پولا بابا کا مزار جو کہ باڑہ میں واقع ہے،لاہور گیٹ میں حضرت شیخ جنید بابا کا مزار اسی طرح حضرت سید محمد روشن ،عطاءالحقی الحمدانی ،حضرت داتا شاہ اور شمس کے مزارات سمیت پشاور کو فصیل میں بند کرنے کے لئے نصب کئے گئے گیٹ شامل ہیں ان میں کچھ مقامات اور مزاروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں مگر اکثریت عدم توجہی کے باعث اپنی تاریخی وقعت کھو رہے ہیں چوک یادگار کے قریب مغل طرز تعمیر کا شاہکار مسجد مہابت خان جو مغل گورنر محبت خان نے تعمیر کرایا تھا کی مناسب دیکھ بھال کی جارہی ہے جس سے یہ مسجد اپنی اصلی حالت میں موجود ہے بادشاہی مسجد کے طرز پر بنائی جانے والی مسجد کے مینار کی بلندی 110فٹ ہے شہر کے مشرق میں گور گھٹڑی جس میں فائر بریگیڈ اور محکمہ پولیس کو دفتر قائم ہے اسکا مشرقی دروازہ مخدوش ہو چکا ہے گور گھٹڑی کے مغربی دروازے پر اسکی تاریخ مختصر الفاظ میں تحریر کی گئی ہے اس کی سیر شہنشاہ اکبر اور جہانگیرنے کی تھی اور 1600میں شاہ جہان کی بیٹی جہاں آرا نے اس کی سیر کی اور اسے سرائے میں تبدیل کیا اور اس سرائے کا نام جہاں آرا رکھا گیا گور گھٹڑی کی عمارت سکھوں کے اطالوی گورنر جنرل ابوٹی ٹیبل المعروف ابو طبیلہ نے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کی۔اینٹوں کی بنی یہ یادگار اور عظیم الشان عمارت مغربی اور مشرقی دروازوں پر مشتمل ہے جن میں چوبی بالکونیاں ہیں سرائے چار دیواری کے نادر واقع ہے جن کے چاروں کونوں پر برج ہیں یہ عمارت شہر کے مشرقی حصے میں ایک اونچی جگہ پر قائم ہے محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی حفاظت کے لئے اقدامات اٹھائے تھے مگر اب مشرقی دروازہ مخدوش حالت کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہ شاہکار مٹنے کی جانب گامزن ہے پشاور شہر کو پرانے زمانے میں ایک قلعے میں مقید کیا گیا تھا جس کے چاروں طرف دروازے تھے جن میں سرکی دروازہ ، سرد چاہ دروازہ ،ٹھنڈ کوئی دروازہ ،ڈبگری دروازہ،بجوڑی گیٹ،کابلی گیٹ ،آساماہی گیٹ اند ر شہر ،ہشت نگر گیٹ ،لاہور دروازہ اور گنج دروازہ شامل ہیں ان دروازوں کی مرمت پر کام جاری ہے جن میں بعض علاقوں میں دروازوں کے اثار مکمل طور پر مٹ چکے تھے جس پرکام شروع کرکے بعض مقامات پر پھر سے گیٹ نصب کردئیے گئے ہیں جبکہ باقی دروازوں کی تنصیب کا کام تعطل کا شکار ہوگیا ہے اسی طرح پشاور میں اولیاءکے مزارات کی مناسب حفاظت کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں علاقے کے لوگوں نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے جمعرات کی شب مزارات پر موم بتیاں اور اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں جبکہ باقی دنوں میں اکثر مزارات پر تالے لگے ہوتے ہیں محکمہ اثار قدیمہ پشاور شہر میں واقع قدیم عمارتوں اور یادگاروں کی حفاظت کے لئے مناسب اقدامات میں سست روی سے کام لے رہی ہیں جس سے پشتو کے معروف صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کو تباہ کرنے جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں اوریہ تاریخی اہمیت کے حامل مقامات رفتہ رفتہ نئی تاریخ کا حصہ بننے کے جانب گامزن ہیں -
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 22121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.