عورتوں کے حقوق اتنے عورتوں کو
خود بھی معلوم نہیں ہوتے جتنے بعض اوقات سیاست دانوں کویاد ہوتے ہیں اور
برموقع انہیں وقتاًفوقتاًآشکار کرتے رہتے ہیں ۔اِس کی بہت ساری مثالیں دی
جاسکتی ہیں او ربہت ساری قارئین کے ذہنوں میں ویسے بھی آگئیں ہوگی ۔عورت
کسے کہتے ہیں اور عورت ہوتی کون ہیں ؟یہ شاید ہر عورت بھی نہ جانتی ہو !عورت
کی آزادی کانعرہ سب سے پہلے جہاں سے لگا تھا اگر تھوڑی سی ریسرچ کی جائے تو
حیرت انگیز معلومات ملتی ہیں کہ وہاں کی ہی عورت آج اپنی اِس آزادی سے تنگ
آکر اپنے آزادی کے نعرے کو واپس لینا چاہتی ہے اور وہ اب گھر کی عورت بننا
چاہتی ہے مگر اب ماحول اور حالات اُس نے اپنے لئے ایسے بنا دئیے ہیں کہ اُس
کو سوائے پچھتاوے کے اب کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔جب کی اِدھر یہ مشرقی عورت اُس
مغربی عورت کے نعرے ”آزادی“ اور مردوں کے” شانہ بشانہ“ چلنے کو اپنا مؤقف
بنا کر آج بھی مغرب کے ایجنڈے کاآلہ کار بنی ہوئی ہے ۔خیر بات سیاست اور
عورت کی ہورہی تھی تو اِس میں آج سیاست سے عورت اور عورت سے سیاسست تک کی
باتوں کو چھیڑ ے رکھتے ہیں ۔
یہ بدقسمت فاخرہ یونس کے حسن وفخرکی کہانی ہے ۔جو آج سے تقریبا ً چودہ
پندرہ سال پہلے شروع ہوئی تھی ۔فاخرہ کو اللہ تعالیٰ نے قابل ِ فخر حُسن
دیا تھا۔ وہ کراچی کے بازارِ حُسن میں یونس نامی شخص کے پیداہوئی تھی
۔فاخرہ کی فیملی میڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی ۔فاخرہ اپنی معمول کی زندگی
گزاررہی تھی کہ ایک دن اُس کی زندگی کا ستارا لڑھکااور سینیئر سیاستدان
،سابق گورنر ،وزیرِ اعلٰی پنجاب غلام مصطفے کُھر کے صاحبزادے بلال مصطفے
کُھر کا کراچی کے بازارِ حُسن سے گزر ہوااور بے چاری فاخرہ کے ساتھ معاشقہ
ہوگیا ۔بڑے اور جاگیردارخاندان کے آگے بھلا کہاں غریب کی چلتی ہے ؟فاخرہ کی
شادی بلال مصطفی کُھر سے ہوگئی ۔معاشقے کی زندگی کا نتیجہ کہ کچھ دن ہی
سکون سے گزرے تھے کہ” مطلوبہ عشق“ اپنی عمر کو پہنچ چکا تھا ۔آئے روز گھر
میں لڑائی اور گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے قسمت کی ماری فاخرہ ایک مرتبہ
بازارِ حُسن واپس لوٹ آئی ۔پھر ایک دن اچانک ”عاشق“شوہر کو خیال آیااور وہ
اپنی فاخرہ سے ملنے چلاآیااور ملا کیافاخرہ کی زندگی خاک میں ملا گیا
۔تیزاب کی بھری بوتل فاخرہ کے اُس چہرے کر اُنڈیل دی جس چہرے پر تھپڑ مارنے
سے بھی آقاﷺ نے منع فرمایاتھااور یہی چہرہ اسے کچھ دن پہلے تک عزیز تر تھا۔
غریب فاخرہ کیاکرسکتی تھی بابل بھی اتنا غریب تھا اور یہی وجہ کہ آج تک اُس
کی فریاد کسی تھانے اور کچہری میں بھی نہیں سنی گئی اور نہ ہی بااثرسُسرالی
خاندان کے بلال مصطفے کُھر پرکسی قسم کامقدمہ درج کیا گیا۔ فاخرہ کو بغرضِ
علاج اُس کی ساس اور مصطفی کُھر کی سابقہ اہلیہ تہمینہ دولتانہ اٹلی لے
گئیں ۔بلال کی آتشِ عشق بجھ چکی تھی اور تیزاب کی وجہ سے فاخرہ کاحسن بھی
ختم ہو چکاتھابلکہ اب تو فاخرہ شکل و گفتگو دونوں سے پہچاننے کے قابل نہیں
رہی تھی ۔فاخرہ کے چہرے کی 38مرتبہ پلاسٹک سرجری کی گئی مگر کوئی فرق نہ
پڑااور کئی سورج طلوع ہوئے غروب ہوگئے ۔پاکستانی سیاست میں کئی چہرے اِس
دوران نئے آئے ،چیف جسٹس مسندِ انصاف سے اُتارے گئے پھر عوامی اور
وکلاءتحریک کی کامیابی ٹھہری اور چیف جسٹس ایک مرتبہ پھر اُسی مسندِ انصاف
پر آگئے مگر پھر بھی انصاف کی منتظر فاخرہ اٹلی میں اپنی قسمت پر آنسو
بہاتی رہی ۔ ”انصاف “کے سونامی آتے رہے مگر فاخرہ کے لئے انصاف کو نہ
آناتھانہ آیا البتہ بہت سارے ”پاپیوں “کے پاپ اِس سونامی میں ضرور دُھل گئے
۔
فاخرہ یونس نے 12سال تک اِس انصاف کی راہیں تکتے ہوئے 24مارچ 2012کو اپنی
جان کو”خود “ہی ختم کردیا۔میرے ملک میں ”خود“اور ”دیگر“میں تمیز ہوتے ہوتے
نسلیں گزر جاتی ہیں ۔فاخرہ کو زندگی میں فخر کے لئے یہ سرزمین تو ملی مگر
اُس کی قبر کو شاید اسلئے جگہ مل گئی کہ کبھی ”انصاف “کے ترازو اچانک بھی
اللہ تعالیٰ لگادیتے ہیں اور مکافاتِ عمل نامی ”ترازو“میں تلتے پھر دیر
نہیں لگتی ۔یہ ایک فاخرہ یونس کافخر ہے ۔ہمارے معاشرے میں بے شمار ”فاخراﺅں
“کے فخر کواِسی دیس کے ”لمبے ہاتھوں والوں“نے اپنی حوس کانشانہ بناکر اُن
کی زندگیوں کو بے نام و نشان ختم ہونے پر مجبو ر کردیااور اُن کی قسمت کہ
مفلوک الحال تھیں اُن کی اشک شوئی بھی کوئی نہ کر سکا۔ورنہ یہ تو ایک
سیاستدان اور ایک فاخرہ کی پھبتاہے ۔اگر سیاست کے داﺅپیچ کھیلتے کھلاڑیوں
کو دیکھیں تو عقل محو ِحیرت ہوتی ہے۔روزانہ نئے انداز کی اداکاری کوئی اِن
سے سیکھے ۔عورت کے نام پر اِن کی سیاست کو ”منافقت“کہنے اور لکھنے کوجی
چاہتاہے۔ایک عورت جو ہمارے دشمن” بنئے“ کے دیس میں جاکر ہمارے ملک کی عظمت
کے نشان کو اپنے بازﺅں پر سجاکر برہنہ حالت میں پوز دیتی ہے اور ملک کے
وقار کومجروح کرتی ہے اُسے اِن کاموں کے لیے آزادی حاصل ہے تواِسلام کے
آفاقی نظام کے لیے وجود میں آنے ملک میں فریال اور ڈاکٹرحفصہ کواپنی مرضی
سے اپنامذہب چننے میں آزادی کیوں نہیں ؟ ۔فریال شاہ اور ڈاکٹرحفصہ حلقہ
بگوشِ اسلام ہوتی ہیں تووہاں بعض کی زبانیں گنگ اور بعض کی بند زبانیںکیوں
بہت کچھ بولنے لگتیں ہیں ۔؟
کبھی جلوہ کبھی پردہ یہ تماشہ کیا ہے ؟
میں نہ سمجھا تری نظروں کا تقاضا کیا ہے ؟
فریال شا ہ اور ڈاکٹرحفصہ کے اِسلام لانے پر این جی اوزحرکت میں آتی ہیں
مگر 12سال تک اِن کے تعاون کی منتظر فاخرہ یونس کی طرف اِن کی نظریں کیوں
نہیں جاتیں ۔؟انسانیت سے ہمدردی ،عورت کے حقوق کامشن ،عورت کی آزادی کے
دعوے کہاں گئے ؟ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے منہ زور میڈیانے بھی بہت سارے
سچ کو سچ کہنا چھوڑ دیا ہے ۔ہماری عوام کو ویسے بھی نسیان کا عارضہ ہے اور
اس کا علاج ”سیاسی حکیموں “ کے پاس ہے جو انہوں نے کیااور اپنے فرضِ منصبی
میں کبھی کمی نہیں آنے دی ۔فریال شاہ اور ڈاکٹر حفصہ کی کہانی کو بنابناکر
خوب پیش کی جاتی ہے مگر عورتوں کے حقوق کی خاطر بنائے ہوئے نئے قوانین خود
کوکیوں بھول جاتے ہیں۔؟ہم خود ہی بت تراشتے ہیں اور وہ ہمار ے سامنے جب
اپنی ”خدائی “کی باتیں کرتا ہے تب ہمیں حقیقی خداکی تلاش ہوتی ہے پھر یہ وہ
وقت ہوتا ہے جب ہم اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کر چکے ہوتے ہیں
۔شاعر نے اسی پرشاید کہا تھاکہ
اپنی تباہیوں کا کسی سے گلہ نہیں
یہ واردات صرف میرا ہی واقعہ نہیں
ہمیں عورت سے سیاست کے رویئے کو ترک کر نا ہوگا۔عورت کی بے انتہا آزادی اور
بالکل انسانیت سوز رویہ کو بھی ختم کرنا ہوگا ۔اِس ملک میں ،میڈیا میں جتنا
وقت اور حق ،عورتوں پر تیزاب پھینکنے جانے پر فلم بناکر آسکر ایوارڈ لینے
والی ”عورت “کا ہے اتنا ہی حق فاخرہ کا بھی ہے ۔جب کہ صورت ِ حال اس کے
برعکس تھی فاخرہ کے لیے سیاستدانوں کی تعزیتی خبرتو لگ گئی مگر اُس پر ہونے
والے ظلم کی داستان کی خبر تک وہ جگہ نہ پاسکی ۔ آخر کب تک یہ دوہرے
معیارچلیں گے ۔؟ |