پاکستان میں وہ طبقہ جسے ایک
سازش کے تحت سب سے زیادہ بدنام کیا جا رہا ہے وہ سیاست دانوں کا طبقہ ہے
حالانکہ یہی وہ طبقہ ہے جو عوام کے مینڈیٹ سے حقِ حکمرانی حاصل کر کے ایک
مخصوص مدت تک کےلئے اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہو تا ہے۔گرمی ہو سردی ہو،
رات ہو دن ہو ،خوشی ہو غمی ہو، اندھیرا ہو سویرا ہو، سیلاب ہوں زلزلے ہوں،
ا لمیے ہوں، آفتیں ہوں یا ناگہانی ساعتیں سیاست دانوں کی زندگی عوام کی فلا
ح و بہبود کےلئے ہمہ وقت وقف ہوتی ہے۔ وہ سیلابی پانیوں میں بھی اترتا ہے
اور پھر قومی مقاصد کے حصول کی خاطر کیچڑ میں بھی لت پت نظر آتا ہے۔ وہ ہر
حال میں عوام کے درمیان رہتاہے اور ان سے اظہارِ یکجہتی کرتے نظر آتا ہے۔وہ
عوام کی محبت کو جیتنے کی خاطر ایک ایک دروازے پر د ستک دیتا ہے ۔ میلے
کچیلے لوگوں کے درمیان بیٹھتا ہے، دور دراز علاقوں کی جھو نپڑیوں میں عوام
میں گھل مل جا تا ہے۔ایسے ایسے علاقوں کی خاک چھانتا ہے جہاں پر سڑکیں نہیں
ہوتیں راستے نہیں ہوتے اور مواصلات کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔وہ اپنے علاقے
کی دھول اور مٹی چاٹتا ہے اور اور عوام کے سا منے دستِ طلب پھیلا کر عوامی
پذیرائی کی بھیک مانگتا ہے۔ عوام کی چوکھٹ سے سندِ قبولیت کےلئے بڑے بڑے
پاپڑ بیلتا ہے تب کہیں جا کر اسے عوام اپنے مینڈیٹ سے نواز کر اقتدار کے
ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ عوامی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا سکے اور
ان کی فلا ح و بہبود کےلئے اپنی کاوشیں تیزکر کے ملک کو ترقی کی راہ پر
گامزن کر سکے۔ سیاست ایک عبادت کی مانند ہوتی ہے اور اس میں حصہ لینے والے
لوگ انتہائی اعلیٰ کردار کے حامل تصور کئے جا نے چاہئیں کیونکہ انھوں نے
آئینِ پاکستان کی روشنی میں فیصلے کر کے انصاف و قانون کی بالا دستی کو
یقینی بنا نا ہوتا ہے اور ملک کا نظم نسق چلا نا ہو تا ہے۔لیکن کچھ مخصوص
اداروں کی جانب سے سیاست دانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے
اور جس طرح ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے اس روش نے سیاست دانوں کے اصلی
تصور کو کسی حد تک گہنا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں جسے
سیاست دانوں کے سر نہ منڈا گیا ہواور دنیا کا کوئی ایسا جرم نہیں جسے ان کا
سزا وار نہ ٹھہرا یا گیا ہو۔ان کا احتساب بھی ہوتا ہے اور انھیں سزائیں بھی
سنائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود سیاست دانوں نے جمہوری قدروں اور عوامی
فلا ح و بہبود کے عزم سے کبھی بھی سرِ مو انحراف نہیں کیااور عوامی فلاحو
بہبود کے عظیم مشن سے کبھی بھی رو گردانی نہیں کی۔وہ اپنی زندگی کے قیمتی
لمحے جس طرح عوامی خدمت کی نذر کرتے ہیں وہ انتہائی قابلِ ستائش ہے۔
پاکستان میں بہت سے ادارے ہیں جو شب خونوں اور اقتدار پر غیر آئینی قبضوں
کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتے ہیں لیکن احتساب کی شمشیر کبھی ان کے خلاف حرکت
میں نہیں آتی ۔ ان کے بارے میں کوئی زبانی جمع خرچ بھی نہیں کرتا کیونکہ
انھیں خبر ہوتی ہے کہ ان کے بارے میں اظہارِ خیال کے بعد ان کی زند گی کا
چراغ بھی گل ہو سکتا ہے اور انھیں زندانوں کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے ۔
اگر احتساب ضروری ہے تو پھر ان اداروں کے طاقتور افراد کو بھی اس صف میں
کھڑا کیا جا نا چائیے تا کہ احتساب کی تلوار سے ان کی پارسائی کا امتحان
بھی لیا جا سکے لیکن ان اداروں کو ایک مقدس گائے کا درجہ دے کر ایک طرف
کھڑا کر دیا جاتا ہے اور صرف سیاست دانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان کا
تایا پینچا کیا جاتا ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔وہ جنھوں نے گیارہ گیارہ
سالوں تک پاکستان پر غیر آئینی حکومت کی ان کا بھی تو احتساب ہونا چاہیے
اور ان کو بھی جواب دہی پر مجبور کیا جا نا چاہیے ۔آزاد عدلیہ اس جانب سے آ
نکھیں بند کر کے سیاست دانوں پر یلغار کر دیتی ہے اور ان کی رسوائی کا پورا
پورا اہتمام کر کے عوامی ووٹوں سے منتخب وزیرِ اعظم کو توہینِ عدالت میں
دھر لیتی ہے لیکن وہ جو شب خونوں کے ذریعے مسلط ہوئے تھے انھیں آئینی جواز
بھی عطا کرتی ہے اور انھیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی مرحمت فرماتی ہے۔
سیاست دانوں کے احتساب پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ انتہائی ضر
وری بھی ہے ۔پارلیمنٹ کا فورم سیاستدانوں کے احتساب کا بہترین فورم ہے
کیونکہ ہر وہ ممبر جو عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتا عوام آئیندہ انتخاب
میں اسے مسترد کر دیتے ہیں اور یوں وہ سیاست سے بے دخل ہوجاتا ہے لیکن کسی
مخصوص ادارے کی جانب سے مہم جوئی اور وزیرِ اعظم پاکستان کے خلاف ایک
عدالتی کاروائی سے اسے موردِ الزام ٹھہرا کر فارغ کر دینے کی روش کی مذ مت
کی جانی چائیے اور ایسی رو ش کا بھر پور مقابلہ کیا جاناچائیے کیونکہ یہ
روش جمہوری قدروں کا خون کرنے کے مترادف ہے جس کا پاکستان کسی بھی صورت میں
متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ جمہوریت پاکستانی بقا کی ضا من ہے ۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم کےلئے ایک مدت مقرر ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف کےلئے ایک
مدت ہے۔ صدرِ پاکستان کےلئے ایک مدت کا تعین ہے سپیکر قومی اسمبلی اور ہر
بڑے عہدے کا ایک ٹائم فریم ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کے بارے میں کسی
مدت کا تعین نہیں ہے جو حیران کن ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف صدرِ مملکت اور
وزیرِ اعظم پاکستان کو ہٹانے کا ایک متعین طریقہ کارہے لیکن چیف جسٹس آف
پاکستان کو ہٹانے کےلئے کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ایک سپریم جوڈیشل کونسل کا
شوشہ ہے جو کہ بالکل ناکام ہو چکا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ پارلیمنٹ کو اس
بارے میں گہرے غورو عوض اور تدبر کی ضرورت ہے۔ انھیں اس مسئلے کا کوئی ایسا
حل نکا لنا ہو گا جو کہ ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو
روکنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکے۔ جس طرح صدرِ پاکستان کے مواخذے کا طریقہ
کار ہے اسی طرح کا ایک طریقہ کار چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹانے کےلئے بھی
آئین میں شامل کیا جائے۔1973 کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو اسی طرح کی
آئینی شق رکھنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن کے بے حد اصرار پر سپریم جوڈیشل
کونسل کی راہ اختیار کی گئی جو کہ اپنی اہمیت کھو چکی ہے لہذا وقت آگیا ہے
کہ اسی آئینی سقم پر دوبارہ غور کیا جائے تاکہ تصادم سے بچنے کی کوئی راہ
تلاش کی جا سکے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ سپرہم کورٹ نے وزیرِ اعظم پاکستان پر
توہینِ عدالت کی چارج شیٹ لگا دی ہے اور عین ممکن ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان
کے خلاف ایک ایسا فیصلہ بھی آجائے جس میں وزیرِ اعظم پاکستان کو ہتھکڑیاں
لگانے کا حکم صادر ہو جائے۔جب ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں تو پھر
ملک میں افرا تفری اور انارکی کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ عدلیہ آنے والے دنوں
میں کیا فیصلے صادر فرمائے گی میں اس کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار
نہیں ہوں۔ ایک طوفان ہے جسے میں آتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور اس طوفان میں
عدلیہ حکومت اور دوسرے آئینی ادارے خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گئے۔ کچھ
لوگوں کو شائد حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں ہو رہا۔ ایک متفقہ وزیرِ اعظم
کے خلاف تو ہینِ عدالت کی چارج شیٹ کو ئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور اگر
وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے اس کے خلاف کوئی حکم جاری کر
دیا تو پھر موجودہ عدالت کہاں جائےگی۔میں سمجھ رہا ہوں کی عدالت اپنے رویوں
میں اتنی دور نکل گئی ہے جہاں سے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جب
چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک دفعہ فیصلہ دے دیا ہو کہ وزیرِ اعظم پاکستان
سید یوسف رضا گیلانی تو ہینِ ِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں تو پھر دوسرے ججز
کی کیا مجال ہے کہ وہ اپنے چیف کے فیصلے سے سرِ مو انحراف کر سکیں۔ایک
تصادم ہے جو ہو کر رہےگا لیکن اس تصادم کے نتیجے میں جو تباہی آ تی ہے اسے
ہم دیکھ نہیں پارہے۔کاش عدالتیں اتنی دور نہ چلی جاتیں جہاں سے ان کے لئے
لوٹنا ممکن نہ رہتا۔
اس وقت حکومت اور عدلیہ کے در میان عدالتی جنگ انانیت کی جنگ کا روپ اختیار
کر چکی ہے اور انا نیت کی جنگ کا خاتمہ سروں کی فصل کٹنے سے ہی ہوتا ہے۔
حکومت عدالت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھ
رہی ہے کہ اس کی منتخب حکو مت کے خلاف ایک سازش تیار کی جا رہی ہے جس میں
اسے رخصت کرنے کا منصوبہ بنا یا جا چکاہے۔وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا
گیلانی پوری جرات کے ساتھ کھڑے ہیں اور پر عزم ہیں کہ وہ کسی بھی عدالتی یا
فوجی مارشل لاءکوے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ہمارے ہاں تو مہم جو ﺅں کو
عدالتیں وہ کچھ بھی عطا کر تی رہی ہیں جو وہ نہیں مانگتے تھے ۔ جنرل پرویز
مشرف کے مارشل لاءکو آئینی جواز عطا کرنے کے ساتھ ساتھ آئین میں ترمیم کا
حق بھی تفویض کیا گیا تھا حالانکہ جنرل پرویز مشرف نے اس کا مطا لبہ بھی
نہیں کیا تھا۔ساری دنیاکو علم ہے کہ طیارہ اغوا کیس ایک ڈھونگ تھا ڈھکوسلہ
تھا جھوٹ کا پلندہ تھا لیکن میاں محمد نواز شریف کو اسی سازش کے نتیجے میں
سندھ ہائی کرٹ نے سزا سنائی اور میاں محمد نواز شریف کو دس سال تک جلا و
طنی کے عذاب سے گزرنا پڑا ۔ ایک ایسی ہی کہانی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا
گیلانی کے ساتھ دہرانے کا منصوبہ طے ہے لیکن وزیرِ اعظم سید یوسف رضا
گیلانی کے ڈٹ جانے کی وجہ سے کچھ اداروں میں اضطرابی کیفیت کے اثار نظر
آرہے ہیں۔وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلا نی نے اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ
کی بالادستی کےلئے کسی بھی حد تک جانے کےلئے تیار ہیں اور وہ پارلیمنٹ کی
بالا دستی ثابت کر کے رہیں گئے۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے
کہ وہ صرف پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہیں اور پارلیمنٹ ہی ان کی قسمت کا
فیصلہ کرنے کی مجاز ہے اگر کسی ادارے نے پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہاتھ میں
لینے کی کوشش کی تو حا لات ایسا رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں جس میں سب کو
نقصان اٹھانا پڑ جا ئے گا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ کوئی ادارہ بھی وزیرِ اعظم
سید یوسف رضا گیلانی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ پاکستانی عوام وزیرِ
اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہیں اور جب عوام ساتھ ہوں توساری کی ساری
سازشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ |