ٹیچر نے ہوم ورک کے طور پر بچوں
کو کہا کہ کل آپ نے اپنے اپنے فیوچر پروگرام کے بارے تفصیل سے نوٹس بنا کے
لانے ہیں کہ آپ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں ؟اور کیا بننا چاہتے ہیں؟آپ
کے کیا مقاصد ہیں؟ اس کے اگلے دن تمام کلاس نے اپنے اپنے مستقبل کے پروگرام
کے متعلق لکھے نوٹس ٹیچر کو جمع کروا دیئے جن میں سے کسی بچے نے انجینئر
بننے کے بارے لکھا تھا،کسی نے ڈاکٹر بننے کے بارے لکھا تھا ،کوئی فوج میں
اعلیٰ آفیسر بننے کا خواہاں تھا،کوئی بزنس مین بننا چاہتا تھا،کوئی اپنا
بڑا سا فارم ہاﺅس بنانا چاہتا تھا،کوئی سائنس دان بن کر نئی نئی ایجادات
بنانے میں دلچسپی رکھتا تھا،کوئی پائلٹ بن کر جہاز اڑانے کا خواہش مند تھا
تو کوئی وکیل بننا چاہتا تھا غرض ہر بچے کا اپنا اپنا مستقبل کا پروگرام
تھا لیکن ان میں سے ایک بچے نے سب سے الگ اور عجیب نوٹس لکھا تھا جس میں اس
بچے نے لکھا تھا کہ مستقبل میں وہ سیاستدان بنے گا اس نے ساتھ میں وجوہات
یہ لکھی تھیں کہ وہ سیاستدان کیوں بننا چاہتا ہے؟
سیاست ایک ایسا منافع بخش کاروبار ہے کہ دولت کے ساتھ ساتھ انسان کا رعب و
دبدبہ بھی قائم رہتا ہے اگر کوئی سیاستدان الیکشن جیت بھی نہیں سکتا تو
ہاتھی مرکے بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے کہ مصداق اس کی دھاک قائم رہتی ہے اور
اگر خوش قسمتی سے کوئی سیاستدان اسمبلی کے ایوانوں میں پہنچ جاتا ہے تو اس
پرقومی دولت لوٹنے کے کئی در کھل جاتے ہیں اور اس کے قد کاٹھ کے ساتھ قدر
میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے وہ قومی خزانے سے خود بھی سیر ہوتا ہے اور ساتھ
ساتھ سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اعزہ و اقارب کو بھی نوازتا رہتا ہے
جب تک کوئی وہ ایوان اقتدار میں رہتا ہے اس کے اللے تللے تو ہوتے ہی ہیں
ساتھ ساتھ دولت و جائیداد اور بینک بیلنس میں بھی وقتاََ فوقتاََاضافہ ہوتا
رہتا ہے سیاستدان بڑا ہی نرم دل ہوتا ہے اس لئے وہ کسی سائل کو انکارنہیں
کرسکتا یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ وہ سائل کا کام بھی نہیں کرتا ،مجھے یہاں
پر ایک قول یاد آرہا ہے کہ ” سیاستدان کبھی نہ نہیں کرتا اور عورت کبھی ہاں
نہیں کرتی “اب مجھے تو کبھی سیاستدان سے پالا پڑا ہے نہ کبھی عورت سے واسطہ
۔۔البتہ جو تجربہ رکھتے ہیں انہیں علم ہوگا کہ یہ مقولہ کس حد تک ٹھیک ہے ۔
سیاستدانوں کی بات کریں تو لوٹوں اور گھوڑوں کا ذکر نہ آئے تو یہ زیادتی
ہوگی لوٹے صرف ٹوائلٹ میں نہیں اسمبلی کے ایوانوں میں بھی ہوتے ہیں جو کبھی
لڑھک کر ایک پارٹی کے پاس تو کبھی دوسری کے پاس بھاگے چلے جاتے ہیں اور جب
ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے آپ حیران نہ ہوں گھوڑے صرف ٹانگے کے ساتھ یاپولو گراﺅنڈ
میں ہی نہیں اسمبلی کے دالانوں میں ٹہلتے اور بیٹھے نظر آتے ہیں، اسمبلی
میں بیٹھے ان سیاستدانوں کی کافی بولیاں لگتی ہیں یہ لوگ کروڑوں روپے میں
اپنے ووٹ بیچتے ہیں اس لئے ان حالات کو دیکھتے ہوئے سیاست ایک ایسا منافع
بخش بزنس ہے جس میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے کافی مواقع میسر آتے ہیں ۔
کوئی بھی کاروبار کرنے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاست کا
کاروبار وہی کر سکتا ہے جس کے پاس بینک بیلنس،کوٹھیاں،بنگلے ،گاڑیاں اور
جائیداد ہوگی کچھ لوگ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے لیکن وہ سب ماضی کا
حصہ ہیں اب تو سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اور دوسروں پر
اپنی دھاک بنانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے کچھ غریب طبقہ سے بھی لوگ
سیاست کا شوق رکھتے ہیں لیکن ان کی سیاست سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے نعروں
اور وڈیرہ شاہی کی چمچہ گیری تک ہی محدود رہتی ہے اگر پاکستان میں تبدیلی
لانی ہے اور انقلاب لانا ہے تو سیاست کی تعریف کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنا
انتخابی نظام بدلنا ہوگا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ ابھی کوئی
بھی انتخابی نظام کو بدلنا تو درکنارنظام بدلنے کی بات تک نہیں کرتا ،اسی
لئے سیاست جو کہ کسی بھی ریاست میں ایک اہم حصہ ہوتی ہے پاکستان میں وہ
”سیاہ ست“بن چکی ہے۔
ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ سیاست خدمت ہے ،عبادت ہے یا پھر کاروبار؟ |