مجھے آج کراچی سے محبت کرنے والے ،اس شہر
کے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے والے عبدالستار افغانی مرحوم بہت یاد آرہے
ہیں جنہوں نے موٹر وہیکل ٹیکس کے حصول کے لئے 1987میں سندہ اسمبلی تک مارچ
کیا احتجاج کیا ،مجھے دنیا کے کم عمر ترین میئر کا اعزاز حاصل کرنے والے
ڈاکٹر فارووق ستار کی قائد کے شہر کے لیئے کی جانے والی جدوجہد اس شہر کے
لیئے ” روڈ یوزر ٹیکس “( سڑکوں کو استعمال کرنے کا ٹیکس)کے حصول سمیت کئی
حقوق کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششیں یاد آرہی ہیں،فہیم زمان خاں کا وہ
دور بھی یاد آرہا ہے جب وہ کسی منتخب کونسل کے میئر کی طرح ایڈمنسٹریٹر کے
فرائض ادا کرتے ہوئے لانگ لائف منصوبے کا آغاز کیا اور کراچی میٹرو پولیٹن
کارپوریشن کے دائرہ میں آنے والی 28 بڑی سڑکوں شہر کی تاریخ میں پہلی بار
طویل مدت کے لئے کارآمد بنانے کے کام کا آغاز کیا جس کے نتیجے شہر کی بڑی
سڑکیں جو اس قبل جگہ جگہ سے ہر چند ماہ بعد ٹوٹ جایا کرتی تھی اب پائیدار
اور کشادہ نظر آتی ہے، یہ فہیم زمان کا ہی دور تھا جنہوں نے 1996 میںسفاری
پارک کی کشادہ اراضی کے ایک حصے پر نجی شعبے کی مدد سے الہ دین پارک قائم
کیا اور حقیقی سفاری ایریا تخلیق کرکے کھلے ماحول میں قیمتی جانور چھوڑے ۔
ان دونوں کے ادوار میں جب بھی ڈاکٹر فاروق ستار اور فہیم زمان سے میری
ملاقات یا فون پر بات ہوئی تو ہماری گفتگو کا موضوع شہر اور شہر کی ترقی
رہا۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی،کراچی واٹر اینڈ
سیوریج بورڈ،کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی،لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی،ملیر
ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور پانچوں اضلاع شرقی، غربی،جنوبی،وسطی اور ملیر کی
ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کراچی کے اہم ادارے ہوا کرتے تھے، کراچی
میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی )کا ان اداروں سے براہ راست تعلق تھا ،
کسی ادارے کو کوئی بھی معاملہ ہو وہ کے ایم سی سے لا تعلق ہوکر کچھ بھی
نہیں کرسکتا تھا اسی طرح منتخب میئر ہو یا تقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر شہر کراچی
کا ہر ادارہ اس کو جواب دہ تھا یا ہر ادارے میں کے ایم سی کی نمائندگی ہوا
کرتی تھی،آکٹرائے ٹیکس کے باعث کے ایم سی کی اپنی آمدنی سالانہ اربوں روپے
ہوا کرتی تھی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، کراچی بلڈنگ کراچی بلڈنگ
کنٹرول اتھارٹی بلدیہ کراچی کے زیرنگرانی کام کرتی تھی اور ان کا بجٹ تک کے
ایم سی کونسل منظور کیا کرتی تھی وہ دور یقینا سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم سے
بہت بہتر تھا۔
سیاسی کھلاڑیوں نے جمہوری دور بحال ہونے پر سب سے پہلے بلدیات کے اس بنیادی
جمہوری نظام پر حملہ کیا ایسے حملے ہر جمہوری دور کا خاصا رہے ہیں کبھی بھی
ملک میں جمہوری حکومتوں نے بنیادی جمہوری نظام کو استحکام دینے یا اس کے
تسلسل کے لئے انتخابات نہیں کرائے۔
ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اس نظام کو جو ڈکٹیٹر کم ڈیموکریسی کے دور میں 2001 شروع
کیا گیا تھا کی مدت ختم ہونے پر پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اس نظام پر
اعتراضات کرتے ہوئے پرانا نظام بحال کرنے کا شوشہ چھوڑ ا اور نہ تو عملآٓ
پرانا سسٹم بحال کیا گیا اور نہ ہی ڈسٹرکٹ گونمنٹ کا متنا زعہ نظام مکمل
طور پر ختم کیا گیا۔جس کے نتیجے میں کراچی خصوصی طور پر ایک انوکھا شہر بن
کر سامنے آگیا جہاں کوئی افسر ، کوئی سیاستدان اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتا
کہ شہر میں کونسا اور کس طرح کا بلدیاتی نظام کا م کررہا ہے بس یہ کہا
جاسکتا ہے کہ مخلوط حکومت کے اتحادیوں متحدہ اور پیپلز پارٹی میں اختلاف کے
باعث نہ تو پرانا نظام اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوسکا اور نہ ہی ضلعی
حکومت کا نظام مکمل طور پر ختم ہوسکا تاہم بلدیات کے نظام کو تبدیل کرنے کے
نام پر اس پرانے قدیم نظام کی دھجیاں اڑادی گئیں ۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام جو
تقریباََ ۹ سال چلا اس نو سالہ نظام کے تحت سب سے زیادہ نقصان کراچی کو
پہنچا اور آج بھی پہنچ رہا ہے لیکن کوئی بھی نہیں ہے جو اس حوالے سے سنجیدہ
کوشش کررہا ہو۔
سندہ گورنمنٹ نے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے قیام کے دوران جو کہ اختیارات کی نچلی
سطح پر تقسیم کا نظام تھا پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نکاسی کے ادارے
کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ اورشہر کی عمارتوں کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اپنے کنٹرول میں کرلیا اور شہر کے حقوق پر
ڈاکہ ڈال دیا لیکن نہ تو حق پرست اس پر کچھ بولے اور نہ ہی دیگر سیاسی
جماعتوں نے شور مچایا جس کے باعث ان اداروں کی سالانہ آمدنی براہ راست سندہ
حکومت کے پاس چلی گئی جبکہ ان کا مکمل کنڑول صوبائی حکمرانوں کے ہاتھ آگیا
جس کے باعث ان اداورں میں چن چن کر کرپٹ افسران کو ایم ڈی اور ڈی جی تعینات
کیا جارہا ہے جبکہ کے ایم سی کراچی کا ذمہ دار ادارہ ہونے کے باوجود غیر
ذمہ دار ہوگیا بلکہ غیر متعلقہ ہوگیا یہ سب کچھ کراچی اور اس کے اداروں کے
ساتھ مذاق نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
پیپلز پارٹی اور متحدہ کے بلدیاتی نظام کے حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے لیکن
بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگئے اور یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری طرف شہر اپنے
ہی لوگوں کی موجودگی میں لاوارث ہوچکا ہے ۔فنانس کی تقسیم کا نظام واضع نہ
ہونے کے باعث ہر ماہ کے ایم سی کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ
انتظامی معاملات ایسے چل رہے ہیں کہ ہنسی آتی ہے ۔کراچی ڈ یولپمنٹ اٹھارٹی
شہری حکومت کے نظام کے تحت ختم معزول ہوچکی تھی لیکن اس کے تمام امور اب تک
معزول کے ڈی اے کے نام سے چل رہے ہیں فائلوں میںDefunct KDA موجود ہے اس
طرح یہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو معزول ہونے کے باوجود سرگرم ہے۔شہر کے
اٹھارہ ٹاﺅن بدستور کام کررہے ہیں یہ جس نظام کا حصہ تھے وہ تو ریکارڈ کے
مطابق ختم ہوچکا ہے لیکن ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے فنڈز صوبائی
حکومت ابھی تک انہیں ہی بھیج رہی ہے جو دوسری طرف پانچوں ڈی ایم سی کو بحال
کیا جاچکا ہے لیکن انہیں کام کرنے کے لئے نہ صرف رقم نہیں مل رہی بلکہ
پرانے اختیارات خے حوالے سے بھی ان میں ابہام پایا جاتا ہے ان ڈسٹرکٹ
میونسپل کارپوریشنز کو چلانے کے لئے جو سسٹم چاہئے وہ فی الحال ہوا میں ہے
کیونکہ شہر اور شہر کے حقوق کی بات کرنے والے مفاہمتی پالیسی اپنائے ہوئے
ہیں۔
میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ شہر اور شہر کے اہم اداروں کی یہ صورتحال
ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے اور یہ صرف اس طرف رخ
کررہی ہے جہاں لوگوں میں بے چینی اور تشویش کے سوا کچھ نہیں ہوگا، اگر توجہ
نہ دی گئی تو کراچی سے بہت کچھ چھین لیا جائے گا اور اسے صوبے کا حق قرار
دے دیا جائے گا لیکن اس کے ذمہ دار صرف صوبہ پرست عناصر ہی نہیں بلکہ شہر
پرست خلا باز بھی ہونگے۔ |