چہرہ برائے فروخت

کمانے یعنی دولت حاصل کرنے کے لیے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ہر دور میں طرح طرح کے دولت پرست ہر طرح کے طریقوں سے اپنی جیب بھرتے رہے ہیں۔ مگر اب دولت بٹورنے کے ایسے عجیب طریقے اختیار کئے جارہے ہیں کہ انگشت بہ دنداں ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔

ایک زمانہ تھا جب انسان پر تجارتی ذہنیت سوار نہیں ہوئی تھی۔ تب بہت کچھ غیر تجارتی انداز سے ہو جایا کرتا تھا۔ آج سوچیے تو اُس دور کی سوچ خاصی دقیانوسی اور پس ماندہ لگتی ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کوئی اپنے وجود کی قیمت ہی وصول نہ کرے؟ مگر سچ یہ ہے کہ لوگ اپنا آپ بیچے بغیر، نیلام کئے بغیر دُنیا سے چلے جاتے تھے۔

نیو یارک میں دو نوجوانوں پر قرضہ چڑھ گیا تو اُنہوں نے قرض ادا کرنے کے قابل ہونے کے لیے انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ دونوں نے اپنے چہرے کو ایک سال کے لیے بل بورڈ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا! اُنہوں نے اشتہاری اداروں سے رابطہ کیا۔ پھر یہ ہوا کہ اشتہاری اداروں نے ان کے چہرے پر مختلف اشیاءو خدمات کے اشتہارات پینٹ کرنا شروع کیا۔ دونوں نوجوان چہرے پر اشتہار پینٹ کرانے کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور لوگ ان اشتہارات کو دیکھ کر محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ چھ ماہ میں اِن نوجوانوں نے 3500 ڈالر کمالیے ہیں۔

یہ خبر پڑھنے کے بعد جب ہم مرزا تفصیل بیگ کے گھر پہنچے اور اُن کے چہرے کو غور سے دیکھا تو خیال آیا کہ خیر سے وہ بھی مختلف چیزوں کے چلتے پھرتے اشتہار کی طرح ہیں! بہت سے لوگ اُنہیں دیکھتے ہی یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید وہ ہونّق پن کی تشہیر کے لیے پیدا کئے گئے ہیں! بعض نا آشنا اُن کے چہرے پر ایک نظر ڈال کر یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ وہ شاید بیزاری کو مقبولیت سے ہمکنار کرنے کے مِشن پر نِکلے ہوئے ہیں! کبھی کبھی وہ سُستی اور کاہلی کا چلتا پھرتا نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آتے ہیں! مرزا کیا اور کیا نہیں ہیں، اِس کا تعین بہت مشکل ہے۔ اگر اشتہاری ادارے اُنہیں دیکھ اور سمجھ لیں تو سوچتے ہی رہ جائیں کہ اُن سے کب، کیا کام لیا جائے!

مرزا کو جب ہم نے نیو یارک کے نوجوانوں کے اشتہاری چہروں کے بارے میں بتایا تو پہلے دریائے حیرت میں غرق ہوئے اور جب وہاں سے اُبھرے تو اُداسی کے جوہڑ میں چھلانگ لگادی۔ اور کچھ دیر بعد وہاں سے برآمد ہوئے تو پھٹ پڑے ”فرنگی کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں اور ہم ہیں کہ اب تک دیواروں کے محتاج ہیں۔ اچھا ہے کہ دیواروں کو داغ دار کرنے کے بجائے چہروں پر اشتہار پینٹ کرائے جائیں۔ سچ یہ ہے بھائی! کہ بہت سی دیواروں پر بے ڈھنگے اشتہارات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ اشتہارات کہیں اور ہوں تو کم از کم دیواروں کا حسن تو برقرار رہے! ہمارے ہاں دیواروں پر اوٹ پٹانگ اشتہارات اِتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ لوگ نوشتہ دیوار ٹھیک سے پڑھ نہیں پاتے!“

کبھی کہانیوں میں پڑھا تھا کہ کسی نے ٹوٹا پھوٹا چراغ پایا تو موہوم سی اُمید پر اُسے گھسا تو جن برآمد ہوا اور سلام کرتے ہوئے خود کو غلام کی حیثیت سے پیش کیا۔ جن کو اپنے سامنے اور غلام پاکر وہ شخص بہت خوش ہوا۔ فوراً عمدہ کھانا مانگا، وہ لے آیا۔ کھانے سے فارغ ہوا تو جن نے کہا کوئی حکم دیجیے آقا۔ نیا نیا جن تھا اور نیا نیا آقا۔ آقا فرمائشیں کرتا گیا اور جن اُنہیں حکم سمجھ کر پوری کرتا رہا۔ جب آقا نے ہر طرف سے مطمئن ہوکر سکون کا سانس لیا اور سوچا کہ اب باقی زندگی آرام سے گزاری جانی چاہیے تب جن نے حاضر ہوکر کہا ”آقا! حکم دیتے رہیے ورنہ میں بغاوت پر اتر آؤں گا۔“

چراغ کا مالک اور جن کا آقا تو بہت سٹپٹایا کہ یہ کیسی مصیبت نازل ہوگئی! اب مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ جن کو کس طور مصروف رکھا جائے۔

آج کی دنیا میں بھی ایک ایسا ہی جن پایا جاتا ہے۔ ہم اور آپ اس جن کو ایڈورٹائزنگ کی دُنیا کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ وہ جن ہے جسے اگر کام نہ دیا جائے تو محض اپنے وجود کو باجواز ثابت کرنے کے لیے ہر نان اِشو کو اِشو میں تبدیل کردیتا ہے! کاروباری اداروں کی سمجھ میں جب کچھ بھی نہیں آتا تب یہ جن نمودار ہوکر خود بتاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے۔

ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں لوگ دن رات انوکھے خیالات کو ذہن کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ کوئی بھی نیا خیال کس حد تک غیر روایتی اور انوکھا ہے۔ انوکھے پن کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ جو خیال جس قدر بے ڈھنگا دکھائی دیتا ہے وہ اسی قدر کامیاب رہتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ سَجی سنوری دلہن کی نظر میں دولہا کی کوئی اہمیت نہیں اور ایس ایم ایس آنے پر وہ 65 روپے میں کولڈ ڈرنک کی بوتل خریدنے کے لیے قطار بند ہو جاتی ہے! بیس تیس سال قبل ایسا کوئی بھی آئیڈیا انتہائی نامعقول قرار پاتا مگر اب زمانہ ایسا بدلا ہے کہ دولہا پر کولڈ ڈرنک کو ترجیح دی جارہی ہے! اور اس ترجیح کو قابل قبول بنانے میں ایڈورٹائزنگ کی دنیا مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنی نجی زندگی کو دنیا کو بچاتے پھرتے تھے۔ اب ہر چیز اشتہاری آئٹم ہوکر رہ گئی ہے۔ سیلیبریٹیز کا حال تو یہ ہے کہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو کیش کرانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب یہ کہا جاتا تھا ”آخر لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں!“ اب تو پورے وجود کو نیلام کرنے کی روش عام ہوئی جاتی ہے! شادی جیسا معاملہ بھی اشتہاری اداروں کے انوکھے آئیڈیاز اور متعلقہ شخصیات کی دولت پرستی کے دائرے سے باہر نہیں۔ ایشوریہ اور ابھیشیک بچن کی شادی تو آپ کو یاد ہی ہوگی۔ اِس پر کروڑوں روپے کا سٹہ ہی نہیں لگا بلکہ اشتہاری اداروں کے مفادات بھی میدان آگئے۔ اور اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، جب ایشوریہ رائے ماں بننے والی تھی تب معاملات کو اشتہاری مہم کی طرح چلایا گیا۔ بچے کی جنس کے حوالے سے اربوں روپے کا سٹہ کھیلا گیا۔ یعنی اب کوئی بھی چیز کاروباری مفادات سے بالاتر نہیں۔ ایسے میں محض چہروں کو فروخت کرنا یا کرائے پر دینا کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں لگتا۔

مرزا تفصیل بیگ چاہتے ہیں کہ اشتہاری دنیا ان کی خدمات بھی حاصل کرے۔ ہم نے سمجھایا کہ جناب! آپ کوئی سیلیبریٹی تو ہیں نہیں کہ کوئی آپ کے چہرے کی طرف دیکھے اور اُس پر پینٹ کئے ہوئے اشتہار کی طرف متوجہ ہو۔ وہ کہنے لگے ”نیو یارک کے دونوں نوجوان کون سے مشہور شخصیات ہیں۔ مگر انہوں نے بھی کامیاب مہم چلائی ہے۔“ ایک لمحے کو ہم قائل ہوئے مگر خیال آیا کہ مرزا اگر اپنا چہرہ کسی اشتہاری ادارے کو کرائے پر دیں اور بل بورڈ میں تبدیل کرلیں تو معاشرے میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ صبح جب وہ سوکر اٹھتے ہیں چہرے کا ”جلال“ دیکھ کر گھر والے ہیبت زدہ رہ جاتے ہیں! اور جب وہ اِسی حالت میں، یعنی مُنہ دھوئے بغیر، گلی کے کونے پر دودھ والے سے انڈے اور ڈبل روٹی خریدنے جاتے ہیں تو کبھی کبھی وہ بھی، غُنودگی کے عالم میں، مرزا کو ”بابا“ سمجھ کر انڈے اور ڈبل روٹیاں تو دے دیتا ہے مگر پیسے طلب کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتا! دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ مرزا ایسی کسی بھی صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود کو ”بابائیت“ کے مرتبے پر فائز کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے یعنی خالص ”بابائی“ انداز سے دعائیں دینے لگتے ہیں!

ایک دن ہم نے کہا مرزا! اگر کوئی آپ کو پہچان نہیں پاتا تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اُس کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اور مال لے اُڑیں۔ مرزا نے کہا ”کیا فرق پڑتا ہے؟ ہمیں نوازنے سے جو خسارہ ہوتا ہے وہ تھوڑا سا پانی مِلانے سے پورا کرلیا جاتا ہوگا!“

مرزا کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں چہرے پینٹ کرانے کا رجحان عام ہو جائے اور اشتہاری ادارے چہروں پر اشتہار پینٹ کرنے کی روش پر گامزن ہوں تو آنکھوں کو درپیش بہت سی تکالیف ختم ہوجائیں! ہم نے وضاحت چاہی تو مرزا کہنے لگے ”حالات نے انسان کو بدحواس کردیا ہے۔ جسے دیکھیے، اُس کے چہرے پر بدحواسی اور ہونّق پن لہرا لہراکر رقص فرما رہے ہوتے ہیں! چہرے پر پیشانی سمیت جب رنگا رنگ اشتہار پینٹ ہوں گے تو آنکھوں کو کچھ ریلیف ملا کرے گی!“

ہم نے مرزا سے متفق ہوتے ہوئے یہ ناقص رائے دی کہ اگر وہ اپنے چہرے پر رنگا رنگ اشتہار سجانے کا اہتمام کریں تو اہل خانہ اُنہیں دیکھنے کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور وقت اچھا کٹا کرے گا! یہ بات سُن کر مرزا نے چند ایسے ”پُرمغز“ جملوں سے ہماری تواضع کی جنہیں اگر کسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا کاپی رائٹر سُن لیتا تو شاہکار اشتہار تیار کرتا اور ایوارڈ حاصل کرتا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524535 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More