تحریر۔حکیم اشرف ثاقب
قرآن مجید فرقان حمید میں قوموں کے واقعات اللہ تبارک تعالیٰ نے بیان کیے
مختلف انبیاءکرام کی قوموں کے واقعات تفصیل سے درج کیے گئے ہیں اس وقت کے
انبیاءکی قوم کے لوگ شریعت سے ہٹ کر کوئی کام کرتے تو اللہ کے یہ برگزیدہ
بندے انبیاءکرام ان کو منع فرماتے کوئی مال تجارت میں ملاوٹ کرتا کوئی قوم
سودی کام کرتی اور کوئی رشوت ستانی کے موذی مرض میں مبتلا ہوتا اگر وقت کے
نبی اپنی قوم کو اپنے مال سے کچھ خرچ کرنے کی ترغیب دیتے تو وہ اس کے مخالف
ہوجاتے اللہ کے نیک بندوں پر ظلم و ستم اور بربریت کے پہاڑ گرا دیتے آج
میرے دیس میری پاک سرزمین میں وہ تمام کام ہورہے ہیں جس سے اسلا م نے منع
کرتا ہے بدقسمتی سے ان برے کاموں کو بڑی ڈھٹائی سے سر انجام دیا جاتا ہے
اور پھر شرمندگی بھی نہیں ہوتی تو اس میں محسن انسانیت تاجدار یثرب نے
فرمایا کہ جو قوم کھلے عام اللہ کے احکام توڑے گی تو انتظار کروزمین پھٹ
جائے گی اور اس قوم پر پتھروں کی بارش ہوگی ایسی قوم کی روزی تنگ کردی جائے
گی قارئین محترم آپﷺکے ارشاد گرامی کی طرف بغور توجہ دیں اور اپنے گریبان
میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم کیا کررہے ہیں آج ہم رشوت کو اپنا حق سمجھتے ہیں
ذخیرہ اندوزی کو منافع کمانے کا بہترین طریقہ تصور کرتے ہیں جھوٹ اور قسمیں
کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں کرپشن تو ہماری کٹھی میں شامل ہے حق دار کے
حق کھا کر ہم خوشی محسوس کرتے ہیں چور ڈاکوہمیں تحفظ دینے کے دعوے کرتے ہیں
تو ایسے حالات میں کہاں زندگی گزارنا آسان ہے گذشتہ دنوں ایک اخبار تحریر
پڑھی جس کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا پاکستان میں اس وقت کرپشن کی انتہا ہے
کہتے ہیں کہ جب قانون کے رکھوالے اور پاسدارہی چوری اور کرپشن میں شریک
ہوجائیں اور وہ چوروں ڈاکوﺅں کو جدید آلات جو انہیں گاڑیوں کی چوری کرنے کے
لیے فراہم کیے گئے ہوں تو قارئین محترم آپ ہی بتائیں کیا قانون کے محافظ
اور ڈاکوﺅں میں فرق رہ جاتا ہے؟
محمد حسن ایک بین الاقوامی کار چوروں کا سرغنہ ہے اور اس وقت وہ پانچویں
مرتبہ گرفتار ہوا ہے اور کئی انکشاف کیے محمد حسن کا تعلق ضلع صوابی سے ہے
گاڑیوں کی چوری ملوث اس نے بتایا کہ تقریباً 700ٹویوٹالینڈ کرورز ٬پراڈو ٬پجیرو٬جلسی
لگژری گاڑیاں10اسلام آباد اور گردونواح سے چوری کرکے جمیرز کی جدید
ٹیکنالوجی کے ذریعے انہیں پشاور اور مردان لے جاتا جہاں ان کی ایک منظم
مارکیٹ ہے اور یہ گاڑیاں اثرورسوخ رکھنے والے افرادقانونی طور پر اپنے نام
رجسٹرڈ کروالیتے ہیں محمد حسن نے بتایا کہ اس میں سیاستدان ٬بیورکریٹس ٬سینئر
بینکرز اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں ملزم محمد حسن نے بتایا کہ جیمرز حاصل
کرنے کے لیے ہم کو 90ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں جس سے
گاڑیوں میں لگے حرکات وسکنات بتانے اور انہیں جام کرنے والے تمام جدید آلات
غیر موثر ہوجاتے ہیں اور چوری کی گاڑیوں کو پاکستانی شہروں میں منتقل کیا
جاتا ہے محمد حسن نے راولپنڈی اسلام آباد پولیس کے کئی افسران اور اہلکاروں
کے نام بھی بتائے ہیں جو اس گروہ کی رشوت کے عوض مدد کرتے ہیں اس نے انکشاف
کیا کہ چار ماہ قبل اس ایک گروہ ایک ٹویوٹا کرولا اسلام آباد سے چوری کرکے
ایبٹ آباد لے جارہا تھا کہ راستے میں انہیں ACLCکے سب انسپکٹر نے روکا
اور7روپے لیکر چوری کی گاڑی کو جانے دیا ملزم نے بتایاکہ بعد میں اسلام
آباد کی50فیصد چوری کی گاڑیاں پولیس والے دوسرے شہروں میں منتقل کردیتے ہیں
اور ہمارے معاون ثابت ہوتے ہیں حسن نے بتایا کہ اس کے ساتھ پشاور میں
ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن افسران(E.T.O)بھی شامل ہیں جنہیں2010ءمیں
تقریباً700سو چوری کی گاڑیوں کو ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ روپے لے کر
جعلی کاغذات بنائے جس کے لیے ان گاڑیوں کے انجن جیسز نمبر پشاور شوبا
مارکیٹ ان نہایت ہی مہارت ویلڈنگ کرکے تبدیل کردیا جاتا ہے جس کے بعد
فوسینک سائنس لیبارٹری FCLکے اہلکار انجن اور چیسز نمبر تبدیل کی ہوئی
گاڑیوں کی40ہزار سے ایک لاکھ روپے فی گاڑی رشوت لے کر لیبارٹری کلیئرنس
رپورٹ جاری کردیتے ہیں اور اس کے علاوہFSLکے اہلکار گروہ کی رہنمائی بھی
کرتے ہیں تاکہ ان گاڑیوں پر چوری کا کوئی سعبہ نہ رہے جس کے بعد ان گاڑیوں
کو مارکیٹ قیمتوں پر فروخت کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ گاڑیاں جن کے انجن اور
چیسزنمبر تبدیل نہیں کیے جاتے انہیں کھول کر اسپیئر پارٹس فروخت کردیئے
جاتے ہیں گروہ کے سرغنہ محمدحسن نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا کہ انہیں
مارکیٹ ڈیمانڈ پر لگژری گاڑیوں کے چوری کے ایڈوانس رقم دے کر آرڈر ز بھی
دیئے جاتے ہیں ملزم نے بتایا کہ اسلام آباد کے بلیوایریا کے بڑے خریدار نے
اسے ایڈوانس رقم دے کر100گاڑیاں فراہم کرنے کا آرڈر دیا تھا ملزم حسن نے
مزید بتایا کہ گاڑیوں کی چوری کے سلسلے میں رشوت کی رقم اینٹی کارلفٹنگ سیل
٬فورسینک لیبارٹری اسلام آبادکے راستے میں پولیس چوکیوں کے اہلکاروں میں
تقسیم کرکے سگنل ملنے کے بعدگاڑیاں اٹھائی جاتی ہیں اور یہ کاروبار بڑے
دھڑلے سے جاری و ساری ہے۔
قارئین محترم آپ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے سوچیں کہ میرے ملک میں یہ کیا
ہورہا ہے ملزم حسن کون ہے؟اور کتنے عرصے سے کام کررہا ہے پانچ مرتبہ گرفتار
ہوا مگر پھر اس کو چھوڑ دیا گیا۔
قارئین محترم جناب کسی ملک کے تحفظ دینے والے چور اور ڈاکوﺅں سے چند ٹکے لے
کر اس کو راہ فرار کا موقع دے دیتے ہیں جب کسی ملک کے سیاستدان چور اور
ڈاکوﺅں سے چوری کا مال سستے داموں خرید کر عیاشی پر لگاتے ہیں تو اس ملک کا
خدا حافظ ہے۔ |