تحقیق و تحریر:- حاجی ابوالبرکات،
شاعر وادیب
لاہور میں مقیم ہمارے ایک دوست عاشقوں کے بارے میں انتہائی سخت خیالات
رکھتے ہیں- وہ کہتے ہیں کہ ہونق چہرے اور پچکےگالوں والے نوجوان سڑک چھاپ
عاشقوں کے جنازہ نما “ تشرف “ کسی بھی بازار میں بس اسٹاپ پر دیکھی جا سکتی
ہے- یہ اپنی ہوس کو بطور یقین اور ذہنی خناس کو اپنا انتخاب قرار دیتے ہیں-
خود خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں جبکہ ان کا دماغ ساتویں آسمان پر ہوتا ہے-
ان نادان عاشقوں کو بیٹھے بٹھائے حماقتیں سوجھتی رہتی ہیں اور پھر سڑک چھاپ
فرہاد ، کنج فکر رانجھا ، کھلنڈرے مجنوں کے وارث بن کر اپنا اور دنیا کا
وقت خراب کرتے ہیں- وقت بے وقت جب ان پر وحشت سوار ہوتی ہے تو گھروں کر راز
بازاروں میں آجاتے ہیں اس لئے بھی کہ عشق اور مشک کبھی نہیں چھپ سکتا-
تعلیمی ادارے ہوں کہ تفریحی مقامات ان بے چین نوجوانوں کی بجھی ہوئی شخصیت
، پراگندہ ذہن ، ٹوٹے ہوئے ارادے ، تاریک مستقبل اور برباد لمحہ ہی ان کے
کاروبار عشق کی کل کمائی ہوتی ہے اور بقو ل شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے
ھسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لئے
عاشقوں کے بارے میں اس تبصرہ سے ہٹ کر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو اس
مرض مین مبتلا لوگوں کو نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں- سڑکوں، بازاروں ، بس
اسٹاپوں ، اسکولوں ، کالجوں غرض اکثر پبلک مقامات پر ایسے مریضوں کو دیکھا
جا سکتا ہے اس لئے کہ آج کل کے عاشقوں کا جب حقائق سے سامنا ہوتا ہے تو ان
کے عاشق کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے- عشق میں ناکامی کے بعد کوئی
عاشق زار اس قابل نہیں رہتا کہ کسی سماجی کردار کو نبھا سکے- وہ بھول جاتا
ہے کہ عشق میں خود کو برباد کرنا دراصل زندگی کی سچائیوں سے بزدلانہ فرار
کے مترادف ہے- اب آئیے لفظ عشق کی اصل حقیقت کا جائزہ لیں- ہم پہلے بھی عرض
کر چکے ہیں کہ قرآن و احادیث میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا- عربی زبان میں
یہ لفظ اچھی محبت کے معنوں میں بھی استعمال نہیں ہوتا- دوسرے لفظوں میں اسے
گھٹیا یا نیچ معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے- اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ
سکتے ہیں کہ آج کل لفظ “ یار “ ہمارے یہاں عام بول چال میں استعمال ہوتا ہے-
خصوصا ڈش اور کیبل کلچر کے طفیل ہندی فلموں میں بولا جانے والا یہ لفظ
ہماری ثقافت میں بھی شامل ہو گیا ہے- اکثر تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگ بھی
اپنے دوستوں کے لئے ‘‘ یار “ کا لفظ عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں-
تاہم انڈین فلموں کی آمد سے قبل شریف خاندانوں میں اس لفظ کا استعمال معیوب
تصور کیا جاتا تھا- حقیقت تو یہ ہے کہ پہلے ، خاص قسم کے گھٹیا رشتے کے لئے
یہ لفظ استعمال ہوتا تھا- اسی طرح ابتدا میں لفظ “ عشق “ کو مشکل اور خراب
حالات کے اظہار کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا جوکہ اب روایتا
استعمال ہو رہا ہے- قرآن میں تو محبت کے لئے جا بجا ‘‘ حب “ کا لفظ استعمال
ہوا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ محبت صرف اللہ رب ا
لعزت سے ہی کی جائے اور اس کی محبت کا تقاضہ ہے کہ اللہ کے دوسرے بندوں سے
بھی محبت کی جائے پاک و صاف !!!! -
جہاں تک نا محرم سے محبت کا تعلق ہے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام
ایسی کسی محبت کی اجازت نہیں دیتا- یہ محبت نہیں بلکہ نفسیاتی خواہشات کی
تکمیل کے جذبہ کا نام ہے جس کو یقینا ‘‘ عشق ‘ سے تعبیر کر دیا گیا ہے-
جبکہ ہمارے نوجوان مغربی کلچر کو اپناتے ہوئے ہر سال ‘‘ ویلنٹائن ڈے “ جیسے
دن بھی منانے لگے ہیں جبکہ علما کرام مستقل اس “ ویلنٹائن ڈے “ کی مخالفت
اسلامی معاشرے کے لئے کئے چلے جا رہے ہیں-
اس مرض میں مبتلا شخص جب کسی کی خاطر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے احکامات ایک طرف رکھ دے اور اکثر اس کی خاطر پوری دنیا کو فراموش
کر دیا جائے تو اس قسم کی محبت کو مسلمانوں کے لئے بہت بڑا فتنہ قرار دیا
جا سکتا ہے- اللہ رب ا لعزت ہمیں اس فتنہ سے بچائے- آمین!
کیونکہ اس کی حقیقت میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی ہے کہ عشق کا
جذبہ بے راہ روی کی نفسانی خواہشات سے ہی لبریز ہوتا ہے جب ہی تو دنیا کے ٣
ویلنٹائین نامی شخصیت کو عشق کرنے کی پاداش میں موت کی سزا ہوئی تھی جس کی
یاد ہم مسلمان آج ہر سال منانے لگے ہیں۔ اللہ خیر کرے اور ہمیں نیک ہدایت
بھی دے- آمین!
××××× ختم شد ×××××
کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گزشتہ کل حصہ
اول تحریر کرسکا تھا۔ اس مضمون کا بقیہ حصہ آج تحریر کر دیا ہے ہماری ویب
کے لئے-
تحقیق و تحریر:- حاجی ابوالبرکات ، شاعر و ادیب ، محقق و مصنف ، ایوارڈ
یافتہ قلم کار - ممبر آرتس کونسل آف پاکستان اور ممبر اکادمی ادیات پاکستان |