میں کیوں لکھتاہوں،خودسے سوال
پھر اُس کاجواب بہت آسان بھی مگر اِس کے لئے نہ منطقی اندازکی ضرورت ،نہ
فلسفہ کے نئے نئے انداز اپنانے کی ضرورت ،تاریخ اور نہ ہی ادب کی بیساکھیوں
کاسہارالینے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔خاص اصطلاحوں اور دلائل و براہین سے جواب
مزئین کرنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ نہایت سادہ ،آسان اور عام فہم سا جواب،
جودل میں ہواُسے نوکِ قلم لاتاہوں ۔
”میں کیوں لکھتاہوں“ اِس لیے کہ میرے اندر قدرت نے شاید یہ صلاحیت رکھی تھی
جسے میں نے بنا استعمال چھوڑے رکھا تھا۔اب دل و دماغ ساتھ دیتے ہیں اور
اللہ کی مہربانی سے جو محسوس کرتاہوں اُسے لکھ دیتاہوں چاہے پھر ارباب ِ
اقتدارکو ناگوار ہی کیوں نہ گذرے ۔میں اِس لئے بھی لکھتاہوں کہ مجھے اِس کے
لئے پڑھنا پڑھتاہے اورمیں مشاہدات کا تڑکالگائے بغیر بھی نہیں لکھتا۔میں
اِس لئے بھی لکھتے لکھتے لکھنے لگا ہوں کہ یہ لکھناتو مجھے ناموسِ رسالت ﷺ
کے صدقے ملاہے اور یوں میرا پہلا احساس ِ دل، قلم و قرطاس سے ہوتاہواایک
معروف روزنامہ کے سینے پر جاچھپاتھااور یہ وہ وقت تھاجب مسلمانانِ عالم
اضطراب میں تھے ۔ناروے میں میری زندگی ،میرے ایمان وایقان کے محورومرکزکی
شاہین میں توہین کی گئی تھی۔تب دل تھا کہ پھٹناچاہتاتھا،عشق اور عقل کی
لڑائی جارہی تھی بالآخر دیکھا گیا کہ ایک بار پھر عشق جیت گیا۔جی تب سے عزم
نے ہمت کا دامن پکڑاجن کا ساتھ آج تک جاری ہے ۔
میں اس لئے بھی لکھتا ہوں کہ اب مسلمان کو بنیاد پرست کہہ کر ہدف تنقید
بنایاجاتاہے اور اِن کی تضحیک اور حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ،میں اِن کے حقوق
اور حوصلہ افزائی کرکے خریدارانِ یوسف میں نام لکھواتے ہوئے حقیقت کو اپنا
شعار بناناچاہتاہوں اور ایسے میں مغرب پرست کو اقبال کا بھولا سبق یاد
دلانا چاہتا ہوں ۔اپنے اسلاف کے قدموں میں چلنے کی دہائی دیتاہوں ۔تابناک
ماضی کی روشن قندیلیں دیکھانے کے لئے ،اُس کی آنکھوں سے حوس کی عینک
اُتارنے کی کوشش کرتاہوں ۔ملک و ملت کے سرمائے کو تدبر کی دعوت دیتاہوں اور
جھوٹ بول کر عزت کے متلاشیوں کو صداقت و سچائی کے بادشاہ صدیقِ اکبر ؓ کے
دربار میں لے چلتاہوں ۔انصاف کے حصول کے لئے رُلتے بے بسوں اورظالموں کے
ظلم سے تنگ نوحہ کناں کے لئے فاروقِ اعظم ؓ کی عدالت کے قصے بھی لکھ
دیتاہوں اورکبھی کبھی کرپشن کی دیمک سے دھماکے کرنے ،معیشت کے کھوکھلے نعرے
لگانے والوں کو حضرت ِ عثمانِ غنی ؓکی سیرت وکردارکی طرف لے جاتاہوں ۔اور
کبھی کبھی بزدلوں کو دیکھ کر اُن کے لئے علی المرتضی ؓ کی شجاعت کے تابندہ
نقوش کو پھر سے نقش کرنے کی کوشش کرتاہوں ۔ظلم وستم سے تنگ آئے مظلوموں کی
داد رسی اور اشک شوئی کرتے ہوئے انہیں اپنے سنگ لئے حضرت بلال ؓ،زنیرہؓ اور
حضرت ِ حمزہ ؓ کی زندگی میں لے آتاہوں ۔
کبھی کبھی عظمت نامہ میں یہ جسارت بھی ہوتی ہے کہ عوام کی جاہ و مال کی
حفاظت پر معموروں اور ملک کی سرحدوں پر پہرے داروں کو عین اُس وقت جب وہ
اپنے سبق سے بے اعتنائی برتنے لگیں تو انہیں اپنی معیت میں امیرِشام ؓکی
طرف لے چلتاہوں ۔اکثر تو اندازِ حکمرانی لینے کے لئے سیاست کی چوکھٹوں سے
چمٹے بے خبروں کو لے کر عمر بن عبدالعزیز ؒکے در پر چلتاہوں۔میں اِس لئے
بھی لکھتاہوں کہ میں نے پہلے قلم کی حرمت کو جانا ہے اورجب لکھتاہوں تو ر
بِّ لم یزل کی کھائی ہوئی قلم کی قسم مجھے حق یاد دِلاتی ہے ،پھر مجھے اُسی
کا خوف دامن گیر ہوتاہے ۔لکھنااور پڑھنا بھی یہی تو سیکھاتاہے کہ اُسی کی
رضاکے لیے لکھاجائے وہی سودمنداور موثربھی ہوتاہے۔الفاظ کو قرطاس کے سینے
پہ رکھ کر خود کو مصلیٰ پر اُن کی قبولیت کے لئے سجدہ ریز ی بھی اپنا اصول
ہے ۔
”میں کیوں لکھتاہوں“میں شامل ”میں“سے ڈرتے ہوئے استغفار کے ساتھ بھی
لکھتاہوں۔حال اور مستقبل کے طالب علموں کا تعلق ورشتہ ”صفہ“ کے طالب علموں
سے جوڑنے کے لئے بھی لکھتاہوں اور اِس لئے بھی کہ مایوسی کے گھٹاٹوپ
اندھیروں سے” فرد“ نکل کرروشنی کے خوبصورت جزیروں میں خود کو ”افراد“محسوس
کریں۔یہ سب لکھتے ہوئے بھی سچی اور کھری بات یہی ہے کہ میں تہی دامن
ہوں،الفاظ سے دلائل تک اور یہی وہ وجہ ہے جو مجھے اسلاف ،اکابر،اہلِ علم
اور کسرِ نفسی کی چادرمیں پوش ”حضرات “کے قدموں میں لے کر جاتی ہے ۔میں
وہاں سے علم وعمل کے سمند رمیں غوطہ ز ن ہوکرہاتھ لگنے والے موتی کو اپنے
دامن میں پالیتاہوں تو دل چاہتا ہے کہ میں اِسے بانٹ دوں اورپھر کمزور سی
انگلیوں میں مضبوط ارادوں سے اُن ”موتیوں“کونقش کرتے بانٹ دیتاہوں۔
ادب سے رشتہ استواررکھتاہوں تعلق بناکرمودب بھی بن جاتاہوں۔میں اسلئے بھی
لکھتاہوں کہ میں لکھنے والوں کی عزت ،قدر کرتاہوں اور حلقہ احباب میں پڑھنے
کے ساتھ لکھنے کی ترغیب بھی دیتاہوں ۔میں اِس لئے بھی لکھتا ہوں کہ مختلف
الاوقات بکھرے موضوعات اوراہم فورم پر جو بولتاہوں وہ بھی مشاہدات،بڑوں کے
تجربات،اور پڑھے ہوئے ہی کاخلاصہ ہوتاہے۔میں اِس لئے بھی لکھتا ہوں کہ
احباب اپنا احوال سنادیتے ہیں اور اُس میں دردہوتاہے وہ مجھے رُلاتاہے میں
برداشت نہیں کر سکتااور لکھ دیتاہوں ۔میرے اساتذہ کی شفقت ،والدین کی
دعائیں اور احباب کی نیک تمنائیں مجھے قوت اور حوصلہ بخشتی ہیں میں اِس لئے
لکھتا ہوں۔جی میں اِس لئے لکھتا ہوں ۔ |