کراچی میں مستقل امن کب قائم ہوگا

وہ گھر سے کافی دور تھا، اچانک شہر کے حالات خراب ہوگئے، لسانی جماعت کے کارکن کے قتل پر بلا پیشگی اطلاع کے سوگ کا اعلان کردیا گیا۔ اسکول، کالج اور مدارس کے بچے اور بچیاں گھر سے باہر تھیں۔ صبح دم رزق کی تلاش میں نکلے افراد روزی روٹی کابندوبست کررہے تھے۔ تاج حبیب بھی اپنا رکشہ لیے گھر سے بہت دور نکل چکاتھا، حالات خراب ہونے پر بچوں نے اپنے والد کو جلد گھر پہنچنے کاکہا۔تاج حبیب نے جواب دیاکہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہوچکی ہیں۔ مسافر بچارے پریشانی میں گا ڑیوں کی راہ تک رہے ہیں جن میں مریض، بوڑھے اور لیڈیز بھی شامل ہیں اس لیے موجودہ حالت میں دوچار کوڑی کمانارزق حلال کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کا باعث بھی ہے۔والد کے دلائل کے آگے بیٹے نے سرتسلیم خم کرکے فون بند کردیا۔ ابھی وہ خدمت خلق کے ارادے سے سرشار ہواہی تھا کہ خلق خدا کے دشمن انسان نما درندے اس کے سر پر پہنچ گئے۔ اس نے خونخوار بھیڑیوں کو خدا،رسول اور اپنے معصوم بچوں کا واسطہ دیا لیکن قاتلوں نے اپنے ”شہید“کارکن کے قتل کابدلہ رکشہ ڈرائیور سے لینے کی گویاقسم کھا رکھی تھی، اسی سینے میں گولی اتاردی جس میں چندساعات قبل نیکی کاجذبہ ابھراتھا۔

تاج حبیب کے پانچ بچوں کے سرسے باپ کاسایہ اٹھ چکاتھا۔اس کے نسبتاً بڑے بیٹے سے جب پوچھاگیا آپ کے والد کاجرم کیاتھا۔ اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا”اس کا جرم یہی تھاکہ وہ ایک غریب رکشہ ڈرائیور تھا،کسی سیاسی تنظیم سے اس کاتعلق نہیں تھا، دن بھر مارامارا پھرکر ایک دن کاراشن گھر لانے کے قابل ہوتا۔ اب میں سوچ رہاہوں کسی لسانی تنظیم سے اپناتعلق جوڑکر اپنے باپ کے جرم کاکفارہ اداکرسکوں۔

ملک کے تجارتی حب کراچی میں گزشتہ تین دنوں میں پچیس کے قریب بے گناہ افراد مارے گئے،تقریباً ستّر گاڑیاں، پانچ پٹرول پمپ، چار ہوٹل اور متعدد پتھارے جلائے گئے۔ ان گاڑےوں، پٹرول پمپوں، ہوٹلوں اور پتھاروں والوں میں سے بھی اکثریت کا تعلق کسی مذہبی، سےاسی یالسانی جماعت سے نہ تھا۔ کاروبار بند ہونے کی صورت میں اربوں کا نقصان اس پر مستزاد ہے۔

مزدوروں، اسکول کے بچوں او ربچےوں کو اس حالت میں جو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے وہ اس کے سواہے۔ میرے ایک دوست کی بہن گھر سے تقریباًتیس کلو میٹر دور گرلز کالج پڑھنے جاتی ہے۔ وہ کالج میں ہی تھی حالات خراب ہوگئے۔ اتفاقاًاس دن اس کے پاس موبائل فون بھی نہیںتھا۔ میرے دوست جان ہتھیلی پر رکھ کربھاگم بھاگ کالج گئے ، چوکیدار سے پوچھنے پر معلوم ہوا تمام اسٹوڈنٹس چلے گئے ہیں، اسکول خالی ہیں۔ انہوں نے گھر فون کیا، وہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی ۔ وہ واپس گھر روانہ ہوگئے، والدہ کو بے چینی سے منتظرپایا۔ کچھ دیر بعد والدہ سے جب بچی کی جدائی برداشت نہ ہوئی تو انہوں نے بیٹے کے ساتھ کالج چلنے کا کہا۔ میرے دوست اپنی والدہ کو اس ناگفتہ بہ صورتحال میں والدہ کو ساتھ لے کر ایک بار پھر کالج کی طرف چل پڑا۔والدہ کالج کے اندر بچی کوڈھونڈنے گئی تو خو ش قسمتی سے وہ مل گئی۔

آپ نے کبھی سنجیدگی سے غورکیاحالات کی خرابی کاذمہ دار کون ہے۔ تاج حبیب کاقاتل کون ، پچیس بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، متعدد بینکوں،ہوٹلوں اور پتھاروں کو نذرآتش کرنے والا،اربوں کانقصان کرنے والا اور غریب عوام کی زندگی اجیرن کرنے والاکون ہے؟ان تمام جرائم کاذمہ دارصرف ایک طبقہ ہے ” حکمران“۔ اس ملک کولوٹنے والے یہی پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ اپنے دین کے ابجد سے بھی نابلد ہوتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فاضل ہوں گے لیکن سورة الاخلاص نہیں پڑھ سکیں گے۔دنیا جہاں کی معلومات ہوں گی لیکن یہ نہیں معلوم ہوگاکہ قرآن پاک کے کتنے پارے ہیں اور اذان کو بجنے سے تعبیر کریں گے۔ اس بیش بہا نعمتوں کے مالک ملک کو صرف مخلص قےادت ہی جنت کاٹکڑابناسکتی ہیں جو دینی ودنیاوی دونوں قسم کے علوم پر دسترس رکھتی ہو، جو اپنے مسلمان بھائیوں میں پھوٹ ڈال کر لڑو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرانہ بلکہ ان کا درد اپنا درد سمجھتی ہو، جو مسلمان بیٹی کی عزت اپنی بیٹی سے زیادہ عزیز رکھتی ہو اور جسے یہ خوف دامن گیر ہواگر دریائے فرات کے کنارے کتّا بھی بھوکامرجائے تو اس کی پوچھ مجھ سے ہوگی۔ یقین کیجیے اگر ایسی قیادت اس ملک کو نصیب ہوئی پورے ملک خصوصاً کراچی میں مستقل امن قائم ہوگا اور اس ملک کو جنت نظیر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 58056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.