کچھ عرصے سے بلوچی اخبارات کے
ادارتی صفحات میں ایک رجحان نظر آرہاہے کہ بعض نئے قلم کار ’بلوچ قومی
تحریک‘ کو دینی اور اسلامی زاویے سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان
لکھاریوں میں کبھی کبھار بلوچ علمائے کرام یا ان سے فیض یافتہ افراد
زورِقلم سے اپنی بات عوام تک پہنچاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رہے
کہ یہ انتہائی مثبت رجحان ہے اور اسے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ آج سے
چندبرس قبل بندہ نے انہیں بلوچی اخبارات کے توسط سے بلوچ علمائے کرام کو
جنجھوڑنے کی کوشش کی؛ اگرچہ فوری ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا البتہ یہ خوش
آیند بات ہے کہ بالاخر ’مولانا‘ اور ’حافظ‘ کے سابقہ سے مزین بعض نام
مضامین کے پیشانی پر نظر آئے جو بلوچستان کو اپنی نگاہ سے ہائی لائٹ کرتے
ہیں۔ ان کے بعض کالمز نظر سے گزرے، اس کے علاوہ بعض قوم دوست لکھاریوں کی
تحریروں میں حالیہ قومی تحریک کی شرعی دلائل اور بلوچ معاشرے میں خواتین کے
مقام (جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے) جیسی حیاتی باتیں دیکھنے میں آئیں جن
سے آنکھوں میں نور آیا اور حقیر کی انتہائی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ایک چھوٹے
بھائی کی حیثیت سے اپنے لکھاری بہن بھائیوں سے گزارش کرنے کی جسارت کرتاہوں۔
آج کے مترقی دور میں اگرچہ ہمارے خطے کا شمار پسماندہ علاقوں میں ہوتاہے
لیکن ہمارے عوام کا حصہ اتنا کم نہیں کہ مستند بات کو نہ سمجھ سکھیں۔ ہم
اپنی بات سند اور حوالوں سے مزین کرکے قارئین کا بھروسہ پھر دل جیت سکتے
ہیں۔ ایک دوست نے بلوچ قوم کی اسلام دوستی ثابت کرنے کے تگ ودو میں ایسے
واقعات کا تذکرہ کیا جو کسی بھی مستند تاریخی کتاب میں موجود نہیں، جبکہ
شعر نقل کرکے شاعر کا نام بھی تحریر میں لانا چاہیے۔ یہ بات اصول کی حیثیت
رکھتی ہے کہ کچھ کہتے ہوئے یا لکھتے ہوئے ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر
کسی دن مجھے کسی عدالت میں اپنی بات کیلیے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہو تو یہ
کام ممکن ہو۔ اگر اس دنیا میں کوئی گرفت نہ ہو آخرت میں تو ہمیں اپنی باتوں
اور حرکتوں کا حساب دینا ہوگا؛ اس دن کو بھی یاد رکھیں اور جذبات میں آکر
ایسی بات نہ لکھیں جس کی سچائی پر ہمیں یقین نہ ہو۔ لگتاہے بعض جاہلوں کے
طعنے جو بلوچوں کو ہندوستان یا امریکا کے غلام گردانتے ہیں یا ان کی
مسلمانیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ہمارے بعض لکھاریوں کے سخت غصے کا
باعث بنا ہے؛ ایسے میں دیکھنا چاہیے طعنہ دینے والے کی حیثیت کیا ہے؟ ظاہر
سی بات اگر کسی گلی میں ایک نادان شخص جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہمیں ایسا
طعنہ دے تو ہمارا ردعمل اخبارات میں تو نہیں آئے گا۔ بریکٹس میں عرض ہے کہ
بلوچ خواتین اور ماضی کے حکمرانوں کی اسلام دوستی کے حوالے سے جامع تحقیق
اور معلومات اکٹھی کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ سب کو پتہ چلے ہمارے آباؤ
اجداد اسلام کی خاطر کیسے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے۔ کچھ دوست انتہائی
جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور طیش میں آکر مخالف نظریے کی شخصیات کی
کردارکشی پر تل جاتے ہیں۔ اگر کسی تحریر میں ذاتی حملے شامل ہوں یقینا اس
کی اثرگزاری کم ہوگی اور قارئین کو اس سے اچھا تاثر نہیں ملے گا۔ جب بھی
کوئی فرد یا ادارہ جس سے ہماری ذہنی ہم آہنگی نہیں کوئی تنقید کرے سب سے
پہلے ہمیں کھلے دل سے غور کرنا چاہیے کہ واقعی ہم میں ایسی کمزوری ہے؟ ہر
تنقید یا مخالف نظریے کا جواب پرجوش مگر سنجیدگی سے خالی تحریر یا بیان
نہیں ہے۔ بلوچ قوم کو فخر ہے کہ مختلف مذہبی اقلیتیں بشمول ہندو، سکھ اور
عیسائی ان کی زمین پر بستے اور پلتے چلی آرہی ہیں، اس سے ہماری وسیع برداشت
اور فراخدلی ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ میڈیا میں
بھی مخالف گروہ کے وجود کو برداشت کرنی چاہیے۔ البتہ ان کا جواب مستند،
سنجیدہ اور بلاشبہ دندان شکن ہونا چاہیے۔ ہمیں بلوچستان سے باہر اداروں اور
افراد میں ہم خیال اور حامی شخصیات کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے، آج کی دنیا
میں کوئی خطہ آس پاس بلکہ دوردراز علاقوں سے لاتعلق نہیں ہوسکتا جس کاز کو
ہم صحیح سمجھتے ہیں دوسروں کو مثبت انداز میں اس سے آگاہ کریں اور ان کی
ہمدردیاں حاصل کریں۔
آخری گزارش بطور خاص بلوچ علمائے کرام سے یہ ہے کہ محض افواہوں کی بنیاد پر
کسی رہنما کے بارے میں رائے قائم نہ کریں۔ ’قوم پرست‘ کے عنوان سے مشہور ہر
رہنما لازماً بے نماز، اسلام کا دشمن، سیکولر یا کمیونسٹ نہیں ہے۔ اگر ایسا
بھی ہو تو سوال یہ ہے کہ ہم کس قدر ان کے پاس گئے، ان کی باتیں سنیں اور
اپنی بات ان تک پہنچائیں؟ اگر وہ غلطی پر ہیں تو کیا اصلاح علمائے کرام کی
ذمہ داری نہیں؟ آپ سے زیادہ کون ان کے قریب ہے، قرآن پاک کی رو سے سب سے
پہلے قریب کے لوگوں کی نصیحت کرو: ”اور اپنے قریب کے رشتے داروں کو
ڈرسنادو“ [شعرائ: 214]۔ متحدہ ہندوستان میں جب تحریک پاکستان چل رہی تھی
کیا علمائے دیوبند کے سرخیل مولانا شبیراحمد عثمانی، مفتی محمدشفیع دیوبندی
اور مولانا ظفراحمد تحریک کے لیڈروں کے پاس نہیں جاتے جو ان سے حمایت کے
علاوہ ان کی اصلاح کی کوشش بھی کرتے؟ اگر بلوچ رہنما سخت لہجے میں بات کریں
تو قرآن پاک میں چھٹے پارے کی پہلی آیت کو سامنے رکھیں کہ: ”خدا اس بات کو
پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کوعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو اور اللہ
سب کچھ سنتا اور جانتاہے“ [نسائ148 ]۔ مظلوم کو فریاد کا حق ہے، براکہنے
والے کو برا کہہ سکتا ہے اگرچہ بہتان دینے والے پر بہتان نہیں لگاسکتا۔(ابن
کثیر)۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کی حدیث ہے”اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم
ہو یا مظلوم“ [صحیح بخاری] ظالم کو ظلم سے روک کر مدد کی جاتی ہے، کم از کم
ظلم کی مذمت کرنی چاہیے، پاکستان کی امریکا نوازی پر احتجاج کیا جاسکتاہے
تو بلوچ کشی پر خاموشی چہ معنی دارد؟ امید ہے جلد از جلد بلوچ قوم سمیت
پوری امت مسلمہ ظاہری و باطنی خوشحالی اور فلاح سے ہمکنار ہو۔ |