اتوار بازار کا ہفتہ وار پھیرا
اب احباب کی ملاقات کا دوسرا نام بن گیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوش
ہوتے ہیں۔ کتاب کسی ایک کو مل جائے تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ دوسرے اس سے
محروم رہ جاتے ہیں۔ بھائی چارے کی کیسی کیسی مثالیں چشم فلک نے اس بازار
میں دیکھی ہیں۔ گزشتہ اتوار ملنے والی کتاب "ناصر کاظمی-ایک دھیان" ہمارے
کرم فرما جناب قیصر کریم کو ملی تھی، انہوں نے ہمیں سونپ دی کہ پہلے آپ پڑھ
لیجیے اور اسکین کرکے محفوظ بھی کرلیجیے۔ ان کے توسط سے کتنے ہی دوستوں نے
یہ دلچسپ کتاب پڑھی۔
دو روز قبل شاہد احمد دہلوی کے دلی کی نابغہ روزگار شخصیٰت مولانا
عبدالسلام نیازی پر لکھے خاکے کی طلب ہوئی، اور اتفاق دیکھیے کہ شاہد دہلوی
کی کتاب اجڑا دیار ایک ایسے کتب فروش کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں پڑی ملی
جہاں "ہر مال بیس روپیہ" کی آوازیں لگائی جارہی تھیں۔مولانا عبدالسلام
نیازی کا خاکہ کتاب مذکورہ میں موجود ہے، مولانا کی ایک نادر تصویر بھی
کتاب میں شامل ہے، اس سے قبل ہمیں مولانا کی کوئی تصویر دیکھنے کا اتفاق نہ
ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ روڑہ دلی کا ہو اور مولانا کے تذکرے کے بغیر آگے
بڑھ جائے ، یہ ناممکن ہے۔ شاہد دہلوی کے علاوہ اخلاق احمد دہلوی نے بھی
اپنی خودنوشت ’یادوں کا سفر‘میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا
ہے۔نوعمری کا زمانہ تھا، اخلاق احمد دہلوی اپنے والد کے ہمراہ مولانا کے
پاس پڑھنے کی غرض سے تھر تھر کانپتے ہوئے پہنچے۔لطف کی بات یہ تھی کہ ان کے
والد بھی خوف سے کانپ رہے تھے۔ بقول اخلاق دہلوی یہ وہ بزرگ تھے جن کے
سامنے مفتی اعظم ہند مولوی کفایت اللہ کا پتہ بھی پانی ہوتا تھا ۔
سراکبر حیدری نظام حیدرآباد کا کوئی پیغام لے کر مولانا سے ملاقات کی خاطر
ان کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ مولانا کی پاٹ دار آواز آئی
کون ہے ؟
اکبر حیدری نے اپنا نام اور مقام بتایا۔
مولانا نے جواب دیا: بس، آپ کی خدمت میں مولوی عبدالسلام کے کوٹھے کی یہ
تین سیڑھیاں ہی لکھی تھیں۔ چوتھی سیڑھی پر قدم نہ رکھنا اور اپنے رئیس سے
کہنا کہ اگر اس کی ساری دولت ایک پلڑے میں ترازو کے رکھ دی جائے اور دوسرے
حصے میں ہمارے جسم کا کوئی رواں ، تو ترازو کا یہ پلڑا زمین پر لٹکا رہے گا
اور پہلا پلڑا معلق رہے گا۔ خدا خوش رکھے۔۔خدا خوش رکھے۔
سر اکبر حیدری مایوس واپس لوٹ گئے!
کچھ ایسا ہی اخلاق احمد دہلوی کے ساتھ بھی ہوا۔
مولانا عبدالسلام نیازی نے اخلاق دہلوی کے والد سے پوچھا ۔اچھا، خدا خوش
رکھے، تو یہ وہی صاحبزادے ہیں آپ کے جو مفتی صاحب سے فقہ پڑھنے میں ان کا
ناطقہ بند اور قافیہ تنگ کرتے رہے ۔ یہ کہہ کر مولانا نے اخلاق دہلوی کی
جانب دیکھا اور کہا: خدا آپ کو علم کا پہاڑ بنا دے، ماشاءاللہ، خدا خوش
رکھے ۔بس جائیے اور اپنے والد کو بھی اپنے ساتھ لے جائیے۔
ایسی کیا بات تھی کہ ایک عالم مولانا سے ملاقات کا متمنی رہتا تھا۔ جوش
ملیح آبادی نے بھی یادوں کی برات میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا ہے۔
جوش لکھتے ہیں:
" وہ مشرقی علوم کے حرف آخر انسان اور شہنشاہ تھے۔ قران، حدیث، منطق، حکمت،
تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، لغت، لسانی فوائد، ادب
اور شاعری کے امام تھے۔ جید عالم ہونے کے باوجود علمائے سو کے تشابہ سے
بچنے کے لیے انہوں نے داڑھی مونچھ کا صفایا کردیا تھا۔ وہ تصوف و حسن پرستی
کے متوالے، اور اپنے عہد شباب میں تمام اولیائے ہند کے مزارات کے چکر لگاتے،
اور اپنی محبوبہ کو ساتھ لے کر تمام عرسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ لیکن
زندگی کے آخری ایام میں وہ اس قدر سختی کہ ساتھ خلوت پسند اور خودنشیں
ہوگئے تھے کہ تقریبا بائیس برس کی مدت میں، وہ اپنے دہلی کے ترکمان دروازے
کی پتلی سی گلی کے بالا خانے سے کبھی ایک بار بھی نیچے نہیں اترے تھے۔ ""
اپنی اس متشددانہ طبیعت کی بنا پر مولانا کے رویے بھی اسی جیسے ہوگئے تھے۔
جوش اکثر ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، مولانا نے جوش کو حکم دے رکھا
تھا کہ خبردار! جب تک کہ کوئی شخص حسین یا عالم نہ ہو، میرے پاس ہرگز مت لے
کر آنا۔ جوش ایک مرتبہ اپنے ہمراہ ساغر نظامی کو لے گئے۔ مولانا خوش ہوئے
اور فرمایا: "اچھی چیز لائے ہو "
جوش ملیح آبادی نے مولانا عبدالسلام نیازی کے بیان میں جو باتیں مذکورہ
بالا بیان کے علاوہ لکھی ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ یہاں نقل کی جاسکیں۔۔
"خوف فساد خلق بزم قلم منجانب راقم" کا خدشہ لاحق ہے۔ جن احباب کو یقیں نہ
آئے، یادوں کی برات کا مطالعہ کرلیں۔
ایک مرتبہ جوش مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس بیٹھے تھے۔ ایک وردی پوش نے
آکر کہا کہ نیچے ہزہائی نیس فلاں فلاں کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ اجازت دیں تو حاضر
ہوں۔
مولانا نے جواب دیا کہ ” اگر وہ میرے سامنے آکر یہ کہیں کہ میرے تاج سے
عبدالسلام کی جوتی اونچی ہے تو شوق سے آئیں ورنہ گاڑی بڑھا دیں۔ “
"ہزہائی نیس" سمجھدار تھے، اوپر آئے اور مولانا کے پاس بیٹھ کر نہایت ادب
سے باتیں کیا کیے۔
حیدرآباد کے وزیر تعلیم نواب مہدی یار جنگ، مولانا کے کوٹھے سے نیچے اتر
رہے تھے کہ جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے کہا حضرت خیریت، آپ یہاں۔
نواب صاحب نے کہا کہ خواجہ حسن نظامی نے مجھے مولانا عبدالسلام نیازی کے
پاس بھیج کر ذلیل کروا دیا۔ جوش حیران ہوکر سیڑھیاں چڑھے اور مولانا سے قصہ
دریافت کیا۔ مولانا کا جواب ملاحظہ کیجیے:
" مہدی یار جنگ نے جب مجھ سے یہ کہا کہ میں آپ کو حضور نظام سے ملواؤں گا،
آپ میرے ساتھ حیدرآباد چلیے، وہ آپ کا وظیفہ مقرر کردیں گے تو میرا ناریل
چٹخ گیا اور میں نے اسے کہا کہ آپ کے نزدیک کیا یہ بات ممکن ہے کہ میں اس
جاہل نظام کے سامنے، اپنی وجاہت علمی کی کمر میں، ذلت کی پیٹی باندھ کر
جاؤں اور اس مسخرے کو خداوند نعمت اور اپنے آپ کو فدوی کہوں ؟ "
جوش نے اس کے بعد جو کچھ لکھا ہے اسے یہاں نقل کرنے کی تاب راقم میں نہیں
ہے۔
یہ جرات تو ڈاکٹر خلیق انجم بھی نہیں کرسکے جنہوں نے 2008 میں خاکوں کی
کتاب "مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا" میں مولانا عبدالسلام نیازی کا خاکہ لکھا
تھا۔
خلیق انجم لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مولانا نے نظام حیدرآباد کی شان میں کو
قصیدہ پڑھا میں اسے یہاں نقل نہیں کرسکتا، آپ خود ہی یادوں کی برات میں پڑھ
لیجیے۔ (مولانا عبدالسلام نیازی ، صفحہ 208، مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، انجمن
ترقی اردو ہند)
خلیق انجم کے تحریر کردہ خاکے میں کئی دلچسپ باتیں ہیں۔ ہم نے بین السطور
جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات میں درج خاکے سے یہ اقتباس نقل کیا تھا کہ:
"وہ تصوف و حسن پرستی کے متوالے، اور اپنے عہد شباب میں تمام اولیائے ہند
کے مزارات کے چکر لگاتے، اور اپنی محبوبہ کو ساتھ لے کر تمام عرسوں میں
شریک ہوا کرتے تھے۔ "
خلیق انجم کی تحریر سے اس پر مزید روشنی پڑتی ہے، وہ لکھتے ہیں:
" جے پور کی دو "گانے والیاں" تھیں، ببو اور گوہر۔ مولانا ان دونوں کے گانے
کے مداح اور اور حسن کے شیدائی تھے۔ جے پور کی ایک اور گانے والی تھیں، اس
کا نام بے نظیر تھا، مولانا کو ان سے عشق تھا۔ اکثر مزاروں پر اس محبوبہ کے
ساتھ جاتے تھے، جوش نے یادوں کی برات میں اسی کا ذکر کیا ہے۔"" (صفحہ 203)
مولانا عبدالسلام نیازی کو ایک مرتبہ ہندو مذہب کے مطالعے کا شوق ہوا۔ اس
موضوع ہر بہت سی کتابیں پڑھیں لیکن تسلی نہیں ہوئی۔ بلاآخر ہندوؤں کا بھیس
بدل ہری دوار کی راہ لی، بارہ برس ہری دوار، لکشمی جھولا اور رشی کیش میں
رہے۔ ہندو سادھوں کی طرح سمادھی لگاتے تھے۔ ایک روز انہیں خیال آیا کہ مجھے
اتنے برس ہوچکے ہیں ان لوگوں کے ساتھ رہتے رہتے، اب تک نہیں پہچان سکے کہ
میں مسلمان ہوں، جب یہ لوگ مجھے نہیں پہچان سکے تو خدا کو کیا پہچانیں گے ؟
۔اسی شام کو مولانا جنگل سے گزر رہے تھے۔ جھٹ پٹے کا وقت تھا۔ دیکھا کہ
سادھو سامنے سے چلا آرہا ہے۔ اس جنگل میں سادھو کو دیکھ کر مولانا حیرت میں
پڑ گئے اور ایک درخت کی آڑ میں چھپ گئے۔ جب وہ آگے نکل گیا تو مولانا اس کے
پیچھے چلے، تھوڑی دور پر ایک جھونپڑی تھی۔ سادھو اس جھونپڑی میں چلا گیا۔
مولانا باہر چھپے کھڑے رہے۔ انہیں پھر یہ خیال آیا کہ جب یہ لوگ مجھے نہیں
پہچانتے تو خدا کو کیا پہچانیں گے۔ اچانک جھونپڑی میں سے سادھو کی آواز آئی،
عبدالسلام! چھپو نہیں، آجاؤ۔ مولانا اپنا نام سن کر خائف ہوگئے اور بے
اختیار ان کے قدم اس جانب اٹھ گئے۔ جھونپڑی میں داخل ہوئے تو سادھو نے کہا
کہ تم بے وجہ پریشان ہورہے ہو، ہم نے دس گیارہ سال پہلے جب تمہیں دیکھا تھا،
اسی وقت پہچان گئے تھے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ تم دہلی واپس چلے جاؤ، وہاں خلق
خدا کی زیادہ خدمت کرسکو گے۔
مولانا دہلی واپس لوٹ گئے!
مولانا کا مزاج ایسا تھا کہ اچھے اچھوں کو بے طرح جھڑک دیا کرتے تھے۔ ایک
عالم ان کے پاس اکتساب علم کے حصول کی غرض سے آنے کا خواہشمند رہتا تھا۔
مسائل دریافت کرنے والے اس پر مستزاد۔
ایک صاحب حج سے واپس آئے تو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کسی نے مولانا
کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ ان صاحب کی دو غیر شادہ شدہ لڑکیاں گھر بیٹھی ہیں،
بہت کم آمدنی ہے پھر بھی قرض لے کر حج پر گئے ہیں۔ یہ سن کر مولانا بھڑک ہی
تو گئے۔
"آپ اتنے دن بعد حج سے واپس کیوں آئے ہیں ؟ " مولانا نے اس صاحب سے دریافت
کیا
وہ صاحب بولے: " حضرت، جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ اندھیرے کی طرف کیسے
جائے "
مولانا بپھر گئے، ضبط کھو بیٹھے، ڈپٹ کر کہا : " سالے! تو یوں کروں، اس کا
مطلب ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں، تو قرض لے کر روشنی میں گیا تھا
نکل یہاں سے تیری۔۔۔۔۔۔""
وہ صاحب جوتیاں چھوڑ کر بھاگے۔
--------
تقسیم ہند کے بعد مولانا عبدالسلام نیازی کے کئی دوست پاکستان چلے گئے۔ جوش
ملیح آبادی جانے سے پہلے ان سے ملنے گئے لیکن اس مرتبہ مولانا نے انہیں بھی
بے نقط کی سنائیں۔ دلی کا یہ روڑہ گھر تک محدود ہوکر رہ گیا۔ بلاآخر 30 جون
1966 کو چند دن بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔
|
|
زیر نظر پوسٹ کے ہمراہ شاہد دہلوی کی کتاب "اجڑا دیار" سے مولانا عبدالسلام
نیازی کا خاکہ منسلک ہے۔اتوار بازار سے اس مرتبہ ملنے والی کتابوں کی
تفصیل یہ ہے:
اجڑا دیار۔شاہد احمد دہلوی۔ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی۔سن اشاعت: 1981 دوسری
بار (اشاعت اول: 1961 )۔صفحات: 432
غبار خاطر۔ابو الکلام آزاد۔مرتبہ: مالک رام۔ناشر: ساہیتہ اکیڈمی دہلی۔سن
اشاعت: 1981۔صفحات: 435
|
|
کتاب زیست۔خودنوشت۔الحاج محمد زبیر۔ناشر: ایجوکیشنل پریس کراچی۔سن اشاعت:
مئی 1982۔صفحات:
|
|
خشک چشمے کے کنارے۔مجموعہ مضامین۔ناصر کاظمی۔ناشر: مکتبہ خیال، لاہور۔سن
اشاعت: مارچ 1982۔صفحات: 184
|
|