ترقی یافتہ ممالک نے اپنی عوام
کی سہولت کے لیے آئی ڈی کارڈ سسٹم شروع کیا اور وہ اپنے ملک کے کسی بھی
کونے میں جائیں صرف کارڈ دکھائیں اور دل کی مراد پائیں۔ ہمارے ہاں بھی
پاکستانیوں کو صرف کارڈ کے لیے ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرنے کے لیے
نادرا (اداکارہ نہیں) نے یہ کام شروع کیا اور ایسا شروع کیا کہ تا زندگی
کبھی ختم نہ ہو گا۔جب تلک آپ کی جان میں جان ہے آپکو اس محکمے سے واسطہ
پیندا رہیگا کہ ہر آٹھ دس سال بعد کبھی آپکا کارڈ ختم تو کبھی بیگم کا،
کبھی بیٹے کا تو کبھی بیٹی کا۔ کبھی کسی نئے مہمان کا اندراج یعنی ب فارم
تو کبھی پاسپورٹ کے لیے ضروری کاغذات۔ پتہ نہیں کہ مرنے کے بعد بھی بندے کو
پہلے نادرا کے دفتر نہ لیجانا پڑجائے کہ فوتگی کی انٹری کرا ئی ، تصویر
بنوائی، انگلیوں کے نشانات اور مرحوم کا متعلقہ ڈیٹا بنفسِ نفیس نہ اینٹر
کرانا ہوتب کہیں جاکر محکمہ داخلہ کا دفنانے کا اجازت نامہ ملیگا اور وہ
بھی اسلام آباد سے۔مردہ بیچارہ ورثاءکو کوس رہا ہوگاکہ یار جلدی دفناﺅ،
حوریں انتظار کر رہی ہیں۔
ویسے ہم پاکستانیوں کی قسمت میں تو شاید لائن میں لگنا ہمیشہ کے لیے لکھ
دیا گیا ہے۔کبھی یوٹیلٹی بلوں کے لیے لائن ، کبھی آٹا، گھی، چینی کے لیے
لائن۔ کبھی سی این جی گیس کے لیے لائن تو کبھی ڈومیسائل کے لیے لائن ۔اور
اب اس نئے شناختی کارڈ اور ب فارم کے حصول کے لیے گھنٹوں لمبی لائن دیکھ کر
لگتا ہے جیسے رمضان میں آٹا فری مل رہا ہو ۔جو لوگ اس پل صراط سے گزر کر یہ
اشیائِ ضروریہ حاصل کر چکے ہیں تو سمجھیے کہ انہوں نے محمد بن قاسم کی طرح
واقعی ایک اور دیبل فتح کر لیا ہے یا پھر ایسا ہی ہے جیسے کہ وینا ملک یا
قطرینہ کیف سے ملاقات ہو جائے ۔ آجکل کوئی بھی سرکاری کام ہو، نوکری کی
تلاش ہو، ریلوے کی بکنگ کرانی ہو، ڈاکخانے میں کام ہو یا بچوں کا داخلہ ہو،
شناخت کے لیے ہر جگہ ہر وقت نادرا شناختی کارڈ اور ب فارم کا ہونا لازمی
قرار پایا ہے۔یوں لگتا ہے کہ آئندہ دنوں میں تو انکے بغیر اپنے گھر میں بھی
داخلہ ممنوع ہو جائیگا کہ بیگم دروازے پے آکر پہلے نادرا کا آئی ڈی کار ڈ
پوچھے گی اور پھر دروازہ کھلیگا۔ اسکے علاوہ اس گوہرِ نایاب کو ہر وقت جیب
میں رکھنا ہوگا کہ پرچون والا، دودھ والا اور سبزی گوشت والا بھی اسکے بغیر
سامان نہ دیا کریگا ۔ یا پھر ہر بندہ سینے پر سامنے آویزاں کیے ہوگا کہ پتہ
نہیں کب کوئی پولیس والا ہی نہ پوچھ لے ؟ اور تو اور اب نکاح کے لیے بھی اس
گوہرِ نایاب کا ہونا ضروری قرار پایا ہے کہ اسکے بغیر نکاح نامہ بھی ویری
فائی نہیں ہوتا۔ آپ بھی یہ شے جلد حاصل کرلیں کہ کہیں دلہن صرف اسلیے
روانگی سے نہ رہ جائے کہ نادرا کا کارڈ نہیں تھا۔ یاد رہے کہ وہاں صرف پرچی
سے کام نہیں چلتا۔ویسے بہتر تو یہ ہے کہ شادی طے کرنے سے پہلے ہی لڑکی اور
لڑکے کا یہ کام کرا لیا جائے ورنہ افٹر میرج مشکلات بہت بری ہوتی ہیں اور
آنے والے وقت میں ان نوادرات کا حصول ا تنا مشکل ہو جائیگا کہ جیسے میرا
پتی ہونا۔
نادرا کے دفاتر میں عملے کا رویہ عوام کے ساتھ بے حد ہتک آمیز ہوتا ہے ایسا
لگتا ہے کہ شاید سرکار انہیں چائے وغیرہ نہیں دیتی یا پھر یہ لوگ گھر سے لڑ
کر آتے ہیں کہ ہر عزت دار بند ہ ڈرتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کس کاﺅنٹر پر
اسکی پینٹ اتر جائے یا کم ازکم ڈھیلی تو ہو ہی جاتی ہے۔
ایک خبر کے مطابق چیف جسٹس صاحب کے حکم پر ہماری تیسری جنس یعنی خواجہ
سراﺅں کو نادرا میں نوکری دی جارہی ہے۔ ہم سوچ میں پڑگئے کہ خواجہ سرا کو
صرف نادرا میں ہی نوکری کیوں؟ تو بعد میں پتہ چلا کہ انتظار کی زحمت اچھی
گزارنے کے لیے ان بیچاروں کو اس محکمے میں کھپایا گیا ہے ۔ ہمارے ایک دوست
کو ان بے چارے خواجہ سراﺅں سے دوستی اور بات کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے
اور وہ ہر ماہ اپنا کارڈ گمشدہ ظاہر کر کے صرف ان خاص بندوں سے ملنے کو
نادرا کے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور گھنٹوں جان بوجھ کر لائن میں لگے ان کو
دیکھتے اور مزے لیتے رہتے ہیں۔ خیر تفنن بر طرف،یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ
اس جنس میں بہت اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور شاید کراچی ، لاہور ،
اسلام آباد میں باقاعدہ کام بھی کر رہے ہیں یا رہی ہیں۔
اگرچہ ہمیں خواجہ سراﺅں کے نادرا میں ہونے پر خوشی ہے، تاہم پریشانی بھی ہے
کہ مثال کے طور پر آپ نادرا کے دفتر گئے اور خواجہ سرا کو بتایا کہ آپ کے
ہاں لڑکا ہوا ہے ب فارم بنادیں۔ یہ سنتے ہی سب سے پہلے تو وہ اٹھ کر ڈانس
کرنا شروع کر دیگا اور پورا نادارا کا عملہ اور دیگر موجودہ افراد کو بھی
پتہ چل ئیگا کہ آپ کے گھر لڑکا جما ہے۔ آپ اسے تصحیح کریں گے کہ لڑکا میرے
نہیں جما بلکہ میری بیوی کے ہاں جما ہے تو وہ دوبارہ پوچھے گا کہ ہائے
ہائے، ہے تو آپکا ہی نہ ؟ آپ پھر ہاں میں سر ہلائیں گے۔ پھر وہ آپسے مٹھا
ئی کے پیسوں کا تقاضا کر بیٹھے گا اور آپکو دینے پڑیں گے اور پھر شام کو
اپنے دیگر حواریوں کے ساتھ با جماعت آپکے گھر آن دھمکے گا۔ پھر آپکی لاکھ
چھپانے کی کوشش کے باوجود یہ بات پورے محلے میں پھیل جائیگی کہ آپکے ہاں
لڑکا جما ہے ۔ جیسے لڑکا نہیں بلکہ دہی جم گیا ہو۔ یوں آپ کو پورے محلے میں
بھی مٹھا ئی بانٹنا پڑ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر ان خواجہ سراﺅں سے جان بھی
کچھ دے دلا کر ہی چھوٹے گی، بغیر لیے دیے انکے مذہب میں ویسے ہی مکروہ ہوتا
ہے ۔ بقول انکی یا انکے ایک لیڈر الماس بوبی کہ جو بھی مل جائے لے لیتے
ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں تو یہ لوگ جنس میں other کا خانہ لکھوانے میں
کامیاب ہو گئے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ جنس قرضے وصول کرنے میں بھی اپنا ثانی
نہیں رکھتی۔
خیر! ہم بات کر رہے تھے نادرا کی تو اسی طرح مرگت پر بھی لگتا ہے کہ کچھ
عرصہ بعد میت کو دفنانے سے پہلے اسکے آخری فنگر پرنٹ کے لیے نادرا آفس
لیجانا لازمی قرار پائیگا۔ یوں میت بس پہلے نادرا آفس پھر قبرستان جائیگی
یا پھر کہیں نادرا کا ایک سائٹ آفس ہر قبرستان کے باہرہی نہ بنا نا پڑ
جائے۔ اسکے علاوہ اگر کسی خاتون کو آخری تصویر یا فنگر پرنٹ کے لیے نادرا
آفس لیجایا گیا تو کہیں وہ اٹھ کر نہ بیٹھ جائے کہ پہلے مجھے میک اپ کرنے
دیا جائے۔ یوں سارے کندھا دینے والے بیچارے انتظار میں سوکھ ہی نہ جائیں
اور شوہر بیچارہ جو پتہ نہیں کب سے بیگم کے مرحومہ ہونے کی دعا کر رہا ہوتا
ہے ، وہ بھی شک میں پڑ جائیگا اور پھر بیگم کے دوبارہ زندہ ہونے پر کچھ بھی
ہو سکتا ہے؟
ہمارے للو میاں کے کارنامے تو آپ اکثر کالموں میں پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ وہ
بھی پہنچے ایک روز اپنا شناختی کارڈ ر ی نیو کرانے۔ نادرا کے دفتر کے باہر
رش دیکھ کر پہلے پہل تو وہیں بے ہوش ہو پڑے۔ لوگوں نے پانی شانی مار کر
اٹھا نے کی کوشش کی مگر ندارد۔ پھر کسی طرف سے آواز آئی کہ ایسے لوگ جوتے
کے ڈاہ کے ہوتے ہیں یا پھر انکے منہ میں پیپسی ٹپکائیں۔ جوتے والا کام کار
آمد رہا اور موصوف فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور لو گوں نے انہیں لائن میں کھڑا
کر دیا۔ للو میاں نے اپنے سے آگے مردانہ لائن میں لگے بندے گنے تو پورے
بتیس تھے۔ جسکا مطلب تھا کہ انکی باری شام تک ہی آئیگی۔ زنانہ لائن پر نظر
ڈالی تو وہاں بھی اٹھائیس خواتین لائن میں تھیں۔ نظر بچاکر جو زنانہ لائن
میں گھسنے کی کوشش کی تو ایک خرانٹ عورت کے ہتھے چڑھ گئے۔ بس پھر کیا تھا،
سب نے ملکر ایسی درگت بنائی جیسے فلمی ہیرو ہیروئن کی عزت بچاتے ولن کی کر
تا ہے۔ مرتے کیا نہ کرتے بیچارے زخم سہلاتے دوبارہ مردانہ لائن میں آکھڑے
ہوئے۔ کھڑے کھڑے تھکنے لگے تو کبھی ایک ٹانگ پر دباﺅ تو کبھی دوسری پر۔ پھر
اچانک انہیں خیال آیا کہ اینٹ کا کوئی ٹوٹا لاکر اسپر بیٹھ جا یا جائے۔ لو
جناب بیٹھنے کے لیے اینٹ کی تلاش بسیار میں جو نکلے تو گھنٹے بعد واپسی
ہوئی۔ اینٹ لیکر لائن میں پہنچے تو لوگ پہلے تو مجنون سمجھ کر ڈر گئے کہ
کہیں اینٹ مار کر سر نہ پھاڑ دے۔ پر لوگ سیانے تھے پہچان گئے کہ یہ لائن کے
بیچ میں گھسنا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے شیم شیم کے نعرے لگانے شروع کر دیے اور
پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ایسے ہی جیسے لوڈو کی گیم میں ننانوے کے ہندسے پر
پہنچ کر لوگ نیچے آجاتے ہیں۔ یوں بیچارے شام تک لائن میں کھڑے رہے پر نمبر
نہ آیا اور نامراد گھر واپس لوٹ گئے۔گھر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اس دھکم
پیل میں موصوف جیب بھی کٹا بیٹھے ہیں جسکی وجہ سے ظاہر ہے کہ پھر بیگم نے
لتے لیے۔ ساتھ میں آرڈر جاری کیے کہ آپ رات ہی کو جاکر نادرا آفس کے باہر
سو جائیں تاکہ صبح آپکا نمبر جلد آجائے۔ یوں بیچارے رات بھر گردن کے نیچے
ہاتھ اور کمر کے نیچے آٹے کا خالی گٹو رکھ کر مچھروں سے لڑتے سوتے جاگتے
رات گزار کر جب صبح اٹھے تو موصوف کے جوتے غائب تھے ۔ خیر ! بیچارے للو
میاں ننگے پاﺅں جیسے کیسے ٹوکن کاﺅنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ پر
یہ کیا کہ جیب میں موجود فیس تو پھر کوئی لے اڑا تھا۔ اس بار نادرا والوں
نے للو میاں بیچارے کو خود ہی باہر دھکیل دیا۔ تیسری کوشش میں موصوف پھر
رات لائن میں گزار کر پھر کا ﺅنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے ، تاہم
کاﺅنٹر والے نے بتایا کہ یہ تیار شدہ شناختی کارڈ لینے کی لائن ہے شناختی
کارڈ بنوانے کی نہیں۔ ساتھ ہی درجن بھر لوگوں کے قہقہے لگانے کی آوازیں بھی
آئیں اور للو میاں اپنا سا منہ لیکر پھر سے دوسری لائن میں لگ گئے۔بمشکل
تمام چار گھنٹے بعد مطلوبہ کاﺅنٹر تک پہنچے تو سامنے کھڑے گارڈ کے موبا ئل
پرکوئی سفارشی گھنٹی بجی اور اسنے للو میاں کو کالر سے پکڑ کر پیچھے دھکیل
کر اپنا بندہ آگے کر دیا۔ تاہم تھوڑی دیر بعد یہ بیچارے بھی مطلوبہ کاﺅنٹر
تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔پھر وہاں سے ٹوکن لیا ور انتظار میں بیٹھ
گئے۔سکرین پر نمبر چلا 66، پر بوجوہ نظر کمزوری اسے الٹا یعنی اپنا 99 سمجھ
کر فوٹو والے پاس دوڑ پڑے۔ ان صاحب نے للو میاں کا ٹوکن اور شکل دیکھ کر
کچھ بڑ بڑ کی اور صرف اتنا ہی کہا کہ بزرگو ابھی انتظار کرو کہ کر واپس موڑ
دیا۔ اسی دوران للو میاں کی ملاقات اتفاق سے اپنے ایک قریبی اور بہت ہی
پرانے دوست سے ہوگئی ۔ للو میاں جو حال چال ونڈنے لگے تو انکا نمبر گزر گیا
اور انہیں پتہ ہی نہیں چلا اور وہ بیچارے شام تک اپنے نمبر کے آنے کا
انتظار ہی کر تے رہے۔ پھر آخر میں آخر کار نادرا والوں نے ترس کھا کر انہیں
بلا ہی لیا۔
ٹوکن لینے کے بعد پہلی پیشی فوٹووالے کے پاس تھی۔ موصوف گویا ہوئے کہ جناب
فوٹو بنے گا ذرا زلفیں سنوار آﺅ سامنے شیشے میں۔ للو میاں شیشے تک گئے اور
مسکرا کر واپس آگئے کہ سنوارتے کیا کہ چندیا پر تھا ہی کچھ نہیں ۔ فوٹو
والے نے بیٹھنے کو اسٹول دیا ا وربولا کہ انکل منہ ادھر کر کے دیکھو۔ للو
میاں نے کئی بار دیکھا پر انہیں کو ئی پوز پسند ہی نہ آتا ۔ آخر کار تھوڑا
سا وینا ملک اسٹائل میں اینگل بنا کر فوٹو چھکوانے میں کامیاب ہو رہے، جس
پر فوٹو والا بھی جملہ کسے بغیر نہ رہ سکا کہ وینا ملک کے تو ہاتھ میں بم،
بازو پر آئی ایس آئی کا ٹیٹو اور کپڑوں کی جگہ کسی منے کی چڈی تھی پر آپ نے
تو ان لوازمات کے بغیر ہی اچھا پوز دے دیا۔ خیر جناب۱ یہ مرحلہ طے کر کے
انگلیوں کے نشانات لینے والے کے پاس پہنچے تو ہر بار سکینر ٹوں کی آواز
نکال دیتا ۔ ان صاحب نے غور سے للو میا ں کی انگلیوں کو دیکھا تو بیچارے
للو میاں کی انگلیوں اور ہاتھوں کے نشانات برتن مانج مانج کرمٹ چکے تھے۔
خیر ان صاحب نے کچھ کھٹے میٹھے انداز میں للو میاں کو دیکھا اور انگلیوں کے
فنگر پرنٹ لیکر آگے بڑھا دیا۔ اب جناب باری تھی ڈاٹا اینٹری کی: نام پتے کے
بعد ازدواج وغیرہ کا پوچھا گیا تو غلطی سے دو بتا بیٹھے۔ نام پوچھا تو ایک
موجودہ والی کا تو بتا دیا پر دوسری کا نہ بتا سکے، ہوتی تو بتاتے نہَ ۔
بلکہ انٹری کرنے والی لڑکی کو بے ساختگی میں کہہ گئے کہ دوسرا نام تو اپنا
ڈال دے۔ موصوفہ ہاتھ چھوڑتے چھوڑتے رہ گئی، شاید معصوم شکل دیکھ کر رحم
آگیا۔ پھر جناب سوال کیا گیا تعلیم کے بارے میں تو بولے ایم بی بی ایف یعنی
میٹرک بار بار فیل۔بچوں کی تعداد اور نام میں ہمیشہ بھلیکا کھاتے اور اکثر
محلے کے دیگر بچوں کے نام کے ساتھ بھی اپنی ولدیت لگا دیتے تھے اور یہاں
بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ آس پڑوس کے درجن بھر بچوں کے نام اپنے کھاتے میں
لکھوا دیے۔ پھر جناب پروفیشن کا جب پوچھا گیا تو سمجھے کہ فیشن کے بارے
پوچھا جارہا ہے ۔ بولے کہ فیشن میں نہیں میری گھر والی کرتی ہیں۔ مکرر
ارشاد ہوا کہ فیشن نہیں پروفیشن۔ پر کچھ کر تے تو بتاتے نہ۔ انکا سارا دن
تو صرف گھر کے کام کاج میں صرف ہو تا تھا۔ تنگ آکر بیوی ملازم لکھوادیا۔
یوں بمشکل تمام یہ مرحلہ بھی مکمل کیا اسکے بعد آخری کاﺅنٹر پر کوئی شریف
سا آدمی بیٹھا تھا فارم نکال کر ہاتھ میں تھما دیا اور ڈاکٹر کی طرح دو
ہفتے بعد دوبارہ آنے کا کہہ دیا اور تاکید کی آنے سے پہلے اسلام آباد کے
ٹول فری نمبر پر کال کر کے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر للو میاں بیچارے جب شام
گئے گھر پہنچے تو گھر کے سارا دن کے بچے کھچے کام انکا انتظار کر رہے تھے۔
خیر جناب! شناختی کارڈ تو آپ نے بنوالیا مگر اب آپ ہروقت نادرا والوں ،
انکم ٹیکس والوں اور حکومت کی جیب میں ہیں کہ وہ جب چاہے آپکا کچا چٹھا
معلوم کر سکتے ہیں۔سنا ہے کہ ایک نئی طرح کی چپ والے کارڈ مارکیٹ میں لانے
کی کوشش کی جارہی ہے جسکی رو سے ہر بندے کے بارے میں ہر وقت پتہ چلتا رہیگا
کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ لہذا Beware ، رات کو
کبھی یہ کارڈ جیب میں رکھ کر نہ سوئیں۔ ورنہ۔۔۔۔ایبٹ آباد آپریشن کی طرح
آپکے گھر پھر بھی کسی بھی وقت اٹیک ہو سکتا ہے! |