ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاچن گلیشیر کے علاقے میں پاکستان اور بھارت کے
مابین تنازعہ فوجیوں کی جانیں تو لے ہی رہا ہے، اس سے ماحول پر بھی تباہ
کُن اثرات پڑ رہے ہیں۔ سیاچن گلیشیر کے قریب ہفتے کو پاکستانی فوج کے کیمپ
گیاری کو صبح سویرے برفانی تودے نے آ لیا تھا، جس کے نتیجے میں وہاں موجود
124 فوجی اور 11 سویلین دب کر رہ گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بڑی
تعداد میں فوج کی موجودگی سے گلیشیر تیزی سے پگھل رہا ہے۔ اسی وجہ سے وہاں
سے پھوٹنے والے دریاؤں میں زہریلے مادے بھی شامل ہو رہے ہیں۔
|
|
اسلام آباد میں سَسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی
آئی) کے فیصل ندیم گورچانی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 35 برسوں میں یہ گلیشیر دس
کلومیٹر تک سُکڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’گلیشیر کے سُکڑنے کے اس عمل کی
نصف وجہ وہاں فوج کی موجودگی ہے۔
پاکستانی ہائیڈرولوجسٹ یا ماہرِ مائیات اور سیاچن کے ماہر ارشد عباسی کا
کہنا ہے کہ وہ علاقے اس قَدر بری طرح متاثر نہیں ہوئے، جہاں فوج موجود نہیں
ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’سال 1984سے یہ گلیشیر 30 فیصد تک پگھل چکا ہے جبکہ
پاکستان کی طرف قراقرم کے بیشتر گلیشیر پھیل چکے ہیں۔‘‘
|
|
گورچانی کہتے ہیں کہ اس علاقے میں فوجیوں کی نقل و حرکت، تربیتی مشقوں اور
انفراسٹرکچر کی تعمیر سے گلیشیر تیزی سے پگھل رہا ہے۔
فوجی کیمپوں سے پیدا ہونے والا کچرہ اور فضلہ بھی بڑا مسئلہ ہے، جس سے وہاں
کے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے لیے
بھی خطرہ بنا ہوا ہے، جن کے پانی پر برصغیر کے کروڑوں عوام کا انحصار ہے۔
سٹینڈ فورڈ انوائرمنٹل لاء جرنل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی
ماہر Neal Kemkar کہتے ہیں: ’’بھارتی عسکری حکام کے مطابق سیاچن دنیا کا سب
سے بڑا اور سب سے بلندی پر واقع کچرے کا ڈھیر ہے۔‘‘
|
|
ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ماحول کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی خطرہ
ہے، جن میں معدوم ہوتے ہوئے جانور برفانی تیندوا، بھورا ریچھ اور جنگلی
بکری کی ایک قسم آئی بیکس بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں عالمی ماحولیاتی ادارے IUCN کے اندازوں کے حوالے سے بتایا گیا
ہے کہ سیاچن گلیشیر پر صرف بھارت کی جانب ہی نو سو کلو گرام انسانی فضلہ
یومیہ دریاؤں میں شامل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی فوجی کیمپ میں برفانی تودے کی زد میں آنے والے
افراد میں سے کسی کے زندہ بچنے کی کوئی اُمید دکھائی نہیں دیتی۔ 1984ء سے
پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ تنازعہ شروع ہونے سے لے کر اب تک اس علاقے
میں آٹھ ہزار فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ |