سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملے
نے پوری قوم جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے پوری قوم غم و گ غصے میں پاگل ہو رہی ہے
اور ابھی تک اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے ۔ اسکے 26 جوا نوں کی شہادت
نے اسے بڑا جذباتی بنا رکھا ہے ۔وہ ملکی سالمیت کے خلاف امریکی جارحیت پر
امریکی جارحیت کا بدلہ لینے کےلئے بے تاب ہے لیکن اسے کو ئی راہ سجھائی
نہیں دے رہی۔ اس واقعے کے خلاف پر زور قومی احتجاج فوج اور وطن سے اسکی
محبت کا آئینہ دار ہے۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے
اغراض و مقاصد کیا تھے اور اس حملے سے نیٹو کیا حاصل کرنا چاہتا تھا۔سب کی
نظریں پارلیمنٹ پر مرکوز ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔ اس بات میں تو کوئی
دو رائے نہیں کہ قبائلی علا قوں میں طالبان کی موجودگی اور ان کی آﺅ بھگت
ایک اٹل حقیقت ہے اور ہمیں اسے تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہو گا ۔ قبائلی
علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے اہم راہنما چھپے ہو ئے ہیں جہاں سے وہ
اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہو ئے ہیں جن کے خلاف امریکی افواج بر سرِ
پیکار ہیں۔ امریکہ کو شکائت ہے کہ پاکستان ان دھشت گروں کے ساتھ ملا ہوا ہے
جس سے امر یکہ کو اپنے اہداف کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے۔امریکہ کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان ان دھشت گردوں کے خلاف قبائلی علاقوں
میں ایک گرینڈ آپریشن کرے جسطرح کا آپریشن اس نے سوات میں کیا تھا تاکہ ان
دھشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے لیکن پاکستان اس سے پہلو تہی کر رہا ہے۔ ا
مریکہ کو شکائت ہے کہ پاکستان شدت پسند طالبان کے خلاف اس طرح حرکت میں
نہیں آرہا جسطرح اسے حرکت میں آنا چاہیے ۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان کچھ
غلط فہمیوں نے جنم لے رکھا ہے جسکی وجہ سے انکے درمیان عدمِ تعاون کی خلیج
دن بدن گہری ہوتی جا رہی ہے جو پاک امریکی تعلقات کو بری طرح سے مجروح کر
رہی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلقات کو مضبوط بنانے کےلئے کسی
ایسی راہ کا انتخاب کیا جا ئے جس سے کئی دہائیوں پر محیط یہ تعلقات ایک
دفعہ پھر معمول پر آجائیں۔ قبائلی علاقوں میں طالبان کی موجودگی اور دھشت
گرد کاروائیوں میں انکی مدد ایک اٹل حقیقت ہے اور ہمیں اسے تسلیم کر کے آگے
بڑھنا ہو گا تاکہ پاک امریکی تعلقات کو بچانے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔۔۔
میں ان لوگوں سے بالکل متفق نہیں ہوں جو پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کو
ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور
ہے اور پوری دنیا پر اسکا سکہ چلتا ہے لہذا ہمیں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا
نا چا ئیے جس سے اس تاثر کو ہوا ملے کہ ہم امریکہ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
پاکستان کو ا س حقیقت کو کبھی بھی فراموش نہیںکرنا چائیے کہ اسکی مغربی
سرحدوں پر اسکا ازلی دشمن بھارت ساری صورتِ حال کا بڑی گہر ی نظر سے جائزہ
لے رہا ہے اسکی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ
پیدا ہو تا کہ اسے امریکی اشیروا د سے اس علاقے میں اپنی من مانی کرنے کے
مواقع میسر آ جا ئیں ۔ اسکا واحد قصد اکھنڈ بھارت کا خواب ہے اور اس خواب
کی تعبیر صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ امریکہ ہمارے مدِ مقابل کھڑا ہو جائے۔
امریکی دشمنی سے ہمارے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائینگی ہمیں مغر بی اور
مشرقی سرحدوں پر کئی محاذوں پر ایک ہی وقت میں سرگرم ہونا پڑے گا جسکے ہم
متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہماری فوج اتنی طاقتور نہیں کہ وہ دنیا کی ان دو
طاقتوں سے بیک وقت نبرد آزما ہو سکے۔ہمیں اتنا وزن اٹھا نے کی کوشش کرنی
چاہیے جسے ہم آسانی سے اٹھا سکیں۔ ہم نے اس سے قبل بھی جذباتیت میں آدھا
ملک گنوا دیا تھا لہذا اسطرح کی غلطی کو دوبارہ دہرانا ہمارے لئے ممکن نہیں
ہے۔ امریکہ ہمارا اتحا د ی ہے اور ہمیں اپنے ا تحادی کے ساتھ اعتماد کی فضا
قائم کرنی ہو گی۔ ڈبل کراس کرنا اور چا لاکی کا مظا ہرہ کرنا کبھی کبھی
مہنگا بھی پڑ جاتا ہے اور گلے کا پھندہ بھی بن جاتا ہے لہذا ہمیں دوغلے پن
سے پرہیز کرنی ہو گی تا کہ امریکہ کے اس عدمِ اعتماد کو جو اامریکہ ہمارے
سا تھ کر رہا ہے اس میں کمی لا ئی جا سکے۔ جنرل پرویز مشرف کا سارا دور اسی
طرح کی دوغلی پالیسیوں کا غماض تھا جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔
پاکستان اور امریکہ میں کسی لحا ظ سے بھی برابری کا کوئی تصور نہیں کیا جا
سکتا ۔ امریکہ کے ساتھ ٹیکنا لوجی اور جدید جنگی سازو سامان اور مہارت میں
موازنہ کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ سپر پاور اور ترقی پذیر
ممالک کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ امریکہ ٹیکنالوجی، طاقت اور مہارت میں ہم
سے کوسوں آگے ہے اور ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہو نا چائیے۔ ہمیں اس بات کو
بھی فراموش نہیں کرنا چائیے کہ امریکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کی پیٹھ بھی
تھپتھپا رہا ہے اور ہمارے خلاف اس کے جذبات کو ہوا بھی ے رہا ہے ۔ مذہبی
پیشوائت بھڑکوں اور کھوکھلے نعروں سے ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے گی تا
کہ تصادم نا گزیر ہو جائے اور موجودہ حکومت کی چھٹی ہو جائے اور انھیں
حکومت سازی کے معاملات میں کوئی اہم کردار میسر آجائے۔مذہبی پیشوائت تو ہمہ
وقت حالتِ جنگ میں ہوتی ہے۔ اس کےلئے انتشار۔ بد امنی اور جنگ و جدل اسلام
کے احیا کی علامتیں ہیں لہذا وہ باہمی ٹکراﺅ کے موا قعوں کی تلاش میں ر ہتی
ہے تا کہ اسکا کام آسان ہو جائے۔ اسکے نزدیک امریکہ سے جنگ کفر اور اسلام
کی جنگ ہے جسے ہمیں ہر حال میں لڑنا ہو گا۔ان کے بقول اس جنگ میں امریکہ کی
شکست یقینی ہے کیونکہ ہم حق پر ہیں لہذا ہمیں اللہ کا نام لے کر امریکہ کے
سامنے ڈٹ جانا چاہیے تا کہ اسلام کی حقانیت کو دنیا پر ثابت کیا جا سکے۔
ہمیں اس بات کا احساس ہو نا چاہیے کہ اخباری بیانات، بھڑکوں اور جھک مارنے
سے قومیں تشکیل نہیں پاتیں لہذا خوابوں سے باہر نکلنا ہو گا اور حقائق کا
سامنا کرنا ہو گا ۔ ہمیں اپنے پرانے تصورا ت کو بدلنا ہو گا کیونکہ پرانے
تصورات وقت کی بے رحم دھار پر زیادہ دیر ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے۔ ہمیں یہ
فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی خود مختاری کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں اور اس ھدف
کے حصول میں کون ہمارا ممدو معاون ہو سکتا ہے؟
ایک نکتہ بڑ اہم ہے کہ ہر دفعہ پاکستانی فوج اور اسکے متعلقہ ادارے ہزیمت
سے دوچار کیوں ہو تے ہیں اور انھیں جگ ہسائی کا سبب کیوں بنا پڑتا ہے۔ پاک
فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے لیکن سیاسی معاملات میں دلچسپی کی وجہ
سے پاک فوج اس فرض سے اغراض برت رہی ہے۔ہماری فوجی جنتا کا پہلا کام منتخب
حکمرانوں کو نیچا دکھانا اورانکے خلاف ثبوت اکٹھے کر کے انھیں اقتدار سے بے
دخل کر نا رہ گیا ہے۔ حکومت پر قبضہ کرنے کا جنون ذہنوں میں بھر جائے تو
پھر ملکی سرحدوں کی حفاظت کا فرض پورا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کو ئی لاکھ
برامانے لیکن برا ماننے سے سچائی تو نہیں بدل سکتی اور سچائی یہی ہے کہ
فوجی جنتا ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ۲ مئی کو ایبٹ
آباد میں ایسا ہی ہوا تھا۔ امریکی فوج نے پاکستانی فوج کو اعتماد میں لئے
بغیر اپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو قتل کردیا اور پھر اس کی لاش کو سمندر
کی بے رحم لہروں کے حوالے کر دیا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ ۲ مئی
کو پاکستانی سرزمیں پر امریکی دھاوا پاکستان کی خود مختاری پر سنگین حملہ
تھا لیکن ہم نے وہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا اور امریکہ کو پھر بھی کو ئی وا
ضح پیغام نہ دیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر
شجاح پاشا پر بڑا سخت دباﺅ تھااور اسکے استعفے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا
لیکن پھر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی دانش سے صورتِ حال کو خراب ہو نے
سے بچا لیا اور یوں جنرل شجاع پاشا مستعفی ہو تے ہوتے رہ گئے۔ 26 نومبر کو
سلا لہ چیک پوسٹ پر حملے نے ایک دفعہ پھر ہماری جگ ہنسائی میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی۔ پاک فوج کی جراتوں کو جس طرح اس واقعے نے زک پہنچائی ہے وہ
تصور سے باہر ہے۔ اسمیں شک وشبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ ہم سلالہ چیک
پوسٹ پر حملے کے بعد دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ اقتدار پر شب
خون کی واردات پہلی ترجیح بن جائے تو پھر پیشہ وارانہ مہارت شدید متاثر ہو
تی ہے ۔ ہماری ٹیکنالوجی کا یہ حال ہے کہ دشمن ہماری سرحدی چوکیوں کو تباہ
و برباد کر کے چلا جاتا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی کہ اتنا اہم واقعہ
رونما ہو گیا ہے۔ ہمیں اس وقت پتہ چلا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔لیکن ہمیں پھر
بھی ضد ہے کہ ہم تیرِ نظر دیکھیں گئے زخمِ جگر دیکھیں گئے۔
کیا یہ چھوٹا واقعہ ہے کہ نیٹو کی افواج نے بمباری کر کے ہمارے26 جوانوں کو
شہید کیا ہے جس نے افواجِ پاکستان کے مورال، دبدبے اور نام پر بد نما دھبہ
لگا دیا ہے۔ پاکستان نے بار ہا یہ اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں
نہیں ہے لیکن پھر دنیا نے ۲ مئی کو دیکھا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں
موجود تھا۔ اپنے سراغ رسانوں کے ذریعے امریکہ نے اسامہ بن لادن کا موجودگی
کا تعین کرنے کے بعد تنہا آپریشن کا فیصلہ کیا کیونکہ اس سے قبل امریکہ نے
جب بھی پاکستان کو اعتماد میں لےکر کوئی آپریشن کرنے کی کوشش کی وہ ناکامی
سے ہمکنار ہوئی کیونکہ پاکستان اس اطلاع کو صفِ عدو تک پہنچا دیتا تھا اور
یوں آپریشن دھرا کا دھرا رہ جا تا تھا لیکن ۲ مئی کو امریکہ نے خاموشی سے
تنِ تنہا سب کچھ کرنے کا فیصلہ کر کے پاکستان کی خود مختاری کو پاﺅں تلے
روندھ ڈالا ۔ پاکستان نے ہمیشہ سچ کو چھپانے کی کوششیں کی ہیں جسکی وجہ سے
دنیا ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ القاعدہ کا سب سے بڑا
راہنما اسامہ بن لادن ہمارے ہی گھر سے بر آمدہوا تھا اور ہم اسکی موجودگی
سے مسلسل انکار کر رہے تھے۔ جھوٹ کی بھی کوئی حد ہو تی ہے لیکن ہم نے ساری
حدیں عبور کر رکھی تھیں ۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کی موجودگی کو کنفرم کیا
اور جب ہر شہ کی منصوبہ بندی ہو گئی تو پھر امریکی کما نڈوز نے ڈائریکٹ
ایکشن کر کے اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا اور پاکستان کا ایک ایسا چہرہ
دنیا کو دکھانے کی کوشش کی جو دھشت گردوں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ہمارے ہمسائے
بھارت نے اس بات کو بڑا اچھالا کہ پاکستان دھشت گردی کو پروان چڑ ھا رہا ہے
لہذااسکے ہاں چھپے ہوئے دھشت گردوں کے اڈوں پر ہمیں بھی بمباری کرنے کی
اجازت دی جائے کیونکہ ہمیں انکی سرگرمیوں سے خطرہ ہے لیکن امریکہ نے اس حد
تک جانے سے گریز کیا لیکن اگر ہماری حالت یہی رہی تو پھر وہ صورتِ حال بھی
پیدا ہو سکتی ہے جب امریکہ بھارت کو ایسا کرنے کی اجازت مرحمت فرما سکتا ہے
لہذا ہمیں اپنی اس روش اور سوچ میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہونگی ۔ |