کام کا دباؤ کیمیائی تبدیلیاں لاتا ہے

ایک نئی تحقیق کے مطابق اعصابی دباؤ والی ملازمت براہ راست آپ کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جس سے امراضِ دل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

امراض قلب کے جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہونی والی یہ تحقیق برطانیہ میں کام کرنے والے ایک ہزار سرکاری ملازمین کے طبعی مطالعے پر مبنی ہے۔

پچاس سال سے کم عمر کے جن افراد کا کہنا تھا کہ ان کا کام ذہنی دباؤ والا ہے، تحقیق کے مطابق ان کے دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے امکانات عام لوگوں کی نسبت تقریباً ستر فیصد زیادہ تھے۔

تحقیق کے مطابق اگرچہ یہ بات عام مشاہدہ میں ہے کہ اعصابی دباؤ میں آپ ورزش اور اچھی خوراک کا دہیان نہیں رکھ سکتے لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ دباؤ سے آپ کے جسم میں اہم کیمیائی تبدیلیاں بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

لندن میں برطانوی سرکاری دفاتر کے مرکز وائٹ ہال میں کام کرنے والے ملازمین پر کی جانے والی اس تحقیق کا آغاز انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ہوا تھا اور اس میں ہر سطح کے ملازمین کو شامل کیا گیا
 تاہم جہاں تک حالیہ نتائج کا تعلق ہے اس کے لیے ملازمین کا مشاہدہ انیس سو پچاسی سے کیا جا رہا ہے۔

اس دوران نہ صرف ملازمین سے پوچھا جاتا رہا کہ وہ کام کا کتنا دباؤ محسوس کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے ان کی دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور ان کے خون میں
 کارٹیسول نامی ہارمون کی مقدار کا جائزہ بھی لیا جاتا رہا۔ واضح رہے کہ کارٹیسوسل وہ ہارمون ہے جو ذہنی دباؤ کی صورت میں نکتا ہے۔

اس کے علاوہ تحقیق کرنے والی ٹیم نے خوراک، ورزش کرنے یا نہ کرنے، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے متعلق ملازمین کی جوابات کو بھی مدنظر رکھا۔

ان عوامل کو مدنظر رکھنے کے بعد اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ مذکورہ ملازمین میں سے کِس قدر کو دل کے امراض لاحق ہوئے، کس قدر کو دل کے دورے پڑے اور ان میں سے کِتنے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ترانی چنڈولا کا کہنا تھا کہ بارہ برس تک ان ملازمین کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کام کے مسلسل دباؤ اور امراض قلب کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے اور یہ تعلق پچاس برس سے کم کے مردوں اور خواتین میں زیادہ واضح ہے۔

پچاس برس سے کم عمر کے ملازمین کے برعکس ریٹائرمنٹ کے قریب کی عمر کے لوگوں میں کام کا دباؤ کم ہونے کی وجہ سے امراض قلب کے امکانات کم پائے گئے۔

بایولوجیکل عوامل
جن افراد کا کہنا تھا کہ ان کی نوکریاں ذہنی دباؤ والی ہیں، ان کے معاملے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ مناسب مقدار میں سبزیاں اور پھل بھی نہیں کھاتے اور ورزش
 بھی کم ہی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس سے انکار نہیں کہ طرز زندگی اور امراض قلب میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے، لیکن اب وہ پُراعتماد ہیں کہ انہیں کیمیائی تبدیلوں کا بھی علم ہو گیا ہے جو ذہنی دباؤ کو بیماری سے جوڑتی ہیں۔

اگرچہ ہر کسی کا کہنا ہے کہ جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں اور بیماری میں تعلق ہوتا ہے لیکن اس تعلق کو ثابت کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ اس تحقیق کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کیمیائی تبدیلیوں کا طرز زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

تحقیق کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ذہنی دباؤ اعصابی نظام کے اس حصے میں گڑ بڑ پیدا کر دیتا ہے جو دل کو کنٹرول کرتا ہے، اسے بتاتا ہے کہ اسے کیسے کام کرنا ہے اور جو اسکی دھڑکن میں اتار چڑہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے۔

جن افراد کو ذہنی دباؤ کی شکایت تھی ان میں دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے والے عمل ’ویگل ٹون‘ کی کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔


مسلسل دباؤ اور امراض قلب کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے

ملازم کا درجہ
اگرچہ تحقیق میں کم عمر کے ملازمین کے امراض قلب شکار کا شکار ہونے کے خطرات زیادہ دکھائی دیے، تاہم کسی ملازم کی دفتر میں حیثیت اور امراض کے درمیان کوئی تعلق دیکھنے میں نہیں آیا۔ ماضی کی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ نچلے درجوں میں کام کرنے والے ملازمین کے بیمار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ برٹش ہارٹ سوسائٹی نے تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ہمارے اس علم میں اضافہ ہوا ہے کہ دفر میں ذہنی دباؤ سے ہمارے جسم میں کس قسم کی کیمیائی تبدیلیں آ سکتی ہیں۔ تاہم تنظیم کا کہنا تھا کہ ذہنی دباؤ سے کامیابی سے نمٹنے کے کئی طریقے موجود ہیں، مثلاً خود کو مستعد اور فِٹ رکھنے سے ذہنی دباؤ میں بھی کمی کی جا سکتی  ہے جس سے امراض قلب کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: