ڈاکٹر صلاح الدین عبد الحلیم
سلطان
مستشار شرعی ۔۔ مملکت بحرین
ترجمہ: ابوالاعلیٰ سید سبحانی
۱۔ سورہ الحشر کے ساتھ خاص بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا اور اختتام ایک ہی
انداز میں ہے، کہ کائنات اللہ کی تسبیح میں مشغول ہے، اور تمام تعریفیں اور
قوت واقتداراللہ کے ہاتھ میں ہے، اسی طرح یہ سورہ یہود اور مومنوں کے
درمیان کشمکش کی مناسبت سے اہم آغاز اوراختتام رکھتی ہے، یہ واحد سورہ ہے
جس میں حشر کے مقام اور یہودیوں کے آہنی قلعوں کاذکر ہے، اسی طرح فئی کے
فقہی معنی بھی اسی سورہ میں بیان ہوئے ہیں، مال ودولت کی مبنی برعدل تقسیم
کا بھی اسی سورہ میں ذکر آیا ہے کہ مال ودولت اہل ثروت کے درمیان گردش کرتا
نہ رہ جائے، اسی طرح نادار مہاجرین کا تذکرہ ہے اور انصار کی دادودہش کا جو
ایثار کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی، اسی طرح منافقین اور یہود کے درمیان ہونے
والے معاہدے کی دفعات بھی تفصیل سے بیان ہوئی ہیں، قرآن کے بارے میں کہا
گیا کہ اگر اس کو کسی پہاڑ پر نازل کردیا جاتا تو وہ اس کی ہیبت سے پھٹ
پڑتا، اس سورہ کا اختتام بھی انوکھے انداز سے ہے کہ تینوں آیات ایک ہی
انداز سے ھواللہ کے ذریعہ شروع ہوتی ہیں، نبیﷺ نے صبح وشام ان تین آیات کی
تلاوت کی جانب ترغیب دلائی ہے۔
۲۔ مومنین اور یہودومنافقین کے درمیان معرکہ ربانی معرکہ ہے، یہ منہج پوری
سورہ میں نظر آتا ہے، دیکھتے ہیں کہ اس مختصر سورہ کے اندر اللہ تعالی اپنی
ذات برتر کا نوے مرتبہ ذکر کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے ساتھ معرکہ
کی تمام تدابیر اللہ کی جانب سے ہوتی ہیں، وہ حکمت اور قوت کا مالک ہے،
پوری کائنات اس کے لیے تسبیح کناں ہے، اسی نے یہود کو جلاوطن کیا، ان کے دل
میں رعب ڈالا، ان کی ایسی پکڑ کی کہ ان کو اس کا اندازہ بھی نہیں تھا،
دنیااور آخرت میں وہ انہیں عذاب سے دوچار کرے گا، ان کی سخت سرزنش کی جائے
گی، اسی نے ان کے درخت کاٹنے اور جلاکر خاکستر کرنے کاحکم دیا تھا، وہی ہے
جس نے جنگ کے بغیر مال غنیمت سے نوازا، وہ جس پر چاہتا ہے اپنے رسول کو
تسلط عطا فرماتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اسی نے مومنین کو تیار کیا اور
ان کو اس درجہ پر پہنچایا کہ وہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں، اللہ
اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اپنے
اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ خود کسی بھی تنگ حالی کے شکار ہوں۔
اپنے بعد اور پہلے آنے والے مومنین کے لیے دعا گو ہوتے ہیں، اللہ رب العزت
ہی تو ہے جس نے منافقین اور یہود کے بیچ ہوئے معاہدہ کو بے نقاب کردیا،
مومنین کو اطمینان دلایا کہ منافقین کبھی بھی یہودی سرداروں کی مدد نہیں
کرسکیں گے، ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ مومنین کا خوف بیٹھا ہوا ہے، وہ
شیطان کی طرح ہیں۔ اللہ تعالٰی مومنین کو تقویٰ کی دولت سے مالامال کرے گا
جس سے وہ اس کی مدد اور نصرت اور آخرت کی کامیابی کے مستحق ہوجائیں گے، اسی
نے قرآن نازل فرمایا، جو ہر بھلائی کی کلید ہے، اس کے بعد ان آیات پر اس
سورہ کا اختتام ہوا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام ہی قوتوں کا مالک اللہ رب
العالمین ہے۔
۳۔ ہم جمہور مفسرین اور اصولیوں سے اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ فَاعْتَبِرُوا
يَا أُولِي الْأَبْصَارِ سے اعتبار اور قیاس پر استدلال کرتے ہیں، یہود کا
خیال تھا کہ ان کی آہنی دیواریں ان کو محض مومنین ہی سے محفوظ نہیں رکھیں
گی بلکہ اللہ سے بھی ان کو محفوظ رکھیں گی، مومنین بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ
ان کو شہر بدر کرنا محال ہے، لیکن اللہ نے وہ کچھ کردکھایا جس کی ان کو
امید بھی نہیں تھی، وہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اور پھر مومنین کے ہاتھوں سے
اپنے گھروں کو مسمار کرنے لگے، اس طرح اللہ نے ان کو ان کے گھروں سے نکال
باہر کیا، اس آیت کے اختتام پر فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
کاذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جو عہد نبویﷺ میں ہوا تھا وہ انشاءاللہ
پھر ہوکر رہے گا، بس ضرورت ہے کہ مومن اللہ پر اعتماد اور یقین رکھیں کہ ان
کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ان کے اسلاف کے ساتھ ہوا تھا، لیکن شرط
یہ ہے کہ اسی راستے پر چل کردکھائیں جس راستے پر اللہ کے رسول اور ان کے
صحابہ نے چل کر دکھایا ہے، ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو اللہ کا قانون قیاس
واعتبار حرکت میں آئے گا اور مومنین کو جہاں اس سے اطمینان قلب نصیب ہوگا
وہیں ظالم لوگ مچل کر رہ جائیں گے۔
۴۔ ہر کسی انسان کے اندر محبت ونفرت، ترغیب وترہیب کا فطری احساس پایا جاتا
ہے، اللہ کا رحم وکرم ہے کہ اس نے انسان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنی
فطرت سے مکمل طور پر بازآجائے، بلکہ اس کے احساسات وجذبات کو ایک رخ پر ڈال
دیا کہ وہ مومنین سے محبت کریں اور ظالم لوگوں کے سامنے آہنی دیوار بن
جائیں، ساری انسانیت کے دشمن کی شناخت اجتماعی امن کے حصول کے لیے بنیادی
شرط ہے، ورنہ تو پھر انسان خود اپنے گھربار اور وطن کا دشمن بن جاتا ہے۔
۵۔ سورہ حشر میں صاف انداز سے اس بات کو بیان کردیا گیا کہ مومنین کے تین
دشمن ہیں، یہود،منافقین اور شیطان۔ یہ سب مومنین کو گمراہ کرنے، تکلیف
پہنچانے اور ان کے ساتھ ظلم وتشدد کا معاملہ کرنے کے لیے متحد رہتے ہیں۔
۶۔ دشمن کی شناخت کے منہج کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف دشمن کا نام ہی جاننے پر
اکتفاءنہ کریں، بلکہ اس کی صفات، اس کی حرکات سے بھی واقفیت رکھیں، اس سے
ظالموں کی چالوں سے گہری واقفیت ہوگی اور مومنین ان کے مقابلہ کے لیے تیار
ہوجائیں گے۔
۷۔ سورہ الحشر میں پہلا دشمن یہود کو کہا گیا ہے، اللہ نے ان کے لیے
دومرتبہ کفر کا لفظ استعمال کیا ہے، میں نے کتاب میں تفصیلی اور قطعی دلائل
اور توریت اور تلمود کے انحرافات سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالٰی اور فرشتوں
کے سلسلہ میں ان کا عقیدہ حددرجہ انحطاط کا شکار ہے، انبیاءکے سلسلہ میں ان
کا عقیدہ کافی حد تک اپنے اندر پستی رکھتا ہے، اس کے علاوہ ان کی یہ خام
خیالی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں اور دوسروں پر وہ نسلی امتیاز رکھتے ہیں۔
۸۔ قرآن میں 24 مرتبہ غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس میں اکثر کا ستعمال
یہود کے سلسلہ میں ہوا ہے،، قرآن مجید میں غضبان کا لفظ صرف موسیؑ کی جانب
منسوب ہوکر آیا ہے، اسی طرح یہود قتل اور عہد شکنی کے نتیجے میں عمومی غضب
کے اولین درجہ پر ہیں۔
۹۔ مسلمانوں کے سب سے خطرناک دشمن منافقین ہیں، جو ان کی اندرونی صفوں میں
پائے جاتے ہیں، مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں، تاہم ان کی دلی دوستی، فکری
وابستگی اور مستقبل میں ان کا انجام سب کچھ یہودیوں کے ساتھ وابستہ ہے، وہ
یہود کے لیے مسلمانوں کے خلاف آنکھ، زبان اور ہاتھ پیر سب کچھ بن جاتے ہیں،
سورہ الحشر کے اندر منافقین اور یہود کے درمیان پائے جانے والے اس مضبوط
رشتے کو بیان کیا گیا ہے، ساتھ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس سب دوستی اور
محبت کے باوجود وہ غدار اور دھوکہ بازہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ یہود کا
حال ہے، اور ان کا حال یہ ہے کہ اللہ سے بھی زیادہ مومنین سے سہمے ڈرے رہتے
ہیں۔
۱۰۔ رسولﷺ کے ساتھ پیش آئے ان منافقین کے نوواقعات بیان ہوئے ہیں، ان سب سے
معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے ساتھ کس درجہ خیانت کا رشتہ رکھتے تھے، ظاہر
یہ کرتے تھے کہ مسلمانوں کے دوست ہیں جبکہ ہر عہد میں انہوں نے اللہ کے
دشمن یہود اور منافقین کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائے رکھیں۔
۱۱۔ تیسرے دشمن شیاطین ہیں، وہ بتدریج انسان کو کفر تک لے جاتے ہیں اور پھر
انسان سے اظہار برات کردیتے ہیں، ان کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو
اپنے ساتھ جہنم کے راستے کی طرف بلاتے ہیں، شیطان نے تو اللہ کے ساتھ سرکشی
کی اور سجدے سے انکار کردیا تھا، اس کے بعد اللہ سے یہ عہد کرکے آیا ہے کہ
پوری انسانیت کو گمراہ کرے گا اور اس کام کے لیے اس نے خود کو پورے طور سے
لگارکھا ہے، لہذا بہت ہی بیدار مغزی کی ضرورت ہے، تاکہ خیر کے کام کرنے سے
پہلے، درمیان اور بعد میں اس کی جانب سے دل میں ڈالے جانے والے وسوسوں کا
مقابلہ کیا جاسکے، وہ تو چاہتا ہے کہ انسان اور اس کے رب کے درمیان پائے
جانے والے رشتے کو مکدر کردے اور اس کو خواہشات نفسانی اور شیطان کا غلام
بناڈالے۔
۱۲۔ یہود، منافقین اور شیطان کی صفات میں بہت کچھ یکسانیت بھی پائی جاتی
ہے، ان کے درمیان مومنوں کے خلاف باہم ایک عہد ہے کہ ان کو زدوکوب کیا جائے
اوران کے لیے عرصہ حیات تنگ کردیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں سخت تیاری کی
ضرورت ہے۔
۱۳۔ کوئی بھی فرد مسلم اس بات میں شک نہیں کرسکتا کہ قرآن ان کی صفات پر جو
اس قدر زور دیتا ہے اس کا ایک ہی سبب ہے وہ یہ کہ وہ ہمارے لیے بہت ہی
خطرناک دشمن ہیں، ضرورت ہے کہ قرآن کی اصولی باتوں کو ہم موجودہ حالات میں
تطبیقی شکل دیں، اللہ کے دشمن یہود،منافقین اور شیطان کا مقابلہ کرنے کے
لیے تیار ہوجائیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ یہ ایک ربانی معرکہ ہے، جو
مومنین اور ان تینوں دشمن، یہود، منافقین اور شیطان کے درمیان جاری ہے، اس
میں کامیابی تو انہیں لوگوں کو ملے گی جو اللہ پر ایمان لائے ہیں تاہم اکثر
لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔
۱۴۔ صرف سورہ الحشر کی آیات کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ فئی کا فقہی معنی
مذکور ہے، ایک ایسے سیاق میں جس کے اندر یہود اور مومنین کے درمیان سخت
معرکہ کا ذکر ہے جس کا فوری نتیجہ یہ ہوا کہ یہود نے گھٹنے ٹیک دیئے، اپنے
گھر اور زمین جائدادکو چھوڑ دیا، ان کے آہنی قلعے ان کے عزائم کو کچھ بھی
تقویت نہیں پہنچا سکے، اور نہ ہی ان کے وہ دعوے کچھ کام آسکے کہ ان کی فوج
ناقابل تسخیر ہے، قرآنی سورتوں اور غزوات نبوی کے واقعات سے ثابت ہوگیا کہ
غزوات بنی نضیر، قینقاع اور قریظہ میں انہوں نے تلوار تک نہ نکالی، باوجود
اس کے کہ ان کے پاس تمام قلعہ اور ساز وسامان جنگ موجود تھا، اور جب خیبر
کے پہلے معرکہ میں جنگ کے لیے میدان میں آئے تو فوراَ ہی گھٹنے ٹیک دیے، اس
طرح قرآن وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دعووں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے،
ان کی تیاریوں کا خوف نہیں کھانا چاہئے، ان کی بزدلی اور گھبراہٹ پر یقین
رکھنا چاہئے، زندگی سے ان کی حددرجہ محبت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے، اللہ
کی توفیق شامل حال رہی تو ان پر نصرت اور غلبہ آسان ہوجائے گا۔
۱۵۔ فئی سے متعلق آیات کے ذیل میں ایک اہم اسلامی اورمعاشی اصول بیان ہوا
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ (تاکہ جو لوگ تم
میں دولتمند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔) میں نے اس آیت کو ایک
مرتبہ سیاق سے الگ کرکے دیکھا اور ایک مرتبہ سیاق کی روشنی میں دیکھا، اس
سے معلوم ہوا کہ آیت کے اندر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ جزئی احکام کا
یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ مال اہل ثروت کے درمیان گردش کرتا رہ جائے اور
فقراء اس سے محروم رہ جائیں، میں نے متعدد اعدادوشمار بھی بیان کیے ہیں، جن
سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ممالک اور افراد دونوں ہی کے درمیان کس
قدر خلا پایا جاتا ہے، بعض گنتی کے ممالک اور بعض گنتی کے افراد دنیا کی ۸۰
فیصد دولت پر قابض ہیں، جبکہ ہر پانچ سیکنڈ کے اندر اکیسویں صدی کی دنیا
میں ایک فرد موت کا شکار ہوجاتا ہے، اگر اس معنی کو یہود سے جنگ کے سیاق کی
روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دولت اہل ثروت کے درمیان ٹھہرجانے
اور جمع رہ جانے کا سبب یہی یہود ہیں، یہ تو ایک قدیم بات ہوئی تاہم آج بھی
ان کے پروٹوکول سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، عالمی اعدادوشمار اور عالمی
اقتصادیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود دنیا کی بیشتر معیشت اور میڈیا پر قابض
ہیں، اور اس کے ذریعہ وہ ایسی سیاسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جو ان کے
پروجیکٹ اور مقاصد کے لیےمعاون اور مفید ہوں، گرچہ اس کے نتیجہ میں کتنا ہی
عدم توازن پیدا ہوجائے، اقدار کا انحطاط ہونے لگے، اس طرح سورہ الحشر ایک
اہم معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ یہ کہ ان یہودیوں سے فلسطین میں قبضہ اور
تسلط، اور زمین میں فتنہ وفساد پھیلانے کے سبب جہاد کرنے کے بعد ہی آج کی
دنیا میں دوبارہ توازن کی بازیافت کے امکانات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ |