قدرتی آفات: تعداد اور شدت میں اضافہ


متاثر ہونے والے علاقوں میں بسنے والوں کے نزدیک اپنا علاقہ چھوڑنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی رہ گئی ہے: ماہر ماحولیات
نظامِ قدرت کے ساتھ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جس سے پچھلے دس سالوں کے دوران دنیا میں قدرتی آفات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس خدشے کا اظہارکرتے ہوئے برطانیہ میں مقیم بنگلہ دیشی ماحولیاتی سائنسدان سلیم الحق نے کہا کہ ان واقعات کی سائنسی وضاحت ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کی صورت میں ہی کی جا سکتی ہے۔

سلیم الحق انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج ( آئی پی سی سی ) کے ان سائنسدانوں میں شامل ہیں جن کی تیارکردہ رپورٹ کو اس سال نوبل پرائز کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
سلیم الحق گاؤں بھولا سے بنگلہ دیش کے دریاؤں کا سفر کرنے والی بی بی سی کی ٹیم کے ہمسفر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ بیس سے تیس سال کے لیے دنیا وقت کے ایک ایسے دورانیے میں قید ہوگئی ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونیوالی قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہیں ہوگا، چاہے قدرتی نظام کے لیے نقصاندہ گیسوں کا اخراج فی الفور صفرکر لیا جائے۔

سلیم الحق نے بتایا کہ سائنسی اعداد وشمار کی روشنی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پچھلے ایک سو سال کے دوران جتنی بھی قدرتی آفات آئی ہیں ان کی شدت میں حالیہ دس سالوں کے دوران تیزی آئی ہے۔ جو سیلاب پہلے بیس سالوں میں ایک دفعہ آتے تھے اب ہرپانچ سال بعد آنے لگ گئے ہیں۔

درجۂ حرارت میں اضافے سے گلیشئرز پگھل رہے ہیں، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ ہمالیہ کے وہ گلیشئرز جن کا پانی دریائے گنگا میں بہتا ہے آئندہ بیس سالوں میں اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
حالیہ اور ماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں فرق کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ صدیوں پر محیط غیرمحسوس قدرتی جغرافیائی عمل کے نتیجے میں رونما ہوتی تھیں جبکہ اب تیزی سے صورتحال بدل رہی ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ داری دنیا کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے، یہ اور بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے اس کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

سلیم الحق کے مطابق کسی ایک بین الابراعظمی پرواز کے نتیجے میں خارج ہونے والی کاربن کی فی کس مقدار کسی غیر ترقی یافتہ ملک کے ایک کنبے کے سال بھر میں کیروسین آئل (مٹی کا تیل) کے استعمال سے خارج ہونے والی کاربن کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحفظِ ماحول کے بین الاقوامی معاہدے کیوٹو پروٹوکول اور آئی پی سی سی کی تجاویز پر عملدرآمد میں امریکہ کی موجودہ بش انتظامیہ ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے لیکن ان پر عملدرآمد کے حتمی سال دو ہزار نو تک وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آ چکی ہوگی۔
امریکی طرزعمل کی وجہ سےگرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب دوسرے بڑے ممالک چین اور بھارت بھی کیوٹو پروٹوکول کے حوالےسے عدم تعاون کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

لیکن سلیم الحق نے اس امید کا اظہار کیا کہ جب امریکہ بھی تعاون پرآمادہ ہو جائے گا تو چین اور بھارت بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چین اور بھارت سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج اگرچہ امریکہ کے برابر ہے لیکن فی کس اعتبار سے امریکہ کا ریکارڈ دنیا میں سب سے برا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امیر ممالک میں رہنے والوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے لائف سٹائل کی وجہ سے غریب ممالک کے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بسنے والوں کے نزدیک اپنا علاقہ چھوڑنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی رہ گئی ہے۔

سلیم الحق کا کہنا تھا کہ دریائی اور ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کی وجہ سے ڈھاکہ اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح کے اعتبار سے دنیا کے بڑے شہروں میں سرفہرست ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: