زحمت میں رحمت

ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جس میں کوئی بھی چیز کسی بھی وقت مزاح کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے۔ ایک دور تھا جب مزاح فیصلے کے تحت لِکھا جاتا تھا یعنی لِکھنے والے کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ مزاح لِکھ رہا ہے اور پڑھنے والے بھی اُسے مزاح سمجھ کر محظوظ ہوں گے۔ مگر اب کسی بھی تحریر کے لیے کچھ اور ثابت نہ ہونے کی قید نہیں رہی۔

چند سال پہلے تک گھر گھر جاکر عوام سے مختلف معاملات پر آراءطلب کرنا رائے عامہ کا جائزہ لینا (سروے) کہلاتا تھا۔ اب یہ عمل مزاح کاری اور مزاح نویسی کے ذیل میں آتا ہے! بعض سروے اِس قدر اوٹ پٹانگ موضوع پر ہوتے ہیں کہ جن سے سوال کیا جاتا ہے وہ ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک ملک گیر سروے کے ذریعے صرف یہ معلوم کیا گیا کہ گرمیوں میں پاکستان کے باشندے شربت زیادہ پیتے ہیں یا لَسّی! معاملہ جب یہ ہو تو لوگ سروے کو دِماغ کی لَسّی نہ سمجھیں تو پھر کیا سمجھیں؟ سروے کرنے والے جب ہاتھ میں قلم اور کاغذ لے کر دروازے پر دستک دیتے ہیں تو دروازہ کھولنے والے کی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے کیونکہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ چند ہی لمحوں میں اوٹ پٹانگ سوالات سے اس کا بھیجا فرائی کرنے کی کوشش کی جائے گی!

سروے کے معاملے میں بھی پاکستانی اور بھارتی معاشرے میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ دونوں ہی معاشروں میں سروے کرنے والے ٹوپی سے کبوتر اور رومال سے انڈا نکال کر دِکھاتے ہیں! جن غریبوں کو حکومت بُنیادی سہولتیں ڈھنگ سے فراہم نہیں کرسکتی اور افراطِ زر کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دے پاتی، سروے کے ذریعے اُن کی تفریح طبع کا تھوڑا بہت اہتمام ضرور کرتی ہے! اِس اعتبار سے ہم سروے کو سوشل سبسڈی قرار دے سکتے ہیں!

ویسے تو خیر پورا بھارت ہی ہنسنے ہنسانے کے معاملے میں بھی خاصا مہان ہے مگر سروے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ گھر گھر جا کر سوالوں کی کُدال سے ایسا بھارت کھود کر نکالا جاتا ہے جسے خود وہ لوگ بھی مُشکل سے شناخت کر پاتے ہیں جن سے سوال کئے جاتے ہیں! بعض سوال تو ایسے ہیبت ناک ہوتے ہیں کہ سُن کر لگتا ہے دِلّی سرکار عالمگیر حکمرانی کے حوالے سے بھارت کی ”شکتی کا انومان“ لگانے کی کوشش کی کر رہی ہے!

ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ بھارت کو جدید دور کے تقاضوں سے ہمکنار کرنے کی کوششیں خاصی مضحکہ خیز ثابت ہوئی ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر کی ترقی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ دِلّی سرکار کے بزرجمہر شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موبائل فون کے ذریعے آکسیجن بھی لی جاسکتی ہے اور کھانے پینے کی اشیاءبھی ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے! سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت کے 63 فیصد مکانات میں موبائل فون کی سہولت موجود ہے مگر 53 فیصد مکانات اب تک ٹوائلیٹ سے محروم ہیں! 85 فیصد گھرانے اب بھی لکڑی یا گوبر کے اُپلے جلاکر کھانا پکاتے ہیں۔ 20 فیصد بھارتی باشندے پینے کا پانی ایک کلومیٹر سے زائد فاصلے سے لانے پر مجبور ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ فاصلہ تقریباً دُگنا ہو جاتا ہے۔ بہار اور چند دوسری ریاستوں میں صرف 10 فیصد مکانات کو بجلی میسر ہے۔ 90 فیصد گھرانے آج بھی کمپیوٹر سے محروم ہیں۔ 20 کروڑ سے زائد بھارتی ریڈیو ہے، ٹی وی اور موبائل فون میسر ہے۔ مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش اور ناگا لینڈ میں ایک تہائی باشندے اِن تینوں سہولتوں سے محروم ہیں۔ مُلک بھر کے 52 فیصد مکانات ٹی وی سے محروم ہیں۔ 41 فیصد بھارتی مکانات رہائش کے قابل ہی نہیں۔ 30 فیصد سے زائد مکانات ایسے ہیں جن میں 6 سے زائد افراد سُکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شہروں میں صرف دو تہائی مکانات کو گیس کنکشن میسر ہے۔ اڑیسہ اور بہار میں 10 فیصد سے بھی کم گھرانوں کو گیس مل پائی ہے۔

سروے کی تفصیل سے مرزا تفصیل بیگ بہت متاثر ہوئے اور سنجیدگی کی چادر نے اُن کے چہرے کو اچھی طرح ڈھانپ لیا۔ ہم یہ سمجھے کہ شاید وہ شدید سنجیدگی کی حالت میں میں ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں! مرزا کا استد لال کچھ اور ہی تھا۔ بہت سی بُنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کو مرزا نعمتوں میں شمار کرتے ہیں! ہر وقت رابطے میں رہنے کی سہولت مرزا کی نظر میں عہدِ حاضر کی ایک بڑی لعنت ہے! سبب اِس کا یہ ہے کہ جب کبھی وہ دوستوں میں بیٹھ کر خوش گپیاں کر رہے ہوتے ہیں، دفتر سے بُلاوا آ جاتا ہے! یہی سبب ہے کہ مرزا موبائل فون کو وسیع تباہی کے ہتھیاروں میں شُمار کرتے ہیں! اُن کے خیال میں موبائل فون سے محروم 37 فیصد بھارتی گھرانے قابل رشک ہیں۔

مرزا کا کہنا ہے کہ تمام سہولتیں گھر بیٹھے اور آسانی سے میسر ہوں تو اِنسان کاہل، بلکہ بحرالکاہل ہو جاتا ہے۔ پینے کا پانی لانے کے لئے ایک کلومیٹر سے بھی زائد چلنے والے 20 فیصد بھارتیوں کو وہ خوش نصیب گردانتے ہیں کہ اِس بہانے اُن کی تھوڑی بہت ورزش ہو جاتی ہے!

دور سے پانی لانے کے ذکر پر مرزا نے روئے سُخن ہماری طرف کرلیا۔ ”گھر بیٹھے پینے کا صاف پانی میسر ہونے کے باعث تم بھی خاصے فربہ اندام ہوگئے ہیں۔ اگر روزانہ ایک کلومیٹر کے تین چار چکر لگاکر پانی لانا پڑے تو تم بھی اِتنے سلِم ہو جاؤ گے کہ شاید بولی وُڈ والے تمہیں کاسٹ کرنے پر غور کریں!“ مرزا تِنکے سے مماثل ہیں مگر باتیں بہت تگڑی اور دِل آویز کرتے ہیں۔ پانی بھرنے کے عمل کو بولی وُڈ سے جوڑ کر اُنہوں نے ہمیں وزن کم کرنے کی تھوڑی بہت تحریک ضرور دی ہے اور ہم اس حوالے سے کسی فیصلے کی ذہنی تیاری کر رہے ہیں!

20 کروڑ بھارتی باشندوں کے پاس ریڈیو، ٹی وی اور موبائل فون نہ ہونے کو مرزا دورِ حاضر کی چند بڑی نعمتوں کا درجہ دیتے ہیں۔ اُن کا اِستد لال ہے کہ یہ 20 کروڑ بھارتی باشندے یقیناً سُکون کی نیند سوتے ہوں گے، اپنے دیگر ہم وطنوں کے مانند رات گئے تک ٹی وی دیکھ کر بے خوابی کا شکار نہ ہوتے ہوں گے اور مزید بے خوابی پیدا کرنے کے لیے موبائل فون پر سستے پیکیج سے ”مستفید“ نہ ہوتے ہوں گے!

بجلی اور گیس سے محروم کروڑوں بھارتی بھی مرزا کی نظر میں خوش نصیب ہیں۔ ہم نے اعتراض کیا کہ بُنیادی سہولتوں سے محرومی میں کون سا فائدہ مضمر ہے۔ مرزا نے قدرے تاسّف کے ساتھ فرمایا۔ ”ہمارے ہاں لوگوں کو ہر ماہ بجلی اور گیس کے بل کی صورت میں منفرد جلاپا ملتا ہے۔ یہ بھی بھارتی حکومت کا احسان ہے کہ کروڑوں لوگوں کو بجلی اور گیس نہ دے کر اُن کی خون پسینے کی کمائی پر شب خون مارنے سے گریز کرتی ہے!

جب ہم نے بتایا کہ علاقائی سُپر پاور بننے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے بھارت کے 53 فیصد مکانات میں ٹوائلیٹ ہی نہیں تو مرزا ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئے۔ پھر جب حواس بحال ہوئے تو اُنہوں نے مہان بھارت کی مہان بُدّھی کو سراہنا شروع کردیا۔ ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ جس بھارت کے نصف سے زائد مکانات میں ٹوائلیٹ ہی کی سہولت میسر نہیں اُس کی ستائش چہ معنی دارد! مرزا نے وضاحت طلب لہجے میں فرمایا۔ ”تم قیامت تک بھارت کی مہانتا نہیں سمجھ سکو گے۔ گھر میں ٹوائلیٹ کا نہ ہونا بتاتا ہے کہ بھارت کے لوگ فِطرت اور حقیقت سے کِس قدر قریب ہیں۔ فِطرت کی پُکار پر آدھا بھارت فِطری ماحول سے ہم آہنگ اور ہم آغوش ہو جاتا ہے!“

ہم نے کہا ترقی کے دعوے کیا ہوئے؟ علاقائی سُپر پاور بننے کی کوشش میں سب کچھ داﺅ پر لگانے کے لیے آمادہ بھارت کے نصف سے زائد مکانات میں ٹوائلیٹ بھی موجود نہیں ترقی کا کیا وہ اچار ڈالے گا؟ مرزا ذرا بھی خفا نہ ہوئے بلکہ بڑے پیار سے اضافی وضاحت کی۔ ”جب گیس اور بجلی نہیں ہوگی تو کھانا بھی کم پکے گا اور لوگ جب کھانا ہی کم کھائیں گے تو ٹوائلیٹ کی ضرورت بھی کم کم پڑے گی! چانکیہ بُدّھی کو ماننا پڑے گا! ہم پاکستانی رات دن کھاتے پیتے رہتے ہیں اِسی لیے تو بیشتر گھروں میں دو دو تین تین ٹوائلیٹ ہیں۔ جگہ بچتی ہے تو دو ایک کمرے بھی بنا لیتے ہیں!“

مرزا نے یہ لاجواب نکتہ بھی ہمارے گوش گزار کیا کہ بھارت میں 30 کروڑ افراد ٹی وی کی سہولت سے محروم ہونے کی بدولت پیٹ کے مروڑ سے بھی بچے ہوئے ہیں۔ بیشتر پاکستانیوں کا ہاضمہ اُلٹی سیدھی ڈِشیں کھانے سے کم اور ٹی وی پر کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے سے زیادہ خراب ہوا ہے! اس کی توجیہہ مرزا یہ کرتے ہیں کہ بیشتر پاکستانی شام سے رات گئے تک طرح طرح کے ٹی وی پروگرام دیکھ سیاست کی گتھیوں میں اُلجھ جاتے ہیں۔ کرنٹ افیئرز کے پروگرام کا ہر اینکر زیادہ سے زیادہ سَنسَنی پھیلاکر لوگوں کے پیٹ میں مروڑ پیدا کرنے کا سامان کرتا ہے! اور کیوں نہ کرے؟ اِسی کام کے تو اُسے پیسے ملتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524596 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More