ترجمہ کا فن اور مولانا ابو الکلام آزاد

ایم فل مطالعات ترجمہ
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک جرٲتمند صحافی بھی تھے اور مفکّر بھی، مفسّر قرآن بھی تھے اور ادیب بھی، عربی زبان و ادب کے شناور اور رمز شناس بھی تھے اور فارسی کے نکتہ داں بھی، وہ صاحبِ قلم بھی تھے اور خطیبِ شعلہ بیاں بھی، وہ عظیم سیاسی قائد بھی تھے اور اردو زبان و ادب کے محسن بھی۔ مولانا نے اردو زبان و ادب کو بیان و اظہار کا دلکش اسلوب بھی دیا اور بے مثال نثر پارے بھی۔

مولانا نے ترجمہ کے میدان کو بھی مختلف پہلووں سے مالا مال کیا۔ انہوں نے اردو زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ کر کے اس فن کے ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ انہوں نے اصطلاحات سازی سےمتعلّق کئی اصول وضع کئے اور اصطلاحات سازی کے ذریعہ اردو ذخیرہٴ الفاظ کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ یہاں ترجمہ کے میدان میں مولانا کی خدمات کے بعض پہلووں کو پیش کیا جائے گا۔

مولانا آزاد کا ترجمۂ قرآن
مولانا نے قرآنِ کریم کے اٹھارہ پاروں کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ مولانا بنیادی طور پر عالمِ دین تھے۔ روایتی طور پر انہوں نے دین کا علم حاصل کیا اور اس کے بعد خود اپنے تدبّر و تفکّر سے اس پر اضافہ کیا ۔ انہوں نے اپنے تدبّر کے حاصل کو ترجمان القرآن کی شکل میں پیش کیا۔ مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو : "اللہ کے نام سے جو الرحمان اور الرحیم ہے۔ ہر طرح کی ستایش اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائناتِ خلقت کا پروردگار ہے، جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالامال کر رہی ہے، جو اس دن کا مالک ہے جس دن کاموں کا بدلہ لوگوں کے حصّےمیں آئے گا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں) مدد مانگتےہیں۔ (خدایا!) ہم پر سعادت کی سیدھی راہ کھول دے۔ وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تونے انعام کیا۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے"۔ (ترجمان القرآن ، ترجمہ سورۂ فاتحہ)۔

سورۂ فاتحہ کا یہ ترجمہ سلاست اور روانی سے بھر پور ہے۔ یہ روانی اور سلاست مولانا کے ترجمہ میں ہر جگہ یکساں معیار کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔

ترجمہ میں مداخلت کا نظریہ اور ترجمان القرآن
ترجمہ میں مداخلت (Interventions in Translation) مطالعاتِ ترجمہ کا ایک اہم عنوان ہے۔ متن کو اصل زبان سے ہدفی زبان میں منتقل کرنے کے دوران ، مفہوم کی ترسیل اور متن کو قابلِ فہم بنانے کے لئے مترجم کی طرف سے کیا جانے والا حذف و اضافہ ترجمہ میں مداخلت کہلاتا ہے۔ مداخلت کا یہ عمل موادِ مضمون سے متعلق بھی ہوتا ہے اور سماجی ، تہذیبی اور مذہبی عناصر سے متعلق بھی۔ مداخلت کے اس موضوع پر مختلف نظریہ سازوں جیسے جیروم ﴿405ء ﴾ اور شیلر ماچر ﴿1813ء﴾ وغیرہ نے تفصیلی بحث کی ہے۔

مداخلت کے نظریہ کو سامنے رکھتے ہوئےاگر ہم اردو زبان میں ہونے والے قرآنِ کریم کے تراجم کا مطالعہ کریں تو مداخلت اور ترسیل کے خوبصورت نمونے ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد، ڈپٹی نذیر احمد اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کے تراجم میں ملتے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے بہترین نثر میں قرآن کا ترجمہ کیا ۔ ان کے نزدیک ترجمان القرآن کی خصوصیت کا اصل محل اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
"ہر کتاب میں اس کی خصوصیات کا ایک محل ہوتا ہے ...... ترجمان کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصل محل ، اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے ..... اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی ....... اور یہی خزینہ ہے جس میں کتاب کی تمام خصوصیات مدفون ہیں ... جس قدر غور و تدبّر سے ترجمہ کا مطالعہ کیا جائے گا اسی قدر قرآن حکیم کے حقائق اپنی اصلی شکل طلعت و زیبائی میں بے نقاب ہوتے جائیں گے" ﴿ترجمان القرآن جلد دوم صفحہ 39﴾

مولانا نے ترجمہ میں صرف روانی اور سلاست کا خیال نہیں رکھا بلکہ انہوں نے ترسیل کے لئے مداخلت کو کام میں لاتے ہوئے قوسین کا استعمال کیا۔ قوسین کے درمیان ایسے الفاظ و فقروں کا اضافہ کیا گیا جو اصل متن کے الفاظ کا متبادل نہیں ہیں لیکن متن کی ترسیل، اور تفہیم کے لئے بعض مواقع پر ان کا اضافہ ناگزیر معلوم ہوتا ہے ، مثلاً : مولانا آزاد نے سورہٴ بقرہ کی دوسری آیت ذالک الکتاب لا ریب فیہ کا ترجمہ کیا ہے : اس میں کوئی شبہہ نہیں، متقی انسانوں پر ﴿سعادت کی ﴾ راہ کھولنے والی ، ﴿ترجمان القرآن ، جلد دوم ص 1﴾، مولانا نے ﴿سعادت کی ﴾ کے الفاظ کو قوسین میں رکھا ہے، یہ اصل متن کا ترجمہ نہیں بلکہ مفہوم کی ترسیل کے لئے ہے۔ اسی طرح الّذین یومنون بالغیب کا ترجمہ یوں ہے : ﴿متقی انسان وہ ہیں﴾ جو غیب ﴿کی حقیقتوں﴾ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس ترجمہ میں مولانا نے ابتداء میں بھی قوسین میں﴿ متقی انسان وہ ہیں ﴾ کا اضافہ کیا اسی طرح درمیان میں قوسین کے اندر ﴿کی حقیقتوں﴾ کا اضافہ کیا ہے۔

اوپر سورۂ فاتحہ کا جو ترجمہ پیش کیا گیا ہے اس میں مولانا نےتین مقامات پر قوسین کے درمیان کچھ الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ دومقام پر ( خدایا!)کا اضافہ ہے اور ایک مقام پر (اپنی ساری احتیاجوں میں) کا اضافہ ہے۔ یہ اضافے اصل متن کے الفاظ کا ترجمہ نہیں ہیں بلکہ ترسیل کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے مترجم کی کاوش ہیں۔

یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترجمہ کے نظریہ سازوں نے متن کی سطح پر ترسیلِ مفہوم کے لئے جس مداخلت کی بات کی ہے اس کا عکس ہمیں اردو مترجمینِ قرآن کے یہاں ملتا ہے اور ترجمان القرآن کے صفحات میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

اصطلاحات سازی کی تحریک
مولانا آزاد کو اس بات کا بھر پور احساس تھا کہ اردو زبان کو علمی زبان بننا چاہئے۔ اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ مختلف علوم و فنون سے متعلق کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے تاکہ اردو زبان کے ذخیرہٴ الفاظ میں اضافہ ہو اور اردو کے اندر علمی موضوعات کے لئے وسیلہٴ اظہار بننے کی صلاحیت پیدا ہو۔ وہ لکھتے ہیں: "پس اگر ہم اردو کو ایک علمی زبان بنانا چاہتے ہیں، تو ہمارافرض ہے کہ یورپ کی علمی زبانوں کا سرمایہ ترجمہ کرکے اردو میں جمع کریں۔ ورنہ اس ضرورت سے چشم پوشی کرکے شیکسپیر کے ڈراموں اور رینلڈ کے ناولوں کا ترجمہ کرنا دنیا کو اپنی جہالت پر خود ہنسوانا ہے"۔ ﴿لسان الصدق ، اگست ستمبر 1904ء،﴾

ترجمہ کے لئے اصطلاح سازی کی اہمیت کا بھی انہیں پورا شعور تھا۔ انہوں نے اصطلاح سازی سے متعلق کچھ اصولوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ مولانا آزاد کے نزدیک وضعِ اصطلاحات کا کام اہم تھا لیکن مشکل نہیں چنانچہ وہ لکھتے ہی:"وضعِ اصطلاحات کا معاملہ بہت اہم ہے لیکن اس قدر مشکل نہیں ہے جس درجہ آج کل کے اہلِ قلم سمجھتے ہیں اور علیٰ الخصوص فلسفہ میں بہتر سے بہتر الفاظ مل سکتے ہیں بشرطیکہ تلاش کیے جائیں" ﴿الہلال 6 اگست 1913ء صفحہ 2﴾۔

مولانا سے پہلے اردو زبان میں ہزاروں کی تعداد میں اصطلاحات وضع کی جا چکی تھیں لیکن مولانا نے اسے ایک تحریک کی شکل دی۔ اصلطلاحات سازی سے متعلق الہلال میں آپ نے دو قسطوں میں ایک مقالہ بھی شائع کیا۔ مولانا کی یہ رائے تھی کہ وضعِ اصطلاحات کے سلسلہ میں عربی زبان سے مکمّل استفادہ کیا جائے البتّہ اس میں اس کا خیال رکھا جائے کہ اصلطلاحات ثقیل اور نادر الاستعمال الفاظ نہ ہوں۔وہ لکھتے ہیں :
"١۔ضرور ہے کہ وضع و تسمیہٴ اصطلاحات میں عربی زبان کے ثقیل، مغلق اور نادر الاستعمال الفاظ استعمال نہ کیے جائیں کہ یہ خود عربی کے لیے بھی بار ہیں، پھر دوسری فروعی زبان کا کیا سوال۔
۲۔ الفاظ مصطلحہ حتی الوسع مختصر اور چھوٹے ہوں جو زبانوں پر بہ آسانی رواں ہو سکیں۔ بڑے بڑے فقروں کو الفاظِ مصطلحہ قرار دینا خلافِ آئینِ وضعِ اصطلاح ہے۔
۳۔ اکثر حضرات وضعِ اصطلاح میں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ دوسری زبان میں اس اصطلاح کا جس قدر مفہوم ہے وہ بتمامہ اردو میں منتقل کر لیا جائے۔ اس سے دو نتیجے پیدا ہوتے ہیں۔ یا تو ان کو اردو کی قلتِ ثروت و تنگدامانی کی شکایت ہوتی ہے کہ اس میں ادائے مفہوم کی قدرت نہیں، جیسا کہ اکثر احباب اس کے شاکی ہیں اور پھر حسبِ وسعت ِمفہوم الفاظ کثیرہ میں اپنا مفہوم ادا کرنا پڑتا ہے۔ "۔ ﴿ الہلال 15 اکتوبر 1913ء ، صفحہ 9﴾۔
مولانا نے اصطلاحات وضع کرنے میں جن اصولوں کی وکالت کی وہ ہیں:
١۔ ترکیب طویل نہ ہو، مختصر ہو۔
۲۔ الفاظ ثقیل نہ ہوں۔
۳۔ ترکیب سبک و سہل ہو
۴۔ الفاظ ایسے ہوں جو زبانوں پر بہ آسانی جاری ہو سکیں۔
۵۔ مولانا یہ بھی لکھتے ہیں کہ جس زبان سے اصطلاحات مستعار لی جارہی ہیں ان کے قواعد و قوانینِ لسانیہ کی رو سے وہ صحیح ہوں ۔
مولانا آزاد کی وضع کردہ اصطلاحات کے نمونے
Spectra scope کے لئے رنگ نما
Osteology کے لئے علم العظام
Neurology کے لئے علم الاعصاب
Organology کے لئے علم الاعضاء
X rays کے لئے ضوء غیر مرئی ، شعاع غیر مرئی
جرنلسٹ کے لئے مولانا کی وضع کردہ اصطلاح "صحافی" ہی آج مروّج اور مستعمل ہے۔
مولانا آزاد کی استعمال کردہ اصطلاحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر انگریزی اصطلاح کے لئے اردو متبادل کی تلاش ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ مروّج و مستعمل انگریزی اصطلاحات کو اردو رسم الخط میں لکھنا ہی مناسب سمجھتے تھے مثال کے طور پر: بیوگرافی ، کیمسٹری، لائف، گورنمنٹ، لٹریچر، لٹریری دنیا ، جوغیرہ کو انہوں نے اردو رسم الخط کے ساتھ استعمال کی اور اس کے استعمال کی وکالت کی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا بلا ضرورت انگرءیزی الفاظ و مصطلحات کے استعمال کے خلاف تھے۔ عبد الرزاق ملیح آبادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

بلا ضرورت انگریزی میں اسماء و مصطلحات استعمال نہ کیجئے مثلاً رپورٹ، کانفرنس، پارلیمنٹ، ایڈیٹر، وغیرہ ، ان کے لئے روداد، بیان، موتمر، مجلس، یا مجلسِ حکومت وغیرہ الفاظ استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ (ذکر آزاد ملیح آبادی ص 195)

مولانا کے ترجمہٴ قرآن، اور ترجمہ سے متعلّق ان کی دیگر کاوشوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زبان کی باریکیوں پر پوری نظر رکھتے تھے اور زبان کی ترقّی میں کن عوامل کو دخل ہے اس کا بھی انہیں عالمانہ شعور تھا۔ ***
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 35155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.