ہم تو ڈُوبے ہیں صنم تُم کو بھی لے ڈُوبیں گے

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کے پیشِ نظر جگہ جگہ مہلک بیماریوں کے متعلق عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔اِن پروگرموں میں عوام کو اس بیماری کے متعلق خاطر خواہ معلومات بھی دی جاتی ہیں ۔اس سے بچنے کی تراکیب بھی بتائی جاتی ہیں۔اور اس کے علاج کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ آج کل ملک میں چند اہم لیڈر صاحبان کے بعد سب سے زیادہ شہرت ڈینگی کو حاصل ہے۔کئی بڑے بڑے سیاستدان اس سے مماثلت بھی رکھتے ہیں۔جیسا کہ یہ بیماری لا علاج ہے۔اس کی تشہیر پر ہونے والے اخراجات۔اور پھر اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک گیر سطح پر کمیٹیاں بنانا اس مماثلت کے چند چیدہ چیدہ دلائل ہیں۔اس کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ اس کے حملہ کا سب سے موذوں وقت طلوع آفتاب سے لیکر اس کے بعد والے دو یا تین گھنٹے ہیں۔میانوالی میں اس مہلک بیماری سے نمٹنے کے لیے اور عوام کو اس کت متعلق آگاہی دینے کے لیے ایک سیمینار منعقد کیا گیا ۔جس کے لیے کمیٹی ہال کو منتخب کیا گیا۔انتظامیہ نے مہمانوں کو ٹھیک 9بجے صبح آنے کا حُکم دیا۔سو حکم کی تعمیل ہوئی۔مگر ڈی جی صاحب سمجھدار تھے وہ جانتے تھے کہ ڈینگی اسی وقت حملہ کرے گا وہ اسی ڈر سے گیارہ سے بھی لیٹ آئے۔اب عوام جو 9 بجے سے اُن کا انتظار کر رہی تھی اس کو اُن کے آنے تک مصروف رکھنے کے لیے کاروائی کا آغاز کیا گیا ۔اسی دوران ایک بزرگ کو موقع دیا گیا کہ وہ سٹیج پر آجائیں۔کیا خبر تھی کہ وہ اتنا سچ بول جائیں گے ۔حالانکہ پاکستان کے خود ساختہ قانون میں (جوکہ ہماری حکومتیں اپنے لیے بناتی ہیں)غریب آدمی کو سچ اور اپنے حق کی بات کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ۔مگر بزرگ نے گستاخی کر لی۔بہر حال انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پنجاب حکومت کا ایک سپوت ہمارے سامنے موجودتھا۔ڈینگی سے متعلق اپنا بیان شروع کیا اور عوام کو اس کے متعلق خوب آگاہی دیتے گئے۔مہمانانِ گرامی کی بھی ساتھ ساتھ تعریف کرتے ۔پھر یوں ہوا کہ عوام کی آنکھوں میں چھُپے دُکھ اور مصیبتیں اُن سے براداشت کرنا مشکل ہوگئیں تو بے ساختہ ہو کر وہ بھی بول پڑے۔کہ دراصل پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا گیا تھا ۔جوکہ آج تک پورا نہ ہوسکا۔نیز انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ ہمارے پاس اس وقت فنڈز کی سخت کمی ہے۔حکومت کے باقی اداروں کے متعلق بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ کوئی بھی ادارہ پاکستان میں کام نہیں کر رہا۔سب کے سب غیر فعال پڑے ہیں ۔اُنہوں نے انڈسٹری کی بات بھی کی اور پی آئی اے کی بھی ۔عوام کا دل خوش ہو گیا اور ہال تالیوں سے گُونج اُٹھا ۔مگر اُس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ابھی تو یہ صاحب فنڈز نہ ہونے کی بات کر رہے تھے اور ابھی انہوں نے کافی بڑے بڑے حقائق سے پردہ اُٹھانا شروع کر دیا ہے۔کیونکہ اس ملک میں راز سے پردہ اُٹھانے کی قیمت NLCL کیس اور مہران بینک سکینڈل کی قیمت سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔تب مجھے محکمہ سوشل ویلفیئر کی حالت کا خیا ل اور اور جب اُس کا موازنا اُن کے اس بیان سے کیا تو نتیجہ ےہی نکلا کہ وہ درحقیقت اربابِ اختیار کو بتانا چاہتے تھے کہ
'ہم تو ڈُوبے ہیں صنم تُم کو بھی لے ڈُوبیں گے"
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47732 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More