موسیقی اور ایذا رسانی

گھر کی مُرغی دال برابر ہوتی ہے۔ اپنے ہاں کچھ بھی ہو جائے، ہم متاثر نہیں ہوتے۔ ہاں، وہی کام گورے کریں تو ہم فوراً متوجہ ہوتے ہیں۔ امریکیوں کی عام سی بات بھی اگر دنیا کو معلوم ہو جائے تو انکشاف کا درجہ رکھتی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ امریکیوں نے گوانتا نامو بے، افغانستان اور عراق کی جیلوں میں قیدیوں پر تشدد کے دوران موسیقی استعمال کی اور یہ بات طشت از بام ہوئی ہے تو حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔

نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور محکمہ دفاع کی عمارت پر حملوں کے بعد امریکی حکومت نے دنیا بھر میں قومی سلامتی کا راگ الاپا اور پھر اپنی سرزمین کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے امریکیوں نے مسلم ممالک میں مخالفین کو چُن چُن کر گرفتار کرنا شروع کیا۔ اور پھر اِنہیں ایذائیں دینے کے معاملے میں بھی آپے سے باہر ہوگئے۔

امریکی عوام اور میڈیا کو قیدیوں پر موسیقی کے ذریعے تشدد کے انکشاف سے حیرت ہوئی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں یہ حیرت ناحق ہے۔ امریکی حکومت قومی مفاد کے نام پر کچھ بھی کرسکتی ہے۔ محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع مل کر شکر سے بھی تلخی کشید کرسکتے ہیں! ہر طاقتور کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت، کچھ بھی کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ وہ لڑائی کے اصول خود مرتب کرتا ہے اور پھر اِن اُصولوں کا عذاب بھی جھیلتا ہے۔

امریکی میڈیا اور عوام اِس بات پر حیران ہیں کہ اُن کی حکومت کو قیدیوں پر موسیقی کے ذریعے تشدد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اور ہم اِس بات پر حیران ہیں کہ امریکی اپنی حکومت کی اِس حرکت پر حیران کیوں ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع ایک زمانے سے چند مخصوص راگ تواتر اور جاں فِشانی سے الاپ کر ساری دنیا کو اذیت سے دوچار کرتے آئے ہیں۔ کبھی کومل سُر لگائے جاتے ہیں، کبھی تیور۔ لے تو بدل سکتی ہے، راگ نہیں!

امریکی عوام یہ بات بھی بھولتے ہیں کہ اُن کی حکومت کئی عشروں سے مختلف خطوں میں سیاسی اور عسکری ڈرامے اسٹیج کرتی آئی ہے۔ کوئی بھی ڈراما موسیقی کے بغیر کیا خاک مزا دے گا؟

امریکیوں نے موسیقی کو تشدد کا آلہ بناکر جو کچھ کیا ہے وہ خاصا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ وہ اِس معاملے میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ تشدد ڈھانے کے معاملے میں ہماری موسیقی اور موسیقاروں کا کوئی ثانی تھا، نہ ہے۔ سُر اور تال کے ملاپ کو آواز کی آمیزش سے دو آتشہ کرکے بے حساب قیامت ڈھائی گئی ہے! موسیقی کو صرف ذہن کی غذا کہنے سے بات ادھوری سی رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ موسیقی ذہن کی غذا بھی ہے اور ذہنی بدہضمی کا موثر علاج بھی! ذہن کا ہاضمہ موسیقی کے ذریعے درست کرنے کے لیے کبھی کبھی تو ایسے انوکھے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کہ مُنہ سے ایک ساتھ واہ اور آہ نکل جاتی ہے!

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سفر کا مطلب ایک مقام سے دوسرے کی طرف جانا ہے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے۔ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی بیشتر گاڑیوں میں ڈرائیور اور کنڈکٹر مِل کر اِس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ایک آدھ گھنٹے کے سفر میں لوگ موسیقی کی مدد سے کئی دُنیاؤں اور زمانوں کی سیر کریں! ویگنوں میں سفر سے لوگوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج کل کون کون سے گانے مارکیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے کے سفر میں مسافروں پر کئی زمانے گزر جاتے ہیں! کچھ لوگ یہ سوچ کر خوش ہوا کرتے تھے کہ بس کے سفر میں موسیقی کا ساتھ دل بہلانے کا اچھا ذریعہ ہے۔ یہ بات لوگوں کی سمجھ میں اب آئی ہے کہ یہ شامتِ اعمال ہے! آپ سیٹ پر بیٹھے ہوں اور سر پر اسپیکر دھمال کے رنگ بکھیر رہا ہو تو پوری دیانت سے بتائیے کہ جو کچھ ذہن کے پردے پر اُبھرتا ہے کیا اُسے ہم یہاں بیان کرسکتے ہیں؟ آپ کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔

بہت سی بسوں میں ڈرائیور صاحبان اِس بات کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ گھر تک پہنچتے پہنچتے آپ کے دماغ کی اچھی خاصی دُھلائی ہوچکی ہو۔ اور اِس کے لیے قوّالی سے بڑھ کر کیا چیز ہوسکتی ہے! کراچی میں صدر سے کورنگی تک چلنے والی بڑی بسوں میں قوّالی کا اِس قدر توجہ سے اہتمام کیا جاتا ہے کہ بہتوں کو تو سفر کے دوران ہی حال آجاتے ہیں اور اُنہیں دیکھ کر دوسرے بے حال ہوتے جاتے ہیں! ایک بار ہم نے کنڈکٹر سے کہا کہ لوگ تو ویسے ہی تھکے ہارے گھر کو جارہے ہوتے ہیں اور آپ لوگ دھوم دھڑاکے والے گانے، دھمالیں اور قوّالیاں سُنا سُناکر اُنہیں مزید بے حال کرتے ہیں۔ جواب ملا ”لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ اور اِتنا تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ مائنس مائنس پلس ہوتا ہے! ہم اندر کے شور کو باہر کے شور سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کامیابی دینے والی ذات تو اللہ کی ہے!“

کنڈکٹر خاموش ہوا تو ایک مسافر نے سرگوشی کی۔”جو کچھ ہمیں موسیقی کے نام پر سُنایا جاتا ہے اُسے ہم یہ سوچ کر بخوشی برداشت کرتے ہیں کہ چلو، گناہوں کی کچھ تو سزا ملی۔ یعنی بوجھ کم ہوا۔“ ایک اور جانکار نے بتایا کہ بسوں میں ظفر اقبال ظفری اور مراتب علی کے گائے ہوئے انڈین گانوں کو بس کے مسافروں اور انڈین گلوکاروں کی مشترکہ سزا سمجھیے! ہمارے خیال میں سُننے والوں پر تشدد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نازک سی غزل شوکت علی کی ”بہ بانگِ دُہل“ آواز میں سُنائی جائے! اور اِس سے بڑی سِتم یہ ہے کہ مہدی حسن کی آواز میں دھمالیہ گانے سُنوانے کا اہتمام کیا جائے!

ہماری کلاسیکی موسیقی، اللہ نظر بد سے بچائے، اچھے اچھوں کو سیدھا کرنے کے لیے کافی ہے! اِس موسیقی کے جلال ہی کا تو یہ اثر ہے کہ اِسے سیکھنے اور گانے والوں کی گفتگو سے انکسار اور عجز ٹپکتا ہے! کلاسیکی موسیقی کی متواتر مشق سے طبیعت میں ایسی نرمی پیدا ہوجاتی ہے کہ اِنسان لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتا ہے! حقیقت یہ ہے کہ کلاسیکی موسیقی لڑائی جھگڑے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی!

موسیقی کو ایذا رسانی کے لیے استعمال کرنے کا رواج ہمارے ہاں خاصا پرانا ہے۔ فلمی دنیا کے لوگ اِس معاملے میں زمانے سے بہت آگے تھے اور ہیں۔ فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے گانوں اور بیک گراؤنڈ موسیقی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہماری فلموں کے بیشتر گانے شائقین پر سِتم ڈھانے کے ایک کامیاب طریقے سے کم نہیں! اچھی خاصی فلم چل رہی ہوتی ہے کہ گانا رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے! گزرے ہوئے ادوار میں ایسی فلمیں بھی بنائی جاتی تھیں جن میں ڈیڑھ درجن گانے ہوتے تھے۔ اِن گانوں کے درمیان کہانی کے لیے گنجائش نکالنا رائٹر اور ڈائریکٹر کا کمال ہوا کرتا تھا! بہت سے لوگ گانوں کے لیے فلم دیکھنے جایا کرتے تھے مگر ڈھیروں گانے سُن کر شدید بدہضمی کا شکار ہو جاتا کرتے تھے! پیالی میں ڈیڑھ دو چمچ شکر ملائی جاتی ہے، جتنی چائے اُتنی شکر کا فارمولا تو نہیں اپنایا جاتا!

پاکستان میں موسیقی کو تشدد کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ کچھ اِس طرح اپنایا گیا ہے کہ ظالم کو کچھ اندازہ ہو پاتا ہے نہ مظلوم کو۔ گانے والے گاتے وقت یہ محسوس نہیں کرتے کہ اُن سے کوئی ظلم سرزد ہو رہا ہے اور نہ سُننے والوں ہی کو یہ گمان گزرتا ہے کہ جو کچھ وہ سُن رہے ہیں وہ گناہوں یا جرائم کی سزا سے کم نہیں! بہت سی جیلوں میں پاپ میوزک کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور میوزیکل نائٹ کے نام پر اچھی خاصی دھماچوکڑی مچائی جاتی ہے۔ بہت سے قیدی اِسے تفریح سمجھ کر دیکھتے ہیں جبکہ جیلر صاحب نے تو بعض قیدیوں کو سخت سزا دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا ہے! جیل کے پُرسُکون ماحول کو پاپ میوزک سے برباد کرنا کِسی بھی اعتبار سے اعلیٰ ذوق کی علامت یا دلیل نہیں! بعض گھروں میں شادی کے موقع پر منعقد کیا جانے والا میوزیکل پروگرام بھی اِسی زُمرے میں آتا ہے۔ اِن پروگراموں میں بعض شوقیہ فنکار بھی شریک ہوکر اضافی قیامت ڈھاتے ہیں! شادی والے گھر کے مکینوں کے ساتھ ساتھ اہل محلہ بھی پاپ میوزک کے نام پر عجیب و غریب آوازیں رات بھر سُنتے اور خون کے گھونٹ پیتے ہیں!

جب ٹی وی چینلز کی بھرمار نہیں تھی تب پی ٹی وی راگ رنگ کے عنوان سے خالص کلاسیکی موسیقی کا ہفتہ وار پروگرام پیش کیا کرتا تھا۔ اُس دور کے پی ٹی وی کے ارباب اختیار کو اللہ اِس بات کا اجر ضرور دے گا کہ یہ پروگرام رات بارہ بجے کے آس پاس ٹیلی کاسٹ کرتے تھے۔ تب تک بیشتر ناظرین سوچکے ہوتے تھے! ایسے جگر والے کم ہی تھے جو راگ رنگ دیکھنے کا صرف فیصلہ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ پوری توجہ سے دیکھ کر محظوظ بھی ہوتے تھے! اِس طرح کا ذوق رکھنے والوں کو لوگ احترام کی نظر سے دیکھتے تھے کیونکہ وہ اپنے گناہوں کی سزا خود ہی منتخب کرکے اعمال نامے کو کچھ بہتر بنالیتے تھے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484356 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More