غالب کی آبرو کیا ہے

پاکستان اور بھارت میں اگر برآمدات کا شعبہ پولیس کے حوالے کردیا جائے تو دُنیا کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی! دونوں ملکوں میں کچھ بھی ”برآمد“ کرنے کے معاملے میں پولیس کا کوئی جواب نہیں۔ دُنیا بھر میں منشیات برآمد کرنے پر پابندی ہے مگر ہماری پولیس آئے دن منشیات کی بڑی کھیپیں برآمد کرتی ہے اور شاباش بھی پاتی ہے!

پولیس کی چیرہ دستیاں بڑھتے بڑھتے اب اُردو شاعری تک آپہنچی ہیں۔ ہماشما کا تو ذکر ہی کیا، مرزا غالب جیسی قدر آور شخصیت بھی قابل دست اندازی پولیس ٹھہری ہے!

مرزا غالب کے کلام کو اُن کی زندگی میں پتہ نہیں کیا کیا قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر اِن کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خُدا سمجھے!

میرزا نوشہ کو اپنے کلام پر کیا کیا ناز تھا۔ کبھی اُنہوں نے کہا۔
گنجینہ معنی کا طِلِسم اُس کو سمجھیے
جو حرف کہ غالب مِرے اشعار میں آوے!

یہ زُعم بھی تھا کہ
ہیں اور بھی دُنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور!

اور جب ناقدین نے ناطقہ بند کرنے کی قسم کھالی تو غالب خستہ کو کہنا پڑا۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا
نہ سہی گر مِرے اشعار میں معنی، نہ سہی!

غالب کی بدنصیبی یہ رہی کہ اُن کے کلام میں گوناگوں مفاہیم تلاش کرنے کی ”فرہنگی مُہم“ اُن کے دار فانی سے کوچ کر جانے کے بعد شروع ہوئی۔ اگر اُن کے جیتے کچھ کوشش کی جاتی اور اُن کے کلام کو کھنگال کر چند اچھوتے معانی تلاش کرلیے جاتے تو میرزا نوشہ کا دَم یہ سوچ کر ذرا سُکون سے نکلتا کہ کچھ لوگ تو ہیں جو کچھ سمجھنے کے قابل ہوگئے ہیں! کبھی ہم سوچتے ہیں اچھا ہی ہوا کہ غالب کے کلام میں معانی کا جہاں اُن کے انتقال کے بعد دریافت کیا گیا۔ جب لوگ غالب کے فکر پرور کلام میں مفاہیم تلاش کرنے نکلے تو بہت دور نکل گئے اور ایسے ایسے نکات تلاش کرکے لائے کہ غالب اگر جان پاتے تو عَش عَش کرنے کا ہوش نہ رہتا، غَش کی منزل ہی میں اُن کا دھڑن تختہ ہو جاتا! اگر آج غالب زندہ ہوتے تو اپنے کلام کی شرحیں پڑھ کر مخبوط الحواس ہوجاتے اور مزید طبع آزمائی کے قابل نہ رہتے! ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ غالب نے اپنے کِن اعمال پر شرمندہ ہوکر کہا تھا۔
شاعِر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے!

اِتنا ہم البتہ پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ غالب آج زندہ ہوتے تو اپنے آپ کو جاننے کے لیے وہ سب کچھ پڑھنے پر مجبور ہوتے جو محققین نے اُن کے بارے میں کھوج نکالا ہے! ایک صدی کے دوران غالب پر جو تحقیق ہوئی ہے وہ بہت حد تک ”تحقیقات“ کا رنگ لئے ہوئے ہے! غالب پر پی ایچ ڈی کرنے والے اُن کے بارے میں جو کچھ بھی معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اگر خود غالب کو معلوم ہو پائے تو وہ مارے شرم کے اپنی شکل ایسی گم کریں کہ اُن کا نشان پانا مشکل ہو جائے! حق تو یہ ہے کہ اب اِس نُکتے پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے کہ غالب کو تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کی سزا مِل چُکی یا اُن پر مزید تحقیق ضروری ہے! ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ جو لوگ غالب پر تحقیق کے خبطِ عظیم میں مبتلا ہیں اُن پر بھی کچھ تحقیق کی جانی چاہیے یا نہیں!

بہت دنوں سے غالب کے بارے میں کوئی بات سُننے کو نہیں مل رہی تھی۔ محققین اور شارحین کے چولھے ٹھنڈے ہوچلے تھے۔ بھلا ہو بھارتی پولیس کا جس نے میرزا نوشہ کو خبروں میں پھر in کردیا! محققین سَر پھوڑ کر تھک گئے، شارحین سوچ سوچ کر تھک گئے مگر غالب کے کلام میں وہ بلاغت تلاش نہ کرسکے جو اُنہیں اشاعتِ اسلام میں معاونت کا اعزاز عطاءکرتی۔ بھارتی ریاست مہا راشٹر اور آندھرا پردیش کی پولیس نے عدالتی ٹربیونل میں حلف نامے داخل کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) کے ارکان جہادی سرگرمیوں کی تحریک مرزا غالب کے کلام سے پاتے ہیں! غالب کا کلام اور جہاد کی تحریک! شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے کہا گیا ہے ماروں گھٹنا، پُھوٹے آنکھ!

ہم حلفیہ کہہ سکتے ہیں کہ اِس حلفیہ بیان پر غالب کی رُوح نے تڑپ تڑپ کر مزید کئی بار جان دے دی ہوگی! یہ تو وہ نُکتہ ہے کہ خود غالب کو نہ سُوجھا ہوگا۔

مہا راشٹر کے شہر شولاپور کے علاقے ویجاپور ناکہ کے تھانیدار شیواجی راؤ ٹمبارے نے دلی ہائیکورٹ کے جسٹس وی کے ساہی کی سربراہی میں قائم ٹربیونل میں حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم ”سِمی“ کے ارکان مرزا غالب کے شعر
موج خُوں سَر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستان یار سے اُٹھ جائیں کیا!
سے جہادی سرگرمیوں کی تحریک پاتے ہیں! کچھ کچھ ایسا ہی حلف نامہ حیدر آباد (دکن) کے علاقے سعید آباد کے تھانیدار پی دیویندر نے بھی ٹربیونل میں پیش کیا ہے۔ ثابت ہوا کہ غالب کا کلام بھارتی پولیس کے سَر سے گزر گیا! موج خُوں ضرور غالب کی رُوح کے سَر سے گزر گئی ہوگی! اور محققین نے غالب پر تحقیق کے آستان سے اُٹھنے کا ارادہ تلف کردیا ہوگا!

غالب کے نام پر ڈھیروں دھن کمانے والے بھارتی پولیس کے احسان مند ہوں گے کہ اُس نے کچھ نیا کرنے کا موقع عنایت کیا! تحقیق کا بازار پھر گرم ہوگیا ہوگا۔ فرہنگ اور شرح لکھنے والے اپنی اپنی آراءسے رجوع کرتے ہوئے غالب کے کلام کو نئے مفاہیم سے سرشار اور اُن کی رُوح کو عرفان ذات کے نئے مدارج سے رُو شناس کرنے کی کوشش میں جُت گئے ہوں گے!

غالب کے ہاں جہان بھر کے مضامین مِلتے ہیں مگر اُن کے اشعار سے جہاد کا نظریہ کشید کرنا کمال فن کی انتہا ہے! شعور کی اِس طرح سطح تک پہنچنے کے لیے جس تربیت کی ضرورت پڑتی ہے اُس کا اہتمام پولیس کا محکمہ ہی کرسکتا ہے جس کے پاس بندے کو بندے دا پُتر بنانے والے ماہرین اور طریقوں کی کمی نہیں! اور ایک جہاد پر کیا موقوف ہے، بھارتی پولیس چاہے تو غالب کے کلام سے پتہ نہیں کِس کِس امر کی تحریک برآمد کرسکتی ہے۔ کیا غالب نے زندگی بھر مَے نوشی نہیں کی؟ یعنی شراب پینے کی تحریک دیتے رہے! کیا جوانی میں قمار بازی کرتے دَھر نہیں لیے گئے تھے؟ گلزار کی سیریل ”غالب“ دیکھ کر بھارتی پولیس قمار بازی کرتے ہوئے پکڑے جانے کا ریکارڈ بھی کھنگال سکتی ہے۔ دِلّی پولیس کی پونے دو سو سال پُرانی فائلوں میں اب بھی غالب ضرور مذکور ملیں گے!

پہلے شارحین نے بدنام کیا۔ اُن سے کچھ گلو خلاصی ہوئی تو تنقید نگاروں نے کہیں مُنہ دِکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔ خدا خدا کرکے نقاد خاموش ہوئے تو محققین پیچھے پڑگئے۔ چند روزہ حیات کا ایک ایک پہلو بے نقاب کردیئے جانے پر غالب کی رُوح مُدتوں سخت جاں کُنی کے عالم میں رہی۔ رہی سہی کسر بھارتی پولیس نے پوری کردی! غالب پیش بیں تھے، آنے والے زمانوں پر خوب نظر تھی۔ اپنی ممکنہ بے توقیری کا ذکر اُنہوں نے کچھ اِن الفاظ میں کیا تھا۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484298 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More