( مولانا روم کی دلچسپ حکایت )
کسی جنگل میں ایک خونخووار شیر رہتا تھا جس نے جنگل کے تمام جانوروں کے ناک
میں دم کر رکھا تھا ۔ ہر وقت ان کی گھات میں تھا ۔ اس کا کوئی دن شکار سے
خالی نہ جاتا۔ کوئی جانور اس جنگل میں اپنی جان کو محفوظ نہ سمجھتا ۔ آ خر
سب جانوروں نے مل کر ایک تجویز سوچی اور شیر کے پاس جا کر درخواست کی کہ اے
جنگل کے بادشاہ! ہم روزانہ تیرے پیٹ بھر کھانے کے لئے راتب مقررکئے دیتے
ہیں۔ یہ مقررہ خوراک بیٹھے بٹھائے بلاناغہ تمہیں پہنچ جائے گی ۔ ہماری صرف
اتنی التجاہے کہ آپ ہمارا شکار نہ کیا کریں تا کہ ہم جنگل میں بلا خوف وخطر
گھوم پھر سکیں ۔ شیر نے پہلے تو ان کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا
لیکن کافی بحث وتکرار کے بعد مان گیا۔
یہ بات طے ہوجانے کے بعد تمام جنگل کے جانور روزانہ ایک جگہ جمع ہوتے اور
قرعہ ڈالتے جس کانام قرعہ میں آجاتا وہ بغیر کسی حیل وحجت کے شیر کی خوراک
بننے لئے روانہ ہوجاتا ۔ ہوتے ہوتے ایک دن قرعہ میں خرگوش کا نام آ گیا ۔
اس نے پکارکر کہا اے دوستوں! یہ ظلم ووستم کب تک جاری رہے گا۔ اس طرح تو
ہماری بربادی کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ دوسرے جانوروں نے خرگوش کے
تیور دیکھے تو انہوں نے بیک زباں ہو کر اس سے کہا ہم نے اتنے دن تک اپنا
وعدہ پورا کیا ہے اب تو ہم کو بدنام نہ کر اور فوراً شیر کے پاس چلا جا ۔
ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سب سے ناراض ہو جائے ۔
خرگوش نے کہا کہ دوستو! خدا نے تم کو شیر کے پنجے سے نجات دینے لئے مجھے
ایک ترکیب سجھا دی ہے، مجھے اتنی مہلت دوکہ میں اس پر عمل کر سکوں۔ جانوروں
نے پوچھا تمہیں کون سسی تجویز سوجھی ہے۔ خرگوش نے کہا کسی راز کو اس طرح
کھولنا عقل مندی نہیں ہے۔ذرا صبر سے کام لو اور دیکھو کہ پردۂ غیب سے کیا
سامنے آتا ہے ۔سب جانور خاموش ہو گئے۔
اب خرگوش کی سنیے
۔وہ مزے سے اپنے گھر بیٹھارہا۔جب شیر کو مقررہ وقت پر خوراک نہ ملی تو اس
کے غصے کی انتہانہ رہی۔بار بار زمین پر پنچے مار تا اور کہتا کہ ہائے افسوس
! میں ان کمینوں کی چکنی چیڑی باتوں میں آگیا ۔بھلا یہ کم بخت اپنا عہد
کیوں پورا کریں گے۔اسی حالت میں اس نے ایک خرگوش کو اپنی طرف آتے دیکھا ۔
جب وہ پاس آیا تو شیر نے غصے سے پوچھا کہ " تو اتنی دیر سے کیوں آیا" خرگوش
نے ادب سے جواب دیا کہ" حضور! جان کی ا مان پاؤں تو عرض کروں " شیر نے کہا
جلدی بتاؤ۔خرگوش نے کہا "حضور وعدہ کے مطابق صبح کو میں اور ایک دوسرا
خرگوش جو مجھ سے تگنا تھا ۔ آپ کے دستر خوان کی زینت بننے کیلئے روانہ ہوئے
تھے مگرراستے میں ایک اور شیر نے ہم کو روک لیا ہم نے لاکھ آپ کا ذکر کیا
مگر اس نے ایک نہ سنی اور کہا میں اس شیر کو بھی ہلاک کردوں گا۔ یہ کہ وہ
آپ کے حصہ کا خرگوش اٹھا کر لےگیا ۔اگر صورت حال یہی رہی تو آپ کا راتب
صحیح سالم پہنچنا مشکل ہے ۔
یہ سن کر شیر غضب ناک ہوگیا۔اس نے بپھر کر کہا کہ چل مجھے دکھا وہ شیر کہاں
ہے۔ میں اس کو ابھی مزہ چکھاتا ہوں خرگوش بڑے حوصلے کے ساتھ شیر کے آگے آگے
چل پڑا ۔ یہاں تک کہ ایک پرانے کنویں کےقریب رک گیا ۔ شیر نے پوچھا "پیچھے
کیوں ہٹتا ہے؟ خرگوش نے کانپتے ہوئے کہا وہ شیر اسی کنویں میں ہے جو میرے
ساتھی کو پکڑکر لےگیا ہے۔خوف کی وجہ سے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہے۔ اگر حضور
مجھے اپنے پنجے میں دبا کر جھانکیں تو بڑی عنایت ہو گی "شیر نے اسے پنجے
میں دبا کر جھا نکا تو اسے ایک شیر اپنے پنجے میں خرگوش کو دبائے
نظرآیا۔شیر نے غصے میں آکر خرگوش کو ایک طرف پھینکا کنویں میں چھلانگ لگائی
اور مرگیا۔
جب خرگوش نے دیکھا کہ شیرمرگیا تو خوشی سے کودتا ہوا واپس آیا۔ سب کو خوش
خبری سنائی۔
انہوں نے اس خوشی میں جشن منایا اور خرگوش کا شکریہ اداکیا۔اس نے کہا یہ سب
اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے عقل دی اور موذی کا خاتمہ کرایا۔
مولانا روم نے اس کہانی سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ کہ دشمن سے نمٹنے کے
لئے عقل اور حوصلے کی ضرورت ہے۔اس پر یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ بیرونی خطروں
کا مقابلہ اندرونی خطروں کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے۔ |