’’حسن بیٹا، دوکان سے ایک کلو
چینی جلدی سے لے آؤ‘‘ حسن کی امی نے حسن کو دیکھ کر بلند آواز سے کہا۔ حسن
اس وقت کھیل کر گھر میں داخل ہورہا تھا۔
’’جی امی! ابھی جاتا ہوں‘‘ حسن نے جواب دیا، اور گھر سے کچھ ہی دور موجود
دوکان کی طرف چل پڑا، دوکان پر پہنچ کر حسن نے ایک کلوچینی کا آرڈر دیا۔
دوکاندار حسن کی بات سن کر مڑا اور دوکان کے اندرونی حصے کی طرف چینی لینے
کے لئے چلا گیا، اسی دوران حسن کی نگاہ دوکان میں سامنے ریلنگ پر رکھے ایک
ڈبہ پر پڑی جو رنگ برنگے کیکوں سے بھرا پڑا تھا، حسن اس وقت بھوکا تھا،
اسکے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا اس نے دوکاندار کو اپنی طرف متوجہ نہ
پاکر جلدی سے ایک کیک اٹھایا اور منہ میں ڈال کر نگلنے کی کوشش کرنے لگا،
اسی دوران دوکاندار واپس آگیا، اور حسن کو چینی دی، حسن نے چینی لے کر رقم
اداکی، اور گھر کی طرف چل پڑا۔
حسن دل ہی دل میں بہت خوش تھاکہ دوکاندار اسکی چوری کو نہیں دیکھ سکا، اور
کیک مفت میں اس نے کھا لیا، کیک کا ذائقہ حسن کو بہت اچھا لگا، لیکن اسے
محسوس ہورہا تھا کہ جب سے اس نے کیک کھایا ہے اسکے گلے میں کوئی چیز پھنس
سی گئی ہے۔
حسن گھر پہنچا، ماں کو چینی تھمائی اور ایک کمرے میں موجود آئینے کے سامنے
جا کر کھڑا ہوگیا، حسن نے اپنا منہ کھولا اور آئینے کی مدد سے گلے میں
جھانکنے لگا، کہ وہ کون سی چیز ہے جو اس کے گلے میں پھنس گئی ہے، اور اب تو
درد بھی ہونے لگا تھا۔ حسن زور لگا کر پورا منہ کھولنے کی ناکام کوشش
کرتارہا، مگر اسے کوئی چیز نظر نہیں آئی۔
ابھی حسن آئینے کے سامنے کھڑے منہ کھولے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک حسن کی
امی کمرے میں داخل ہوئیں اور حسن کو یوں منہ کھولے آئینے کے سامنے کھڑا
دیکھ کر حیران ہوئیں، اور پوچھا، حسن بیٹا اس طرح منہ کھولے آئینے کے سامنے
کھڑے کیا دیکھ رہے ہو۔
حسن اپنی امی کو سامنے دیکھ کر گھبر اگیا، اور بولا، نہیں امی، بس ویسے ہی
کھڑا ہوں۔
ابھی حسن نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ اس کے گلے میں ایسا شدید درد ہوا جیسے
اسکے گلے کو کسی نے تیز دھار آلے سے کاٹ دیا ہو، حسن وہیں زمین پر لوٹ پوٹ
ہوگیا۔
حسن کی امی یہ دیکھ کر گھبرا گئیں کہ اچانک میرے بیٹے کو کیا ہوگیا ہے ؟حسن
کی امی نے جلدی سے حسن کو سیدھا کرکے بستر پر لٹایا اور پوچھا کہ کیا ہواہے
بیٹا؟
حسن مسلسل چیخے، چلائے جا رہا تھا، اس کے گلے سے عجیب و غریب آوازیں نکل
رہی تھیں، اسکے منہ سے ہلکا سا خون بھی باہر نکل رہا تھا۔ اب حسن کو یقین
ہوگیا تھا کہ اسکے گلے میں کوئی چیز موجود ہے جسکی وجہ سے اسکی یہ حالت
ہوگئی ہے۔ حسن کی امی یہ سب دیکھ کر سٹپٹا گئیں اور زور زور سے سب گھر
والوں کو آوازیں دینے لگیں، حسن کے ابو،دادا، دادی، بہن، بھائی سب دوڑے چلے
آئے، اور حسن کی حالت دیکھ کر سب گھبرا گئے۔
حسن کے دادا نے جلدی سے پانی منگوایا اور حسن کو بہت سا پانی پلایا لیکن
کچھ افاقہ نہ ہوا۔ حسن کا درد اور ٹھیس ویسی ہی رہیں، اس کی حالت غیر ہو
رہی تھی، وہ دل ہی دل میں اس وقت کو کوس رہا تھا، جب اس نے چوری چھپے وہ
کیک کھایا تھا۔
حسن کی دادی اماں نے ایک روٹی کا ٹکرا منگوایا اور حسن کے منہ میں ڈال دیا،
حسن نے اس روٹی کے ٹکڑے کو باہر اگل دیا، اس سے کچھ نہیں کھایا جا رہا تھا۔
تب حسن کے ابو نے سختی سے پوچھا کہ حسن سچ سچ بتاؤ کیا کھایا تھا جس کی وجہ
سے یہ حالت ہورہی ہے ، حسن نے جب یہ دیکھا کہ اب بتانے کے سوا کوئی چارہ
نہیں، تو اس نے روتے ہوئے شرمندہ لہجے میں سب کو بتادیا کہ اس نے دوکاندار
کی نظروں سے بچ کر ایک کیک کھایا تھا تب سے اس کے گلے میں کوئی چیز پھنس
گئی ہے۔
حسن کے ابو نے ایک خشک روٹی کا بڑا سا ٹکڑا منگوایا اور حسن کو اسکے نگلنے
کا حکم دیا، حسن نے بہت انکار کیا، مگر اس کی ایک نہ چلی، مجبوراً اس نے وہ
ٹکڑا منہ میں رکھا اور اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگا، حسن کا چہرہ سرخ ہو گیا
تھا، وہ برے برے منہ بنا رہا تھا، اور دل میں اپنے آپ پر لعن طعن کررہا تھا
کہ کاش وہ کیک کھانے کی غلطی نہ کرتا۔
حسن مسلسل اس خشک روٹی کے ٹکڑے کو نگلنے کی کوشش کررہاتھا، کہ اچانک اسے
زوردار ابکائی آئی اور مسلسل قے شروع ہوگئیں، جیسے ہی قے رکی، حسن کو گلے
میں کچھ سکون محسوس ہو، اسے محسوس ہورہا تھا کہ اب اسکے گلے میں کوئی چیز
نہیں ہے، اب اسے درد بہت کم محسوس ہورہا تھا۔ حسن کے ابو اب اس قے کو دیکھ
رہے تھے کہ آخر کیا چیز حسن کے گلے میں پھانس بن کر اسے تکلیف دے رہی
تھی۔اچانک حسن کے ابو کو کسی کالی سی چیز کے ٹکڑے نظر آئے، غور سے دیکھنے
پر پتا چلا کہ یہ چیونٹے کا پچھلا حصہ ہے اور یہی چیونٹا حسن کے گلے میں
پھنس گیا تھا، اسی کے کاٹنے کی وجہ سے حسن کی حالت غیر ہوگئی تھی، چیونٹے
دیکھ کر اب سب کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ جب حسن نے جلدی سے کیک اٹھا کر
منہ میں ڈالا تھا، تو اس وقت وہ چیونٹا اس کیک پر بیٹھا تھا، وہ بھی کیک کے
ساتھ حسن کے منہ میں چلا گیا ، لیکن پیٹ میں جانے کی بجائے حلق میں پھنس کر
رہ گیا، اور باہر نکلنے کی مسلسل کوشش کرنے کی وجہ سے حسن کو یہ سب کچھ
جھیلنا پڑا۔حسن کو اس کے کیے کی سزا مل چکی تھی۔وہ سب گھر والوں کے سامنے
نادم کھڑا تھا۔حسن کے ابو نے حسن کو گلے سے لگا لیا اور معاف کر دیا۔اور
وعدہ لیا کہ آئندہ حسن کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا۔
اگلے دن جب حسن کی حالت کچھ سنبھل گئی تو حسن کی امی نے حسن کو پانچ روپے
دیے اور کہا کہ جاؤ بیٹا یہ پیسے دکاندار کودے آؤ ۔یہ اس کیک کے پیسے ہیں
جو تم نے کل کھایا تھا،حسن اسی دوکان پر چلا گیا اور دکاندار سے کہا کہ
معذرت انکل،کل آپکی دوکان سے میں نے غلطی سے کیک کھایا تھا اور پھر حسن نے
جیب سے پیسے نکالے اور دوکاندار کی طرف بڑھا دئیے ۔دوکاندار حسن کی اس
ایمانداری کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور سامنے پڑے ہوئے اسی کل والے کیک کی
طرح ایک اور کیک نکال کر حسن کی طرف بڑھا دیا اور کہا۔یہ کیک لے لو بیٹا،یہ
میری طرف سے اس ایمانداری کا انعام سمجھ کر کھا لو،حسن نے جیسے ہی کیک
دیکھااسے کل خود کے ساتھ بیتا ماجرا یاد آگیا،اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسکے
گلے میں پھر سے کوئی چیز پھنس گئی ہوحسن فورا گھر کی طرف بھاگ کھڑا
ہوا۔دوکاندار حسن کو یوں بھاگتا دیکھ کرحیران ہوا اور سوچنے لگا کہ کتنا
پیارا اور نیک بچہ ہے،ایسا بچہ آجکل کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔اب اسے کیا
معلوم کہ حسن کے ساتھ یہ کیک کھانے کی وجہ سے کیا بیتی۔حسن نے گھر پہنچ کر
اطمینان کا سانس لیا اور دل میں تہیہ کر لیا کہ آئندہ وہ کبھی چوری نہیں
کرے گا اور نہ ہی کبھی کیک کھائے گا۔یوں حسن کی پہلی غلطی اس کی آخری غلطی
بن گئی۔ |