شہادت کا جام - شہیدوں کے نام۔۔۔

شبِ جمعہ کو اپنی آخری منزل کی جانب اڑان بھرنے والا شہیدوں کا یہ قافلہ ، تمام تر کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بلا شبہ گناہوں کے بار سے کندھوں کو ہلکا کر کے بلکہ سیئات کے گرد وغبار سے ہی دامن جھاڑ کردارِ بقا ءکی جانب کوچ کرنے والا ، شہادت کے جام کو یکے بعد دیگرے لبوں سے لگانے والے قوم کے شہیدوں پر رشک آتا ہے ۔ جمعہ کی مبارک رات تو ویسے ہی جنت کے دروازے آنے والے مہمانوں کے استقبال میں کھلے رہتے ہیں اور پھر اگر وہ آنے والے مہمان شہیدوں میں سے ہوں تو جنت ان کے استقبال میں جھوم اٹھتی ہے ۔ جی ہاں شہید کے خون کا پاک قطرہ ابھی زمین کو چھو نہیں پاتا کہ اس کی مغفرت کا اعلان ہوجاتا ہے۔ موت کے جام کو تو ہر ذی روح نے اک نہ اک دن چاہتے نہ چاہتے لبوں سے لگانا ہے اور حلق جلاتے اس کڑوے گھونٹ کو گلے سے اتارنا ہے ۔ لیکن کیا نصیب ان شہیدوں کے جن کو اس کڑوے گھونٹ کے بدلے شہادت کی شریں چاشنی پلائی گئی، کیا ہی مقدس نفوس تھے کہ رب نے ان کے گناہوں کے آثار تک کو ساتھ لے جاناگوارہ نہ کیااور جاتے جاتے دنیا ہی میں مغفرت کا سامان مہیا فرمایا!

جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتی ہے اور اکثر وہ گھڑی غروب آفتاب سے پہلے ہوتی ہے ۔ شاہدین کے بقول سفیرانِ بہشت کے ان مسافروں کی جدائی کا وقت بھی غروب آفتاب سے چند لمحے قبل کا تھا۔ پھر بقول ناظرین جہاز نے ہچکولے بھی کھائے ۔ تو اس طرح ہنگامی نوعیت کے واقعات کے دوران بے ساختہ ہر مسلمان کلمہ طیبہ ، استغفار کا ورد کرتا ہے اور اﷲ کو یاد کرنے کا خوب اہتمام کرتا ہے۔ یقینا اس ہنگامی صورتحال میں ان مسلمان مسافروں نے بھی اﷲ کو پکارا ہوگا ، اس سے گڑ گڑا کر معافی طلب کی ہوگی ، اس کے پاک کلمے کا ورد کیاہوگا۔لہٰذا احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جس کی زندگی کا آخری کلام ، کلمہ طیبہ یا اﷲ کو پکارناہو تو وہ کامیاب اور فلاح پانے والوں میں شمار ہوتا ہے ۔ اور جمعہ کے دن اگر کوئی صرف بستر پر اپنی طبعی موت بھی مرتا ہے تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اُسے تین انعامات سے نوازتے ہیں ۔
۱۔ اسے عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے ۔
۲۔ اس کے نیک اعمال جو وہ کرتا تھا قیامت تک جاری رہتے ہیں جبکہ بُرے اعمال کا دفتر بند کردیا جاتا ہے۔
۳۔ اور روز ِ محشر اسے شہیدوں میں اُٹھایا جاتا ہے ۔

جب اتنے انعامات صرف جمعہ کے دن طبعی موت پرہیں تو ایک مسافر ، پھر شہید اور پھر جمعہ کے دن نیک بخت ساعت میں دار ِ فانی سے دارِ بقاءکی جانب کوچ کرنا کتنی بڑی سعاد ت ہے ، اس کا اندازہ لگانا صرف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔

موت توایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی جائے مفر اور جائے پناہ نہیں ، زندگی کی پیاس کو مشروب موت کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں بجھا سکتی ، موت تو ایک ایسی گھاٹی ہے جو ہر مسافر کی راہ گزر ہے۔ ہم سب اس دنیا کے مسافر ہیں ، ہم میں سے ہر ایک کی حیات کا طیارہ عمر کی بلندی کے حساب سے پرواز کر رہا ہے ، پرواز سارے طیارے کر رہے ہیں ۔ کس طیارے نے کہاں تک پرواز کرنی ہے اور کہاں اپنا سفر ختم کرنا ہے اس کا علم اس ذات کے سوا کسی کو نہیں جس نے حضرتِ حواؑ کی کو کھ سے نسل انسانی کو روانی بخشی اور حضرتِ اسرافیل ؑکی پھونک سے سکوت ۔ گناہوں کی آلودگی سے مکدر اس فضا میں موسمی خواہشات کی خرابی کے باعث اڑان بھرنے والے ہر طیارے کو حفاظتی تدابیر پیش نظر رکھنی چاہیے، اور اس نازک فضائی حدود کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے ۔پھر اُڑان بھرنے والے ہر طیارے کا منزل پر پہنچنا یقینی ہے ۔

اپنے پیاروں کو کھونے والے پسماندگان کا صدمہ ، ان کی تکلیف ، رنج وغم کا ہونا تو ایک فطری عمل ہے لیکن انہیں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ اﷲ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے چاہے اسے ہم محسوس کریں یا نہ کریں ۔ بہر حال جانے والے شہداءاپنے پسماندگان کے لیے بھی مغفرت وبخشش کا ذریعہ وسیلہ بنیں گے ۔

انسان کی حرمت اس کی کرامت وشرافت کی وجہ سے ہے نہ کہ کسی نجاستی پہلو کی بنیاد پر ۔ جبکہ جانور یا کسی شی کا حلال وحرام ہونا کرامت وشرافت کی وجہ سے نہیں بلکہ فی نفسہ اس چیز میں نجاست ، خباثت ، مضرت یا نشہ کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ تو جس طرح اس حضرت انسان کے جسمانی اعضاءکا استعمال اس کی بزرگی کی وجہ سے حرام ہے بالکل اسی طرح دیگر پہلوؤں میں بھی اشرف المخلوقات کے تمغہ امتیاز سے نوازے گئے اس انسان کی تقدیسِ حرمت کا خیال رکھا جائے گا۔ کسی بھی بڑے سانحہ یا حادثے (زلزلہ ، طوفان ، سیلاب ، آسمانی بجلی ، ٹریفک حادثات ، فضائی حادثات ) کی صورت میں اجتماعی اموات کا ہونا بدیہی امر ہے ۔ لیکن قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس طرح کے حوادثات رونما ہونے کے بعد کٹے پھٹے اعضائ، کرب واذیت کے میدان سے جھلکتی تصاویر ، جلی سڑی لاشیں ، مسخ شدہ چہرے ،قرب وجوار کی دیواروں سے چمٹے انسانی اعضاء، خون آلود قمیصیں ،خون میں لت پٹ بکھرے ہوئے چپلوں کے ڈھیر، خواتین کے تقدس کی پامالی ، قابل صد تکریم واحترام ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی حیاء، عفت وپاکدامنی کی سرِ بازار نیلامی کرنا ۔ کیا اس طرح کی منظر کشی انسانی احترام کو پامال کرنے کے مترادف نہیں ۔؟ اسکرین پر بار بار کرب واذیت کے یہ مناظر دکھانا ، انہیں تصاویر کو اخبار ات ورسائل کی زینت بناناجہاں انسانی قدروں کو پامال کرنے کے مترادف ہے وہیں حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین وپسماندگان کے آتشِ غم کوبھڑکانے اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کا ذریعہ بھی ہے ۔ ماضی قریب کے مختلف سانحات میں بھی پرنٹ والیکٹرونکس میڈیا نے بے انتہاءطوفانِ بدتمیزی مچائے رکھی ۔ کہیں سفید پوش خاندانوں کے چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کیا ، تو کہیں بھوک وافلاس کی ننگ دھڑنگ تصویروں کو مشق ستم بنائے رکھا۔خصوصا ً زلزلہ وسیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے افرا تفری میں نقل وحمل کی جو تصویر کشی کی گئی ، باپردہ خواتین کی اضطراری حالت میں بے پردہ تصاویر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کی گئی ، انہیں باپردہ وباحیاءخواتین کی بے خبری میں عجلت سے لی گئی تصاویرکو چہار دانگِ عالم میں شائع کیا گیا۔ انہیں تصاویر کے عوض ٹرسٹوں کے بینک بیلنس کے ہندسے بڑھائے گئے ۔ کیا یہ سب کچھ احترام انسانیت کے پھولوں کو ایک ایک کر کے اکھاڑکر مسلنا نہیں؟

سب سے اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ کہ کسی حادثہ کے رونما ہونے کے فوراً بعدہمارے ذہن ظاہری اسباب کی طرف تو متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ کہ اس حادثے کے رونما ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟ حتیٰ کے قدرتی آفات میں بھی ہم ظاہری عوامل کے تتبع وتلاش میں پڑ جاتے ہیں کہ زمین کی پلیٹیں ہلنے کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے اور بارشوں کی زیادتی کے باعث دریاؤں میں طغیانی کے سبب سیلاب آیا ہے ۔ ہماری نظریں اس مسبب الاسباب کی طرف کیوں نہیں اٹھتیں جو کسی سبب کا محتاج نہیں۔ بستے شہروں کو لمحہ بھر میں اجاڑ کر ویران کردینا اور صدیوں کے لہلہاتے سبزہ زاروں کو بنجر و و یران کر دینا اسی کے شایانِ شان ہے ۔ کار خانہ عالم اور حادثات وتغیرات کا تو چولی دامن کاساتھ ہے۔ ٹھیک ہے جو ظاہری عوامل ہیں ان پر بھی غور کیا جائے ، جو کمزوریاں ، کوتاہیاں ہیں ان کا سدِ باب کرنا بھی بے حد ضروری ہے ۔لیکن منتہائے نظر اس قادر ِ مطلق ذات کے علاوہ کہیں اور نہ جانے پائے ۔ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر بھی نظر رکھی جائے کہ کہیں آزمائشوں کا تسلسل ہمارے گناہوں کا نتیجہ تو نہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان واقعات کے رونما ہونے کے باوجود ہم نافرمانیوں کی دلدل میں مزید دھنستے جارہے ہیں ۔شہیدوں کے اس قافلے کو الوداع کہنے کے بعد اب بھی وقت ہے غفلت کی نیند سے بیدا ر ہونے کا ، حیاتی نشے کی مدہوشی سے ہوش میں آنے کا ، گناہوں کی آلودگی سے مکدراس فضاءکو چھوڑ کر فرمانبرداری کی حسین و خوشگوار وادی میں آنے کا ۔محترم قارئین آئیے بارگاہِ ربِ ایزدی میںدست بدعاءہوتے ہیں کہ اے اﷲ ہماری خطاؤں کو معاف فرما،شہداءکے درجات کو بلند فرمااور پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرما۔ آمین
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.