پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

ڈاکٹر محمد خالد مسعود ڈایریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی کی تحریر

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد نادان پر کلام نرم و نازک بے اثر

خواتین و حضرات۔ السلام علیکم۔
آج کے موضوع کی مناسبت سے میں نے آپ کے سامنے جو شعر پڑھا ہے اس کا مقدمہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے اس شعر سے مرد دشمنی کی بو آتی ہے اور یہ شعر کم اور شر زیادہ نظر آتا ہے۔ اس شعر میں الزام لگا یا گیا ہے کہ جس پر کلام نرم و نازک بے اثر ہو وہ مرد نادان ہوتا ہے ۔ اگرچہ یہ بظاہر کسی نسوانیت سے مرعوب شخص کی شاعری لگتی ہے لیکن میں یہ تفتیش غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ شعر کس نے لکھا؟ وہ مرد ہے یا عورت؟۔ نہ ہی یہ تحقیق کرنا چاہتا ہوں کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کیسے کٹ سکتا ہے اور کیا ہیرے کا جگر ہوتا بھی ہے یا شاعر کسی واہمے میں مبتلا ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ یہ الزام سرے سے غلط ہے کہ کلام نرم و نازک صرف مرد نادان پر بے اثر ہوتا ہے۔ حالات و وا قعات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ شعرہر لحاظ سے مرد دشمنی پر مبنی ہے۔ اس شعر میں دانا اور نادان کی تفریق کرکے نہ صرف صدیوں سے قائم مردوں کی طاقت اور یک جہتی کو کمزور کرنے کی کو شش کی گئی ہے بلکہ مردوں پر یکطرفہ الزام لگا یا گیا ہے کہ صرف نادان مردوں پر کلام نرم و نازک بے اثر ہو تا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود ملت مرداں پوری دیانت داری سے سمجھتی ہے کہ کلام نرم و نازک ہر انسان پر بے اثر ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ کلام کسی بھی قسم کا ہو وہ بے اثر ہی ہوتا ہے ۔ کلام وہی پر اثر ہوتا ہے جب اس میں یا اس کے ساتھ سزا اور خوف شامل ہو ۔ داناؤں کا کہنا ہے کہ چار کتاباں آسمانوں اتریاں نال اتریا ڈنڈا۔ اس پر روشنی ڈالنے کی ضرور ت نہیں کہ ڈنڈا کس پر اترا۔ اسی لئے محض کلام میں اثر کا عقیدہ رکھنے سے ایمان کے کمزورہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ کلام کسی بھی قسم کا وہ بے اثر ہی ہوتا ہے ۔ دعائیہ کلام کے بارے میں کسی صحیح العقیدہ شاعر کاکہنا ہے کہ دعا کو اثر سے دشمنی ہے اس لئے دعائیہ کلام میں احتیاط درکار ہے۔

عارفانہ کلام کے اثر کی بات بہت سننے میں آتی ہے لیکن مشاہدے سے پتہ چلا ہے کہ اس کا اثر عموما ریٹائرڈ لوگوں پر ہوتا ہے۔ اور اس کا تعلق بھی کلام سے زیادہ سزا کے خوف سے ہوتا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے صرف کمپیٹنٹ اتھارٹی اور اس کی سزا کا خوف ہوتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد موت قریب نظر آتی ہے تو بہت سے نادیدہ گناہ بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی اعتبار سے کلام الہی اور کلام نبوی میں بھی ان چند مخصوص آیات اور احادیث کو پر اثر سمجھا جاتا ہے جن میں سزا کا ذکر یا حکم ہے۔ ان پر فوری عمل ضروری ہے۔ ہر برائی کو دل میں برا سمجھنا یا اسکے بارے میں گفتگو کو بے اثر گرداننا اور اس کا بزور بازو خاتمہ دینی فریضہ نہیں۔ اس معاملے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صرف چند برائیوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ وقت اور وعدے کی پابندی، ملاوٹ، جھوٹ، فریب، دھوکہ، بد دیانتی، رشوت، اقربا پروری وغیرہ میں نفاذ شریعت کے لئے اسلامی ریاست کے قیام کا انتظار لازم ہے ۔ لیکن مرد کو چونکہ صنف نازک کے برے بھلے کی حفاظت کا ذمہ دار بنا کر بھیجا گیا ہے اس لئے ان کی خیر خواہی کو مقدم رکھتے ہوئے ان معاملات میں نہ صرف اسلامی ریاست کا انتظار غیر ضروری ہے بلکہ کلام الہی میں مذکور وعظ و نصیحت اور ہجر مضاجع پر غور کرنا نہی عن المنکر کی راہ میں تساھل اور بے غیرتی کے زمرے میں آتاہے۔ چونکہ وہ خودپر بھی کلام نرم و نازک کے بے اثر ہونے کا قائل ہے اس لئے دوسروں اورخصوصا صنف نازک کے معاملے میں تو اسے قطعی فضول جھنجٹ سمجھتا ہے۔

ان دلائل کی روشنی میں میں آج کے موضوع کی مناسبت سے ایوان سے درخواست کرتا ہوں کہ اس شعر پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے تمام نصابی کتب سے فوری طور پر ہمیشہ کے لئے خارج کیا جائے اور ملت مردان کو نادانی کے طعنے سے اور کلام نرم و نازک کے الزم سے بری کیا جائے۔
Ghazalas Consultancy
About the Author: Ghazalas Consultancy Read More Articles by Ghazalas Consultancy: 7 Articles with 15084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.