مُصیبت .... اور لمبی زندگانی

درازی عمر کا مقابلہ منعقد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جاپانیوں کی عُمریں ”لمبو۔ گلی کا دادا“ کی طرح دوسری اقوام کی عُمروں سے واضح طور پر زیادہ ہوتی ہیں! عمر کا مطلب ہے وقت۔ وقت کی اہمیت سے کِسی کو انکار ہوسکتا ہے؟ آپ کہیں گے ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی وقت کو بھی غیر اہم قرار دے۔ ضروری نہیں کہ آپ کی ہر بات سے قوم متفق ہو۔ پاکستانی معاشرے میں ایسے لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد مل جائیں گے جو اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ وقت اُن کے نزدیک دو ٹکے کا بھی نہیں۔ اور جواب میں وقت بھی اُنہیں دو کوڑی کا ثابت کرکے دم لیتا ہے!

ہم آپ ایسے دور میں جی رہے ہیں کہ جس میں لوگ قُدرت کی طرف سے مِلنے والے وقت کے کوٹے یعنی عُمر کو جلد از جلد ختم کرکے اِس دنیا سے رخصت ہونے پر پُختہ یقین رکھتے ہیں۔ ذرا ماحول پر ایک اُچٹتی سے نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ وقت کو اِس طرح ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں جیسے کوئی شدید گرمی میں پانی کَھولائے اور اُس میں برف کے ٹکڑے پگھلائے! کوئی دِن بھر میں چالیس پچاس سگریٹ پُھونکنے پر تُلا رہتا ہے، تو کوئی دن بھر معدے میں چائے انڈیلتا رہتا ہے اور دس بارہ کپ حلق سے اُتارنے کے بعد ہی سُکون کا سانس لینے کے قابل ہو پاتا ہے! کوئی رات دن فاسٹ فوڈ نگل کر معدے کا بیڑا غرق کرنے کی دوڑ میں اوّل آنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے! بہت سے لوگ دِن دِن بھر گھر کے باہر یا گلی کے کونے پر چبوتروں کو رونق بخشتے رہتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو رات بھر ہوٹلوں میں بیٹھے وقت کو ٹھکانے لگانے کی مشقت میں مصروف رہتے ہیں! ان تمام کوششوں کے باوجود لوگ وقت کا کوٹہ کسی نہ کسی طرح پورا کرلیتے ہیں یعنی سَتّر پچَھتّر سال کے ہوکر ہی دُنیا سے رُخصت ہوتے ہیں!

جاپانی جزیرے اوکی ناوا کے باشندے نے شاید جہان بھر کو شرمندہ کرنے کی کوشش کھا رکھی ہے۔ اِس جزیرے پر خواتین کی اوسط عمر 86 سال اور مردوں کی اوسط عمر 78 سال ہے۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ بُڑھاپے میں جب کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا تب اوکی ناوا کے باشندے زندہ رہنے کو بھی کام سمجھ لیتے ہیں اور جئے جاتے ہیں! اوکی ناوا کے کیس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ طویل العمری مُتعدّی مرض ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اِس مرض میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں!

روزانہ دس بارہ گھنٹے کام کرنے والے ایک 90 سالہ جاپانی سے پوچھا گیا کہ اِتنی طویل عُمر میں بھی اِس قدر چاق و چوبند رہنے کا راز کیا ہے۔ موصوف نے فرمایا ”مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی بات پر غُصّہ آیا ہو!“ اِنسان 80 سال سے زیادہ کا ہو جائے تو حافظے کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے! 90 سال کی عمر میں بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ اِنسان یہ بھی بھول سا جاتا ہے کہ وہ اِس دنیا میں کب آیا تھا اور آیا بھی تھا یا نہیں! ایسے میں کِسے یاد رہتا ہے کہ سات آٹھ دہائی قبل کِسی پر غُصّہ آیا تھا یا نہیں! اور تو اور، کچھ یاد نہ آنے پر بھی غُصّہ نہیں آتا!

اوکی ناوا کے 13 لاکھ باشندوں میں 18 ہزار نے عُمر کی سینچری اسکور کرلی ہے اور 450 ایسے ہیں جن کی عُمر 110 کا نشان پار کرچکی ہے۔ بُڑھاپے میں اِنسان کیسی کیسی دلچسپ حرکتیں کرتا ہے یہ جاننے کے لیے اوکی ناوا کے حالات جاننے کی کوشش کیجیے۔ گزشتہ دنوں 105 سالہ خاتون نے مکھی مچھر مارنے والے ریکٹ سے ایک اژدہے کو مار ڈالا! اوکی ناوا کا اژدہا تھا، سوا سو سال سے کم کا کیا ہوگا! جب موت آنے کا نام ہی نہ لے تو مَرنے کا ہر موقع غنیمت معلوم ہوتا ہے۔ اژدہے نے بھی ریکٹ سے پٹ کر مَرنے کو موت کا بہترین بہانہ سمجھ کر قبول کیا ہوگا! اژدہا مارنے پر خاتون کو سراہا جارہا ہے مگر کِسے خبر کہ 105 سال کی عمر میں برائے نام بصارت کے طفیل اُنہیں اژدہا معمولی سا کیچوا دِکھائی دیا ہو!

اوکی ناوا کے باشندوں کا بنیادی کمال یہ ہے کہ جزیرے پر امریکی فوجی اڈا ہونے کے باوجود اُن کی زندگی کا دورانیہ کم نہیں ہوا! امریکیوں کی روایت یہ ہے کہ جہاں جاتے ہیں قتل و غارت کا بازار گرم رکھتے ہیں اور پھر وہاں کے لوگ موت کی نذر ہوتے رہتے ہیں۔ مگر اوکی ناوا کے بزرگوں نے اپنی نسلوں کو درازی عمر کی ایسی دُعا دی ہے کہ امریکیوں کی روایت دم توڑ گئی ہے! ہمارے ہاں بھی بزرگوں کو جیسے ہی کسی برخوردار کے سر پر دستِ شفقت پھیرنے کا موقع ملتا ہے، آؤ دیکھا نہ تاؤ درازی عمر کی دُعا دے ڈالتے ہیں! ذرا سوچنا تو چاہیے کہ یہ دُعا، خُدا ناخواستہ، قبول ہو جائے تو؟ ملک کے حالات تو ایسے ہیں کہ جو بچی کھچی اوسط عمر ہے وہ بھی لوگ فٹافٹ کاٹ کر پتلی گلی سے دوسری دنیا کی طرف نکل لیتے ہیں! اگر کہیں ہم آپ سو سو سال جینے لگے تو سوچیے کیا ہوگا؟ سو سال تک قتل و غارت کی خبریں سُن سُن کر، مہنگائی کو جھیلتے جھیلتے اور اخلاقی گراوٹ پر کُڑھتے کُڑھتے ہم کس حال کو پہنچیں گے! سچ تو یہ ہے کہ ایسے میں
ہاں وہی لوگ ہیں در اصل ہمارے دُشمن
جو ہمیں عمر درازی کی دُعا دیتے ہیں!

جہاں سہولتیں اور آسانیاں میسر ہوں وہاں زندگی کو اُس کے تمام تقاضوں اور لوازم کے ساتھ نبھانا ممکن ہوتا ہے۔ جہاں جان کو سو روگ لگے ہوں وہاں کوئی کیا جیے اور کیوں جیے؟ کسی نے سچ ہی کہا ہے۔
مصیبت .... اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دُعا نے مار ڈالا!

اگر سُکون سے بسر ہو جائے تو تھوڑی سے زندگی بھی بہت ہے۔ گھسٹ گھسٹ کر جینے کو زندگی کیسے کہا جائے؟ جگر مُراد آبادی کے شاگردِ رشید حباب ترمذی فرماتے ہیں۔
محبت کا ہے بس اِک لمحہ کافی
ہزاروں سال جینے کی ہوس کیا؟
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484351 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More