بسم اللہِ الرَّحنِ الرَّحِیم۔
میرے محترم قارئین عصر حاضر میں انسان ترقی کی اُن بلندیوں پر ہے کہ تحصیل
علم دین گھر بیٹھے باآسانی ممکن ہےاور تحصیل علم دین کے کئ ذرائع موجود ہیں
مثلا کتاب،کیسٹ ،ٹی وی،موبائل،اور انٹر نیٹ ان سہولتوں کے میسر ہونے کے
باوجود ہم علم دین حاصل کرنے کی سعی نہیں کرتے ہیں نبی محترم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا
أشد الناس حسرة يوم القيامة رجل أمكنه طلب العلم في الدنيا فلم يطلبه، ورجل
علم عاما فانتفع به من سمعه منه دونه"
قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ اس شخص کو حسرت ہوگی کہ جس کو دنیا میں
علم دین حاصل کرنے کا موقع ملا مگر اس نے علم حا صل نہ کیا اور اس شخص کو
سب سے زیادہ حسرت ہو گی کہ جس نے علم تو حاصل کیا مگر دوسروں نے سن کر اس
کے علم سے فائدہ اٹھا یا اور وہ فائدہ نہ اٹھا سکا یعنی دوسروں نے اس سے
علم حاصل کر کے عمل کیا اور یہ عالم بے عمل رہاکنزالعمال حدیث نمبر28696
میرے محترم قارئین علم دین سے آگاہی کے نیک مقصد کے تحت ہم ایک سلسہ بنام
آپ کے مسائل کا حل شروع کرر ہےہیں کہ جس میں آ پ اپنے شرعی مسائل کے بارے
میں رہنمائی حاصل کرسکیں گے فی الحال طریقہ کار یہ ہوگا کہ آپ تجزیہ کے
خانہ comment box میں اپنا سوال تحریر فرمائیں انشاءاللہ آپ کو اس کا جواب
اسی مقام پر ارسال کردیا جائے گا اور اگر آپ تفصیلی یا ذاتی سوال پوچھنا
چاہیں یا کِسی مسئلہ سے متعلق فتوٰی حاصِل کرنا چاہتے ہیں تو اس ای میل
ایڈریس
[email protected]
یا اِس پوسٹل ایڈریس ،، دارالافتاء احکام شریعت جامع مدینہ مسجد غریب آباد
میرپورخاص ،، پر جوابی لفافے کیساتھ اپنا سوال ارسال کیجئے انشاء اللہ آپ
کو جلد اس کا جواب موصول ہوجائے گاآپ حضرا ت بغیر کسی ججھک کے سوالات کر
سکتے ہیں مگر آپ ایسے سوالات کرنے سے احتراز فرمائیے گا کہ جن سے تعصب کی
فضاء قائم ہو نیز فرضی سوالات سے بھی حتی الامکان اجتناب فرمائیے گا اسی
میں ہم سب کا فائدہ ہے-
علم دین کی فضیلت
علم ایک نو ر ہے. اور جہالت تاریکی ہے .جو علم حاصل کرتا ہے وہ علم کی
روشنی کی بدولت اپنی منزل مقصود تک پہنچ کر کامیاب ہوجاتا ہے اور جو جہالت
کی تاریک گھاٹیوں میں رہتا ہے تو وہ ہمیشہ گمراہیت اور بے دینی کے راستے
میں بھٹکتا پھرتا ہے اور ناکام و نامراد رہتا ہے اس لئے جِس طرح دُنیاوی
مُعاملات کو بہتر طریقے سے انجام دینے کیلئے ہمیں دُنیاوی علوم میں مہارت
کی ضرورت پیش آتی ہے بالکل اِسی طرح ہدایت کے راستے پر چلنے کے لئےعلم دین
کا ہونا لازمی ہے جیسے کسی کو نمازکا کلیۃ ًعلم نہیں تو وہ کبھی بھی نماز
نہیں پڑھے گا اور جسے اتنا علم ہو کہ مسلمان پرنماز فرض ہے تو وہ اس علم کی
بدولت اپنی منزل تک پہنچنے کی تگ و دو کرے گا ۔جِسکے لئے اب وہ کسی صاحب
علم کے پاس جاکر نماز کا طریقہ معلوم کریگا کہ نماز کیا ہے اسے کس طرح
پڑھتے ہیں کس وقت پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ پھر اس شخص نے جتنا علم حاصل کیا
ہوگا اس کی نماز کی درستگی کا امکان بھی اسی قدر زیادہ ہوگا مثلًا اگر اس
نے نماز کی شرائط وفرائض و واجبات کا علم حاصل کیا مگر مفسدات کا علم نہیں
لیا توعین ممکن ہے کہ کبھی وہ نماز کی حالت میں کوئی مفسدِ نماز عمل کرے
اور یوں اس کی نماز فاسد ہو جائے المختصر یہ کہ ہدایت حاصل کرنے کے لئے علم
دین کا حُصول نہایت ہی ضروری ہے اب ہر شخص عالم و مفتی تو نہیں ہوسکتا مگر
ہر مسلمان پر یہ ضرورلازم ہے کہ وہ اتنا علم ضرور حاصل کرے کہ جس سے اُس کی
عبادات دُرست ہوجائیں اور اس کے علاوہ وہ کسی حرام کام کا مرتکب نہ ہوجائے
لِہذ ا اِن محرمات بچنے کے لئے ان سے آگاہی کا ہونا بھی لازمی ہے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ
طلب العلم فریضة علٰی کل مسلم۔“ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۲۲۹”
ترجمہ:- ”علم کا طلب کرنا فرض ہے ہر مسلمان پر (خواہ وہ مرد ہو یا عورت)۔
اور اتنا علم دین حاصل کرنے کے بعد کوئی یہ نا سمجھے کہ اب مجھے علم دین
حاصل کرنے سے خلاصی ہو گئی ہے بلکہ جب بھی کوئی نیا معاملہ درپیش ہو تو
علما ء کرام سے راہنمائی حاصل کر ے اور یوں اس طرح حکم ربانی عزوجل پر عمل
کرے
فَسئلوا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۴۳ 4. تو اے
لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّان أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ
وَعَلَّمَهُ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن
سیکھے اور دوسروں کو سکھائے
سنن الترمذی حدیث نمبر 2832
عَنِ الضَّحَّاكِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : اغْدُ
عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً ، وَلاَ خَيْرَ فِيمَا سِوَاهُمَا
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تو صبح اس حالت میں کر کہ تو عالم
ہویا متعلم یعنی علم سیکھنے والا اور ان دو کے علاوہ میں بھلائی نہیں.
سنن الدارمی حدیث نمبر 346
وَقَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ
خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِى الدِّينِ ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا
ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور بے شک علم سیکھنے سے ہی
آتا ہے ۔
(بخاری باب الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَن سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ ، عَنْ
أَبِي الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللهِ : إنَّ الرَّجُلَ لاَ
يُولَدُ عَالِمًا ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ.
حضرت عبد اللہ نے فرمایا کہ بے شک انسان عالم پیدا نہیں ہوتاعلم تو سیکھنے
سے ہی آتا ہے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر26647)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَن مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَن
سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ :
تَعَلَّمُوا قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ ، فَإِنَّ الْعَالِمَ
وَالْمُتَعَلِّمَ فِي الأَجْرِ سَوَاءٌ
حضرت ابو درداء نے فرمایا کہ علم حاصل کرو قبل اس کے کہ علم اٹھا لیا جائے۔
بے شک عالم اور متعلم اجر میں برابر ہیں۔
( مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر26645)
ایک دور تھا جب لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے کئی دنوں کا کٹھن سفر طے
کیاکرتے تھے ان کےپاس علم دین حاصل کرنے کے مواقع ہمارے مقابل میں بہت کم
تھے مگر پھر بھی وہ لوگ دور دراز کے علاقوں سے احادیث طیبہ سننے کے لئے آیا
کرتے تھے جیسا کہ ایک بہت ہی مشہور تحصیل علم دین کی حدیث مبارکہ ہے
حَدَّثَنَا عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ
الْمَدِينَةِ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ مَا
أَقْدَمَكَ أَيْ أَخِي قَالَ حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُ بِهِ
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا
قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ قَالَ لَا قَالَ أَمَا قَدِمْتَ لِحَاجَةٍ قَالَ لَا
قَالَ مَا قَدِمْتَ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ نَعَمْ قَالَ
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ
طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا
رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّهُ لَيَسْتَغْفِرُ لِلْعَالِمِ مَنْ فِي
السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ وَفَضْلُ
الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ
الْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ لَمْ
يَرِثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرِثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ
أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ
کثیر بن قیس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے دمشق حضرت ابو درداء رضی
اللہ عنہ کے پاس آ یا آپ نے اس سے آنے کی وجہ دریافت فرمائی تو وہ کہنے لگا
مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ
بیان فرماتے ہیں آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم تجارت کے لئے آئے ہو اس نے کہا
نہیں آپ نے پوچھا کسی کام کی غرض سےآئے ہو اس نے جوابا کہا نہیں بے شک میں
صرف حدیث پاک سننے کے لئے حاضر ہوا ہوں آپ نے فرما یا ہاں میں وہ حدیث پاک
بیان کرتا ہوں وہ حدیث پاک یہ ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
یہ فرماتے سنا کہ جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لئے کسی راستے پر چلتا ہے تو
اللہ اسے جنت کے را ستے کی طرف لے جاتا ہے بے شک فرشتے طالب علم کے لئے
اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور زمین و آسمان میں تمام مخلوق حتی کہ سمندر میں
مچلیاشں بھی عالم کے لئےمغفرت کی دعا کرتیں ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر
ایسی ہے جیسے چاند کی تمام ستاروں پر اور بے شک علماءانبیاء کے وارث ہیں
انبیاء کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے ہیں اور جس نےعلم دین حاصل
کیا اس نےعظیم حصے کو پالیا۔
( مسند احمد حدیث نمبر20723)
انشاءَ اللہ عزوجل اگلے مضمون میں ہم طہارت یعنی پاکی ناپاکی سے متعلق سوال
و جواب پر گُفتگو کریں گے ۔
والسلام مع الاکرام ابوالسعدمفتی محمد بلال رضا قادری
|