بارک حسین اوباما امریکہ کے 44ویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھاکر بطور پہلے سیاہ
فام صدر سفید محل میں داخل ہوچکے ہیں جبکہ قصرِ ابیض کو انسانی لہو سے قصرِ
احمر میں تبدیل کردینے والے سابق صدرِ امریکہ جارج ڈبلیو بش سفید محل سے نکل کر
قصہ پارینہ بننے کےلئے اپنے آبائی علاقے کی جانب تشریف لے جاچکے ہیں اور وقت کے
ساتھ ساتھ جوں جوں اوراق سیاست دھندلے ہوتے جائیں گے لوگ آہستہ آہستہ صدر بش کو
فراموش کرتے جائیں گے یوں ایک دن وہ صرف تاریخ میں ایسے سیاہ باب کے طور پر
زندہ رہیں گے جسے کھولنا اور پڑھنا کوئی پسند نہیں کرے گا مگر ایک حقیقت یہ بھی
ہے کہ صدر بش کو تو لوگ فراموش کردیں گے مگر دنیا بھر میں صدر بش کی پالیسیوں
کی وجہ سے جو بدامنی ‘ دہشت گردی ‘ ظلم ‘ جبر ‘ استحصال ‘ سامراجیت اور سرمایہ
داریت کی آگ لگی ہوئی ہے اسے کون ‘ کب تک اور کس طرح بجھائے گا؟ یا یہ آگ دنیا
کو مکمل طور پر بھسم کرنے کے اسباب پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔
امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاہ فام صدر کا سفید محل میں داخلہ بیشک
امریکہ میں فکری سطح پر رونما ہونے والی انقلابی تبدیلی کا یہ ایک جیتا جاگتا
نمونہ ہے کہ دنیا کی اس طاقتور ترین مملکت میں عہدہ صدر پر پہلی بار ایک سیاہ
فام صدر ممکن ہوگیا اوباما کی تاجپوشی کے ساتھ ہی اب قیاس آرائیوں کا ایک دفتر
کھل جانا فطری ہے کیونکہ نئے مزاج‘نئے انداز‘نئی نسل اور نئی فطرت کا مجموعہ
سمجھی جانے والی شخصیت مسندِ صدارت پر فائز ہو چکی ہے۔ صدر امریکہ کی حیثیت سے
اوباما خارجی و داخلی معاملات و مسائل کے حل میں کس پیشرفت کا مظاہرہ کریں گے
اس سلسلے میں کسی طرح کی رائے زنی فی الوقت عجلت پسندی کا مظہر ہوگی‘لیکن اس
وقت امریکہ کو جو صورتحال درپیش ہے اور جس معیشت و معاشرت کا جنازہ ان کے پیشرو
جارج ڈبلیو بش نے انہیں ورثے میں دیا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی بھی تجزیہ
نگار اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ اوباما تمام کے تمام معاملات کے حل میں نئی
فکر‘نئے انداز اور نئے طریقہ کار کے ذریعے کامیابی حاصل کرلیں گے۔ ویسے ماہرین
کہتے ہیں کہ داخلی سطح پر معیشت کی بہتری کے لئے نو منتخب صدر زبردست سرمایہ
کاری کو یقینی بنانا چاہیں گے اور ان کے لئے سابق امریکی صدر آئزن ہاور کی
پالیسیاں عملی رہنمائی ثابت ہوسکتی ہیں‘ جنہوں نے1950ءمیں انفرا اسٹرکچر یا
تعمیرات کو بہتر بنانے کے لئے بے مثال کارنامہ انجام دیا تھا جو اب تک کی
امریکی تاریخ کا بے مثال نمونہ بھی قرار پاتا ہے داخلی سطح پر جہاں ایک طرف
اوباما کے لئے معیشت کے دیوالیہ پن کو دور کرنے کا نسخہ سامنے لانا ناگزیر ہے
وہیں دوسری جانب صحت عامہ اصلاح‘ ماحولیات میں تبدیلی وغیرہ کے ساتھ داخلی
عوامل کو بھی بہتر بنانا ان کے لئے ضروری ہوگا تاکہ امریکیوں کے تبدیلی فکر کے
خواب کو عملاً شرمندہ تعبیر کیا جاسکے داخلی اعتبار سے معیشت و معاشرت کے جنازے
کو کاندھا دینے میں بارک اوباما کس حد تک کامیاب ہوں گے اس فیصلے کا تعلق تو
امریکیوں سے ہے جس کا براہ راست دنیا پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں یہ اور بات ہے
کہ دور رس منفی اثرات سے دنیا کا متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے‘یہی وجہ ہے کہ
اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے
اعلان کیا کہ ”امریکہ ایک بحران سے دوچار ہے جسے مقصد کے حصول کے متحد جذبے کے
ساتھ شکست دی جاسکتی ہے ‘ آج میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو چیلنجز ہمیں
درپیش ہیں وہ حقیقی ہیں یہ چیلنجز سنگین ہیں اور وہ تعداد میں کئی ہیں ان سے
آسانی کے ساتھ یا مختصر وقت میں نمٹا نہیں جاسکتا لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ
امریکہ ہے ان سے نمٹا جائے گا“۔
اوباما نے اپنے خطاب میں مسلم دنیا کے ساتھ ایک نئی شروعات کرنے کا وعدہ کرتے
ہوئے کہا کہ ”مسلم دُنیا کیلئے ہم آگے کی سمت ایک نئے راستے کی تلاش کریں گے جو
باہمی مفاد اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہوگا“۔
اور یہی بات سب سے زیادہ قابل توجہ اور عالم گیر سطح پر اثر انداز ہونے والی ہے
کہ اوباما امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلی لاتے ہیں ؟
سوال یہ ہے کہ بارک اوباما عراق سے فوجی انخلا کے تعلق سے کیا مؤقف اختیار کریں
گے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اوبامہ ” جہنم کدہ“ میں تبدیل ہو چکے افغانستان میں قیام امن
کے لئے کون سا نسخہ بروئے کار لائیں گے؟
سوال یہ بھی ہے کہ ابو غریب سے لے کر” گوانتاموبے“ تک انسانیت کی تاراجی روا
رکھے جانے کے سابقہ فیصلوں سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لئے وہ کیا کریں
گے؟
اور سب سے بڑھ کر سوال تو یہ ہے کہ دھونس اور دھمکیوں کے بجائے دنیا کو ساتھ لے
کر چلنے کے لئے ان کے پاس کون سا نیا فارمولا ہوگا جو امریکہ کی بگڑ چکی ساکھ
کو بہتر بنانے میں معاون و مددگار ہو؟
مسئلے ایک نہیں ‘ہزار ہیں جبکہ دماغ ایک
اب سوال یہ ہے کہ ہزار مسئلے جس سیاہ فام امریکی صدر اوباما کو” بش “نے سوغات
کے طور پر دیے ہیں ‘ ان سے نمٹنے کے لئے ایک نحیف اور لاغر جان اوباما کیا کیا
کرے گا؟
مسائل کے بحر بیکراں میں ڈوبے امریکیوں کو یقینی طور پر بارک اوباما سے زیادہ
توقعات ہرگز وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ یہ ایک فطری امر ہے کہ بارک اوباما
ان مسئلوں سے یقینی طور پر نہیں نمٹ پائیں گے اور قدم قدم پر انہیں دشواریوں کا
سامنا کرنا پڑے گا۔بعض معاملات و مسائل کے حل میں بارک اوباما کو مکمل طور پر
جارج بش کی تقلید ہی کرنا ہوگی کیونکہ فکری اعتبار سے دونوں امریکی سیاسی
جماعتیں یعنی ڈیمو کریٹ یاری پبلکن تھوڑے فرق کے ساتھ ایک ہی نظریہ رکھتی ہیں
لہٰذا ایسے اُمور میں جو اسرائیل نوازی سے متعلق ہیں یا ایران دشمنی سے تعلق
رکھتے ہیں شاید بارک اوباما کسی انقلابی تبدیلی کا نظریہ پیش نہیں کر پائیں گے
اور نتیجے کے طور پر امیدوں کا تاج محل یقینی طور پر منہدم ہوگا ۔
رہی بات افغانستان سے جان چھڑا کر بھاگنے کی ‘ یا عراق سے پٹ کر لوٹ آنے کی ‘
تو ایسے معاملات میں بارک اوباما کیا تیر مار لیتے ہیں یہ بھی دیکھنے سے متعلق
ہے گویا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امریکی تاریخ میں ایک سیاہ فام صدر کی حیثیت
سے مطلع سیاست پر نمودار ہونے والے بارک اوباما کے لئے بہتر حکمرانی کا خواب
شاید خواب ہی رہے گا
حقیقت سے تعبیر ہونا ناممکن نہ سہی مشکل ترین ضرور ہوگا! قدم قدم پر مشکلات و
مسائل سے نبرد آزمائی ان کا مقدر بننے والی ہے اور پھر دنیا دیکھے گی کہ بارک
اوباما اپنے خارجی معاملات کو کس طرح حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور
داخلی محاذ پر ان کی نیا کیسے ڈوبتی ہے سوائے اس کے کہ ایک سیاہ فام صدر کی
حیثیت سے قصر صدارت تک ان کی رسائی کے علاوہ شاید کوئی بڑی تاریخ امریکہ میں
نہیں لکھی جانی ہے‘دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ یہ قیاس آرائیاں جھوٹ ثابت ہوتی
ہیں یا نو منتخب صدر مسائل سے نمٹنے میں مافوق الفطرت قرار پاتے ہیں۔
اوباما جو ایک عیسائی ہیں‘ انہوں نے اپنے بچپن کا بیشتر حصہ انڈونیشیا میں
گزارا ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے ‘ صدر جارج بش
کے دور میں مسلم ملکوں کے ساتھ امریکہ کے رشتے کافی تلخ اور کشیدہ رہے دنیا بھر
کے مسلمان عراق اور افغانستا کی جنگوں اور گوانتا ناموبے قید خانے کی وجہ سے
امریکہ پر برہم ہوگئے۔اوباما نے گزشتہ 70سال کے بدترین معاشی بحران اور عراق
اور افغانستان کے جنگوں میں امریکہ کے دخل کا حوالہ دیا اور کہا کہ ملک بحران
سے دوچار ہے انہوں نے کہا کہ ”آج کے دن ہم اس لیے جمع ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے
خوف پر ا مید کو اور تصادم و تلخیوں پر مقصد کے اتحاد کو چنا ہے“۔ انہوں نے
اپنی تقریر میں کمزور امریکی معیشت پر جراتمندانہ اور تیزی سے کاروائی کا وعدہ
کیا اور کہا کہ اسے اولین ترجیح دی جائے گی۔ وہ متزلزل امریکی معیشت کو دوبارہ
پٹری پر لانے کیلئے 850 بلین ڈالر کے معاشی پیکیج پر کانگریس کے ساتھ مل کر کام
کررہے ہیں عراق کے تعلق سے اوباما نے عزم کیا کہ امریکہ ذمہ داری کے ساتھ عراق
سے فوج کی دستبرداری کا آغاز کرے گا لیکن انہوں نے کوئی ٹائم ٹیبل مقرر نہیں
کیا ‘انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت کی پیشکش کرتے ہوئے ان لوگوں کو ایک
وارننگ دی جو دہشت گردی کرتے ہیں انہوں نے کہا ”ہم ہمارے طرز زندگی کیلئے معذرت
خواہ نہیں ہوں گے نہ ہی اس کے تحفظ میں ہم کوئی کوتاہی کریں گے اور جو لوگ دہشت
گردی اور بے قصور لوگوں کے قتل عام کے ذریعہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھانا چاہتے
ہیں انہیں ہم کہتے ہیں کہ ہمارا جذبہ مضبوط ہے اور اسے توڑا نہیں جاسکتا۔تم
ہمیں مات نہیں دے سکتے اور ہم تمہیں شکست دیں گے“۔
خوبصورت لفظوں میں لپٹی تقریر کے ساتھ دی جانے والی بارک اوبامہ کی یہ دھمکی اس
بات کو واضح کررہی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ اوبامہ کے دورِ حکومت میں
بھی نہ تو ختم ہوگی اور نہ ہی اس کے اغراض و مقاصد میں کوئی تبدیلی آئے گی وقتی
طور پر تو یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ دنیا کے مسلم ممالک کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے
کے لئے اس جنگ میں کچھ نرمی ضرور واقع ہوجائے مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ مسلم
دنیا کےلئے اوبامہ بھی بش سے کچھ بہت زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوں گے اور نہ ہی
صیہونی مفادات کے تحفظ سے باز آئیں گے ۔ |