حیدرآباد میں سنگھی فساد

8اپریل، اتوار کی صبح کوحیدرآباد شہر کے محلہ کرماگڈاکی ایک گلی میں واقع ہنومان مندر کی بیرونی گرِل پر کسی مویشی کی جلی ہوئی دوٹانگیں اور دیوار پر سبز رنگ کی پینٹ کے چھینٹوں نے شہر کی فضا کو مکدرکردیا۔براہ راست پولیس کو مطلع کرنے کے بجائے مندر کے پجاری نے صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے علاقے کے بھاجپا کارپوریٹر سہدیو یادو کو اطلاع دی۔ وہ گویا تیار بیٹھے تھے۔ فوراً مندر پہنچ گئے۔ پولیس کو فون کیا۔ سات بجے پولیس بھی پہنچ گئی۔ ساڑھے سات بجے ڈاگ اسکوائڈ آ گیا۔ اسی دوران چند نوجوان، جو تہواروں وغیرہ کے موقع پر پنڈال لگانے اور دیگر خدمات میں سرگرم رہتے تھے، گھوم گھوم کر محلے والوں کو ’مندر کی بے حرمتی‘ کی اطلاع دیتے رہے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے کوئی دوسو افراد مندرکے پاس جمع ہوگئے ۔ اس بھیڑمیں زیادہ تعداد 15تا 25برس کے نوجوانوں کی تھی۔

کھوجی کتے کوئی آدھا کلومیٹر تک گئے اورسڑک پر ایک پیٹرول پمپ کے پاس جاکر رک گئے۔جس کا مطلب یہ ہوسکتاہے کہ سازشی وہاں سے کسی گاڑی میں سوار ہوکر فرارہوئے۔پولیس انسپکٹر سے بھی چوک ہوئی۔ ضابطہ کے خلاف اس نے ہجوم کوبھی ساتھ ساتھ سڑک تک آنے دیا۔ ہوسکتا ہے کتوں کو ملزموں کی خوشبو آگے اٹھانے میں اسی وجہ سے دشواری آئی ہو ۔ جیسے ہی کتوں کی بیش رفت رکی، اس ہجوم کی اشتعال انگیزی میں ابال آگیا اور قریب میں واقع اقلیتی فرقہ کی دوکانوں اور سرکاری بسوں پر پتھراﺅ شروع کردیا۔بس مسافروں پر حملے کئے گئے، چاقو زنی کی وارداتیں بھی ہوئیں ۔ چنانچہ دوخواتین سمیت کم ازکم آٹھ افراد زخمی ہوئے ۔ہجوم کو تشدد سے باز رکھنے کےلئے پولیس نے معمولی طاقت کا استعمال کیا اور بھیڑ کو بھگادیا ۔ واپس لوٹتے ہوئے اس ہجوم نے اقلیتی فرقہ کے کچھ اور مکانوں پر پتھراﺅ کیا۔ مندر کے پاس واقع ایک گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جس کے مکین اسی صبح طے شدہ پروگرام کے مطابق زیارت کےلئے روانہ ہوئے تھے۔

ساڑھے دس بجے کے قریب کچھ لوگ قریب کی پسل بستی اور ذاکر حسین کالونی کے جنکشن پر آمنے سامنے جمع ہوگئے۔ پتھراﺅ اور جوابی پتھراﺅ ہوا۔ پولیس نے بلاتامل کاروائی کی اور دونوں طرف سے محاذ آرا ہجوم کو منتشر کردیا۔ چنانچہ ساڑھے گیارہ بجے تک حالات قابو میں آگئے ۔ مگر پورے شہر میں افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔ ضلع حکام نے فوراً ہی پورے شہر میں تعزیرات ہند کی دفعہ 144کے تحت امتناعی احکامات نافذ کردئے اور دو تھانہ علاقوں سعدآباد اور مدنا پیٹ میں کرفیو لگا دیا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پولیس اور ضلع حکام نے فسادکے آثار پیدا ہوتے ہی مستعدی دکھائی اوراس کو پھیلنے نہیں دیا۔ اس کے باوجود اگلے چند روز میں چار مسجدوں اوردو مندروں کو نقصان پہنچایا گیا۔مندروں کو اگر نقصان شرپسند ہندوﺅں نے ہی پہنچایا ہے تو وہ جانیں ۔ اگر انتقام کے جذبہ سے مسلمان اس میں ملوّث ہوئے ہیں تو گناہ کیا۔ ہمارا دین کسی کی عبادت گاہ کو یا کسی بے قصور کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ہاں فتنہ پروروں سے جان و مال کی حفاظت کےلئے دفاع کا قانونی ، اخلاقی اور دینی حق ہر شہری کوحاصل ہے۔سابقہ تجربہ یہ ہے کہ پولیس شرپسندوں کو تو روکتی نہیں، اپنی دفاع کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہے ۔ فسادی فرار ہوجاتے ہیں اور پولیس کمزور طبقے کے گھروں میں گھس گھس کر فساد برپا کرتی ہے۔مظلوم چلاتے رہتے ہیں اور ان کی آواز ارباب اقتدار تک نہیں پہنچتی۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ پولیس نے فساد کو پھیلنے نہیں دیا اور سرکار نے زخمیوں کو فوراً مالی امداد پہنچائی۔ تاہم املاک کے نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالی نقصان زیادہ نہیں ہوا ہے ۔ تاہم چند موٹر سائکلوں کوآگ لگادی گئی اور وہ برباد ہوگئیں۔ جن کا بیمہ ہوگا ان کے نقصان کی توقع ہے کسی حد تلافی ہوجائیگی۔

فساد کی کیفیت پیدا ہوتے ہی پولیس نے احتیاطاً کچھ گرفتاریاں کیں جن میں 18مسلمان بھی شامل ہیں۔لیکن حیرت کی بات ہے مسٹر یادو کو حراست میں نہیں لیا گیا، حالانکہ وہ پہلے ہی دن سے پیش پیش تھے۔ جرم کا پردہ فاش رمیش نام کے ایک نوجوان ہوٹل ویٹر کے اقبال جرم سے ہو۔ اس کو گرفتار تو پہلے ہی دن کرلیا گیا تھا،مگرتفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی ضمانت پر چھوڑدیاگیا۔ شایدکسی کادباﺅر ہا ہوگا۔واقعہ کے جانچ کےلئے مقررپولیس کی خصوصی ٹیم (STF) نے رمیش کو دوبارہ طلب کرکے پوچھ تاچھ کی تو سازش کا پردہ فاش ہوگیا۔اس کی نشاندہی پر میونسپل کارپوریشن کے صفائی سپروائزر ناگراج، پھولوں کا کام کرنے والا کرن کمار اور ایک کار ڈرائیور دیانند کو گرفتار کیا گیا۔ یہ چاروں محلہ کرماگڈا کے باشندے ہیں جہاں کے مندر میں سازشیوں نے چنا تھا۔ ان سب کا تعلق ’ہندو واہنی‘ سے بتایا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی مندر میں ’گائے کی جلی ہوئی ٹانگیں‘ پائی جانے اوردیواروں پر سبز رنگ کی اطلاع محلے میں گھر گھر جاکر پہنچائی اوروہی نوجوانوں کوجمع کرنے، اشتعال دلانے اور پتھراﺅ میں نمایاں رہے۔

ان گرفتاریوں کے بعد محکمہ خفیہ کے ایڈیشنل ڈی سی پی مسٹر پی جے وکٹر نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ سازش ایک فرار ملزم نرنجن کی شراب کی دوکان پر رچی گئی تھی۔ اس میں شریک ایک سود خورمہاجن سرینواس بھی فرار ہے ۔ جس وقت سازش رچی گئی وہ بھی موجود تھا۔ ناگراج صفائی کرمچاری ہے۔ اس کو معلوم تھا مردہ گائے کو کس جگہ دبایا جاتا ہے۔چنانچہ سات اور آٹھ اپریل کی درمیانی رات میں چنچل گڈا علاقے سے زمین میں دفن مردہ گائے کے دوپیر وہ کاٹ لائے اور ان کو مندر کی گرل پر لٹکا دیا ۔ مندر کی دیواروں پر ہرا رنگ ڈال دیا جس کو اسلامی رنگ تصور کیا جاتاہے۔ اس سازش کے دونوں سرغنہ نرنجن اور مہاجن ہندوواہنی کے مقامی لیڈر ہیں۔ اس انتہا پسند تنظیم کا بانی گورکھپور سے بھاجپا ایم پی آدتیہ ناتھ ہے اور کئی جگہ فسادات میں اس کا نام آچکا ہے۔

مقامی میڈیا نے فوراً اس واقعہ کو اشتعال انگیز فرقہ ورانہ رنگ دیدیا اور سیدھے سیدھے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ وی ایچ پی لیڈر بدّم بال ریڈی، ہندو واہنی لیڈر گووند راٹھی اور بھاجپا کونسلر سہدیو یادو نے اشتعال انگیز مظاہروں کی قیادت کی اور مسلم دشمن جذبات پھیلانے کی کوشش کی۔ بدّم بال ریڈی اور سہدیو یادو اس ہجوم میں موجود تھے جس نے بس مسافروں پر اوردیگر املاک پر حملے کئے۔ یہی لوگ ساز ش کے’ ملزموں‘کو گرفتارکرنے کے مطالبے میں بڑے پرجوش تھے۔ لیکن جیسے ہی اس ناپاک حرکت میں ہندو واہنی کے کارکنوں کا ہاتھ ہونے کا انکشاف پولیس نے کیا اور چار گرفتار شدگان نیز دو فرار ملزمان کے نام منظر عام پرآئے، ان کے احتجاج کا رنگ بدل گیا۔اب وہ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پولیس نے ’اصل ملزموں ‘ کونہیں پکڑابلکہ بے قصور ’قوم پرست‘ہندو نوجوانوں سے جبراً اقبالیہ بیان لئے ہیں۔ شاید ان کو گمان یہ تھا کہ سابق کی طرح پولیس ان کے اشاروں پر ناچے گی اور مسلم نوجوانوں کو جس طرح مکہ مسجد بم دھماکہ اور دیگر جرائم میں گرفتار کرکے زود و کوب کیا گیااور اقلیتی فرقہ کو نکو بنانے کی سازش میں ساتھ دیا ویسا ہی اب بھی ہوگا۔چنانچہ اب وہ پولیس کو ہی نشانہ بنارہے ہیں۔ ہرچند کہ پولیس نے ان تینوں کو گرفتار نہیں کیا ہے ، لیکن قیاس کیا جارہا ہے کہ گرفتاری ان کی بھی ہوسکتی ہے۔8سے 12اپریل تک کے واقعات کی چھان بین کےلئے چند مقامی تنظیموں نے12 اپریل کو ایک ’فیکٹ فائنڈنگ‘ کمیٹی تشکیل دی، جس نے مثاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں کے عام باشندوں اور سماجی کارکنوں سے بات کرکے اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس کمیٹی میں مسٹر جیون کمار، سید بلال، محترمہ نورجہاں ، محترمہ اودھیش رانی، ڈاکٹر مظہر حسین اور مسٹر بی آر راجو شامل تھے۔ کمیٹی کو مقامی باشندوں عظیم خان ایڈوکیٹ، وجے کمار، یادگری ریڈی، صمد اور وحید انصاری کے مدد بھی حاصل رہی۔ رپورٹ میں اس خوش آئند پہلو کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سماج کے سنجیدہ لوگوں نے بروقت ہوشمندی کا مظاہرہ کرکے اس فرقہ ورانہ آگ کو بھڑکنے سے روکا اور مخالف فرقوں کے لوگوں نے ایک دوسرے کو تحفظ بھی فراہم کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہندو بھائی ہرگز فرقہ پرست یا فتنہ پرور نہیں ہیں۔ وہ صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے چلے آئے ہیں اور اب بھی یہی چاہتے ہیں۔فرقہ پرستی پھیلانے والے چند لوگ ہیں جو اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عوام اب سنگھیوں کی چالوں کو سمجھ چکے ہیں۔حیدرآباد میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب سنگھ پریوار نے اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کےلئے فرقہ ورانہ کشید گی پھیلانے کی چال چلی ہے۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔ لوک سبھا کے انتخاب بھی عنقریب ہونے والے ہیں۔سنگھیوں کے پاس انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کےلئے کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے۔ ہمیشہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر صف بندی نے ہی ان کی کامیابی کا راستہ ہموارکیا ہے۔ ماضی میں بھی سنگھی اس حربہ سے کام لیتے رہے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ چند سال قبل تک کانگریسی حکومتیں ان کی مسلم دشمن فرقہ ورانہ سرگرمیوںپر چشم پوشی سے کام لیتی رہیں اورفطری مسلم دشمنی میں فرقہ پرستوں کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بنتی رہیں۔لیکن ادھر چند سالوں سے صورتحال بدلی ہے۔ اگر آندھرا پردیش سرکار فرقہ پرستی کی حوصلہ افزائی کی پرانی روش پر چلتی تو فساد کی یہ چنگاری نجانے کتنی تباہی اورمچاتی۔

گزشتہ چند سالوں سے سنگھیوں نے فسادات کے بجائے دہشت گردانہ حملوں کی حکمت عملی اختیار کی تھی ۔ طریقہ کار یہ تھا کہ دہشت گردانہ حملے کراﺅ اور اس کا الزام اقلیتی فرقہ کے سر رکھو۔ اس کام میں میڈیا اورسیکیورٹی فورسز میں ان کے ہم نوا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ سے مسٹر شیوراج پاٹل کے رخصت ہوجانے کے بعد سنگھی دہشت گردی پر سے نقاب اٹھنی شروع ہوگئی اور کئی واقعات میں سنگھ پریوار کے کارندوں کی شرکت کے ثبوت مل گئے ہیں۔قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA)نے 30اپریل کو ہی یہ انکشاف کیا ہے ملک میں رونما ہونے والے بیشتر دہشت گرد حملوں میںآر ایس ایس کے سرکردہ لیڈر سنیل جوشی کے تحت قائم گروہ کا ہاتھ رہا ہے، جن میں حیدرآباد کی مکہ مسجد، درگاہ اجمیر شریف، سمجھوتہ ایکسپریس، پورنہ، پربھنی، جالنہ اور ناندیڑ کے مدارس و مساجد اور مالیگاﺅں وغیرہ کے دھماکے شامل ہیں۔ سنگھی دہشت گردوں کی اس پکڑ دھکڑ ، حالیہ اسمبلی انتخابات میں مایوس کن کاردکردگی اور رشوت خوری کے معاملات میں بھاجپا لیڈروں کے بے نقاب ہونے خصوصاً سابق صدربنگارو لکشمن کو سزائے قیدکی وجہ سے سنگھ پریوار میں شدید مایوسی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر فرقہ ورانہ فسادات بھڑکا کر ہندو ووٹ حاصل کرنے کی چال چلنا چاہتا ہے۔ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں کہ بھاجپا کے پاس ہر معاملہ میں سرکار کی محض مخالفت کرنے اور فرقہ ورانہ خطوط پرعوام کو تقسیم کرنے کے علاوہ اگر کوئی اور ایجنڈہ ہے تو اس کو سامنے لائے اور رائے دہندگان کی تائید حاصل کرکے اقتدار میں آئے ، مگر فرقہ ورانہ جذبات کو بھڑکاکر اقتدار کی مسند تک پہنچنے کا اس کاایجنڈہ قوم پرستی کا نہیں قوم کی تباہی کا راستہ ہے جس کا مقابلہ تمام باشعور ہندستانیوںکو مل جل کر کرنا ہوگا۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.