ٹیکنالوجی کا انتظار

ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ جدید علوم و فنون کی مدد سے زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں یا صرف مشکلات۔ دنیا کا دعوٰی ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی زندگی میں سہولتیں پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ مغرب میں تحقیق پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اور اِسی کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ اب زندگی طرح طرح کی آسانیوں سے ”دوچار“ ہے! کل تک جس تحقیق کو انسان کے لیے لازمی قرار دے کر اس کی غیر معمولی اہمیت کا راگ الاپا جاتا تھا وہی تحقیق اب چُھرا بن کر مغربی تہذیب کی پیٹھ میں پیوست ہے!

رابطے بہتر بنانے کے طریقوں ہی کو لیجیے۔ کل تک یہ کہا جاتا تھا کہ انسان بہتر رابطوں کے بغیر اچھی زندگی بسر کر ہی نہیں سکتا۔ سو سو طرح سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ رابطوں کو بہتر بنانا انسان کی بقاءکے لیے ناگزیر ہے۔ مگر یہ بھی طُرفہ تماشا ہے کہ جب رابطے آسان ہوئے تو زندگی مشکل ہوگئی!

وہ بھی کیا تھے جب مواصلاتی ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی اور ٹیلی کام سیکٹر ہماری زندگی میں ”گُھس بیٹھیے“ کی طرح نہیں آ نہیں دھمکا تھا۔ زندگی کے دریا کی ”ڈِھٹائی“ ملاحظہ فرمائیے کہ بے حساب رابطوں کے بغیر بھی رواں تھا! گنتی کے چند افراد سے شناسائی رکھی جاتی تھی اور زندگی بہت مزے سے بسر ہوتی تھی۔ رابطوں کی آلودگی سے پاک وہ حسین زمانہ اب صرف ہمارے حافظے میں رہ گیا ہے!

اب تو قیامت یہ ہے کہ رابطوں کے سمندر میں زندگی کا حُسن غرق ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم صرف رابطوں کے لیے پیدا کئے گئے ہیں! جسے دیکھیے وہ زندگی کو کِسی نہ کِسی طرح کے رابطے کی زنجیر سے باندھنا چاہتا ہے۔ سبھی اِس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں تنہا نہ رہ جائیں اور اِسی خوف نے اُنہیں شدید تنہائی سے دو چار کیا ہے!

برطانیہ میں ایک تازہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 16 فیصد باشندے رابطوں کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی پر اِس قدر انحصار کرتے ہیں کہ اب اُن کی زندگی میں جیتے جاگتے انسانوں سے رابطہ خطرناک سطح تک گرگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کِسی سے ملنے پر مشینی یا الیکٹرانک رابطے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹیکسٹ میسیجنگ، ای میل اور وڈیو لنک کے ذریعے رابطے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو کِسی سے بات کیے بغیر دو تین دن بھی گزر جاتے ہیں! ساری دنیا سے رابطے میں رہنے کی دُھن سَروں پر ایسی سوار ہوئی ہے کہ لوگ اپنے قریب ترین ماحول سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں۔

ٹیلی کام سیکٹر کی پیش رفت نے بُہتوں کو تنہائی کے پنجرے میں اِس طور بند کردیا ہے کہ اب وہ روز مرہ استعمال کی اشیاءخریدنے کے لیے بھی گھر یا دفتر سے نکلنا پسند نہیں کرتے۔ اُن کے شب و روز کچھ اِس ڈھنگ سے گزرتے ہیں کہ سمجھنے والے سمجھ نہیں پاتے کہ زندگی وہ بسر کر رہے ہیں یا زندگی اُنہیں بسر کر رہی ہے!

اہل مغرب کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پہلے وہ بہت شوق سے اپنے لیے گڑھا کھودتے ہیں اور جب اُس میں گر جاتے ہیں تو شور مچاتے ہیں، ہنگامہ برپا کرتے ہیں! مغرب کا قصہ یہ ہے کہ پہلے تو ہر شعبے میں تحقیق کا مینا بازار سجایا جاتا ہے مگر مگر جب تحقیق کا کھڑاگ حد سے گزرتا ہے تو اہل مغرب جان جاتے ہیں کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ جدت سے ہمکنار کرنے کے چکر میں اہل مغرب نے سب کچھ تباہ کر ڈالا ہے۔ معاش نے معاشرت کو کہیں کا رہنے نہیں دیا۔ ٹیلی کام سیکٹر کی ترقی نے جو قیامت ڈھائی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے رابطوں کو اِس قدر بڑھا دیا ہے کہ فضاءمیں اب آکسیجن کم، رابطے زیادہ ہیں! جلووں کی فراوانی سے آنکھوں کے خیرہ ہونے کا سُنتے آئے تھے، دیکھ بھی لیا! رابطوں کے اژدہام نے قلب و نظر کو حیران کردیا ہے۔ کیفیت کی نوعیت ملاحظہ فرمائیے کہ قلبی تعلق چند ایک سے اور نظری و بصری تعلق بیسیوں بلکہ سیکڑوں، ہزاروں سے ہے! اب اگر یہ کیفیت انسان کو دیوانگی سے دو چار نہ کرے تو کیا کرے؟

ہم اس بات پر حیران ہیں کہ جس ٹیکنالوجی نے مغرب میں انسان کو تنہائی کا اسیر بنادیا ہے وہ ہمارے ہاں ناکام کیوں ہے اور اب تک ہماری خواہشات سے مطابقت رکھنے والے نتائج کیوں پیدا نہیں کر رہی! مرزا تفصیل بیگ کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا کسی کے سامنے بے بس ہو جانا کیا ہوتا ہے! رابطوں کے دسیوں طریقے منظر عام پر آنے کے باوجود مرزا اب تک براہِ راست یعنی ”بہ قلم خود“ رابطے پر یقین رکھتے ہیں!

جس ٹیلی کام ٹیکنالوجی نے مغرب میں لوگوں کو شدید تنہائی کی تحویل میں دے دیا ہے وہی ٹیکنالوجی جب مرزا تفصیل بیگ کے سامنے آتی ہے تو دست بستہ پناہ مانگتی ہے! سچ تو یہ ہے کہ مرزا نہ ہوں تو ٹیکنالوجی مغرور ہو جائے اور کِسی کے قابو میں نہ آئے! مرزا نے ”بازوئے ذہن“ کی قوت سے ثابت کیا ہے کہ زمانے کی ترقی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس معاملے میں اُن کی ثابت قدمی مثالی نوعیت کی ہے! یعنی
زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد!

مرزا کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو رابطوں کے لیے کسی بھی ٹیکنالوجی کے محتاج نہیں بلکہ اپنی ٹیکنالوجی خود پیدا کرلیتے ہیں! زمانہ خواہ کہیں پہنچ گیا ہو، مرزا وہیں کھڑے ہیں جہاں بیس تیس سال پہلے تھے۔ آج بھی جب وہ کوئی ایسی ویسی خبر سُنتے یا پڑھتے ہیں تو شدید حیرت اور تشویش کی حالت میں سیدھا ہمارے گھر کا رُخ کرتے ہیں! ہم نے بارہا سمجھایا کہ جدید دور کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا سیکھیے اور کبھی کبھی ملاقات کے لیے موبائل تک بھی محدود رہا کیجیے مگر وہ کہاں ماننے والے ہیں؟ ایس ایم ایس وغیرہ سے اُن کی تشفی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی تو چار چھ ایس ایم ایس بھیجنے پر بھی وہ دِل کی بات بیان نہیں کر پاتے اور بالآخر زندہ و متحرک ایس ایم ایس کے مانند بہ نفس نفیس چلے آتے ہیں!

مرزا کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ خوشی اور غم کے ساتھ ساتھ پریشانی میں سب کو شریک کرتے ہیں۔ کوئی اور ملے نہ ملے، ہم تو اُن کا ہدف ہیں ہی! کسی بھی معاملے پر دِل میں پیدا ہونے والے تمام خدشات سے جب تک وہ ہمیں پوری طرح آگاہ اور پریشان نہ کردیں، اُن کے دِل کو سُکون نہیں ملتا!

مرزا کو بین الانسانی رابطوں کا بے تاج بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دِل سے دِل مِلے نہ مِلے، سَر سے سَر جوڑنے کا ہنر وہ خوب جانتے ہیں۔ مرزا کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پریشان ہونے کے لیے وقت اور موسم کی کوئی قید نہیں۔ یہ کیفیت کِسی بھی وقت اپنے آپ پر طاری کرنے کے بعد دوسروں پر بھی تھوپی جاسکتی ہے! وہ اپنے ذہن میں اُبھرنے والی کسی بھی پریشانی کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے اور ٹیلی کام سیکٹر کی جدید ترین پیش رفت کو نظر انداز کرکے خود اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں! کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں شاید ”پریسیشن ٹیکنالوجی“ کا آئیڈیا اُنہی کو دیکھ کر سُوجھا ہوگا! اُن کے ذہن میں یہ پیدائشی خدشہ برقرار ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی اُن کی بات کماحقہ بیان نہیں کر پائے گی!

ہماری نظر میں وہ قابل رشک ہیں جو ٹیکنالوجی کے ہاتھوں تنہائی کے پنجرے میں بند ہیں۔ ٹیکسٹ میسیجنگ، ای میل اور وڈیو لنک کے ذریعے رابطوں کی صورت میں جو لوگ دنیا سے الگ ہوچکے ہیں اُنہیں ہم رشک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ٹیکنالوجی کے بڑے کارنامے سُنے ہیں۔ ہم تو آنکھوں سے کوئی معجزہ دیکھیں گے تو مانیں گے۔ ہم اب تک ترستے ہیں کہ حقیقی تنہائی کے چند لمحات میسر ہوں اور سُکون کا سانس لیں!

برطانیہ میں ٹیکنالوجی کے ہاتھوں جو لوگ دو تین دن تک بات کئے بغیر رہ لیتے ہیں اُن کے بڑا رتبہ ہے۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ بات نہ بھی کرنا چاہیں تو اپنی خواہش پر عمل نہیں کرسکتے۔ بقول باقی صدیقی
تیر پر اُڑ کے بھی نِشانے لگے!

ہم نہ جائیں تو مرزا بتیانے آجاتے ہیں۔ مرزا اپنے نزول کے لیے شان نزول کے محتاج و مکلف نہیں! اِس معاملے میں وہ خالص random کے اُصول پر کاربند رہتے ہیں۔ چُھری کو اِس سے کیا غرض کہ خربوزے پر کیا گزرتی ہے!

مغرب کو اپنی شاندار اور بے مثال ترقی پر بہت ناز ہے۔ ہم حیران ہیں کہ ایسا کیا ہے جس پر ناز کیا جائے۔ اگر واقعی مغربی ٹیکنالوجی میں کچھ دم ہے تو ذرا ہمیں بھی تنہائی اور سُکون کے چند لمحات حاصل کرنے کے قابل بناکر تو دِکھائے! ہمیں اُس ٹیکنالوجی کا شدت سے انتظار ہے۔ ایک وہ ہیں جو تنہائی کے پنجرے میں قید ہیں اور ایک ہم ہیں کہ کوئی بھی لمحہ کسی نہ کسی کے الطافِ مسلسل سے بالا و مُبّرٰی نہیں۔ مرزا یہ سطور پڑھیں تو ہرگز بُرا نہ مانیں اور یقین رکھیں کہ اُن پر اِن کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہر ٹیکنالوجی سے پرے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524844 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More